ٹک ٹاک پرتقریباً پچانوے فیصد ٹک ٹاکروں کے ہاں شرم، حیا، عزت اور شرافت نام کی کوئی شے ہے نہیں۔ یہ وہ نمونے ہیں جو شرم، حیا، عزت اور شرافت کی چادر کہیں دور بہت دور پھینک کر آئے ہیں۔ سوشل میڈیا بالخصوص ٹک ٹاک پر ان کے کام، کالے کرتوت اور اوچھی حرکتوں کو دیکھ کر انسان شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے مگر یہ بے شرم ذرہ بھی ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ شرم اور حیا بھی آخر کوئی چیز ہے۔ جن لوگوں کو شرم ہو اور نہ حیا اور جنہیں عزت و شرافت سے بھی کوئی لینا دینا نہ ہو وہ پھر ٹک ٹاکرز بننے کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ لائکس، کمنٹس اور فین فالورز کا چسکا ہے یازیادہ سے زیادہ ڈالرز کمانے کا نشہ کہ سوشل میڈیا اور ٹک ٹاک نے اب مشرقی خواتین اور بچیوں کو بھی اخلاقی اقدار اور اپنی اوقات بھلا دی ہے۔ یوں تو شرم، حیا اور عزت و شرافت یہ ہر انسان کے لئے ضروری ہے لیکن ایک وقت اور دور تھا کہ مشرقی دنیا خاص طور پر ہمارے معاشرے میں یہ چیزیں ہر مرد و عورت کے لئے لازم و ملزوم سمجھی جاتی تھیں پر افسوس جدید سائنس کی ترقی میں مغرب کے ساتھ مشرق بھی اس طرح بہہ گیا کہ اب مشرق بھی مغرب کا منظر پیش کرنے لگا ہے۔ مغرب کی طرح اب یہاں بھی شرم، حیا، عزت اور شرافت کے چاند آہستہ آہستہ غروب ہونے کو ہیں۔ بے حیائی، فحاشی اور عریانی نے مسلم دنیا کو اس طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے کہ آج کوئی مسلمان اس سے محفوظ نہیں۔ وہ مسلمان مائیں جن کی کوکھ سے کبھی حضرت خالد بن ولید، حضرت عمر بن عبدالعزیز، صلاح الدین ایوبی، محمود غزنوی اور محمد بن قاسم جیسے حکمران، سپہ سالار اور مجاہد جنم لیتے تھے آج ان ماؤں کی گودمیں شرم و حیا سے عاری ٹک ٹاکرز اور کنجر پرورش پا رہے ہیں۔ پہلے مسلمان مائیں بچوں کے نیک بننے پر فخر کرتی تھیں، ہرماں کی یہ کوشش اور خواہش ہوتی کہ اس کا بچہ یا بچے حافظ قرآن، قاری، عالم، مفتی، پیر اور وقت کے ولی بنے لیکن آج بچوں سے زیادہ ان کی مائیں بچوں کے ٹک ٹاکرز اور کنجر بننے کی دعائیں اور خواہش کر رہے ہیں۔ بچوں کو ٹک ٹاکرز بناتے اور غلط راستے پر ڈالتے وقت ان ماؤں کو خدا یاد نہیں رہتا لیکن جب انہی بچوں کے ہاتھوں پھر ان مائوں، خاندان، علاقے، قوم اور قبیلے کی عزت و عظمت کا جنازہ دھوم دھام سے نکل جاتا ہے تو پھر یہ چیخنے اور چلانے لگتی ہیں۔ آج کی مائیں شاید ٹک ٹاک اور سوشل میڈیا کو ایک کھیل سمجھ رہی ہوں لیکن یہ تو کھیل نہیں وہ آگ ہے جن کے بلند اور بے رحم شعلے لمحوں میں سب کچھ راکھ کر کے رکھ دیتے ہیں۔ اس آگ اور وادی میں کودنے والے پھر حیاا ور عزت کے ساتھ اور بھی بہت کچھ داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ فین اور فالورز کے چکر میں یہ ٹک ٹاکرز پھر وہ وہ قدم اٹھاتے ہیں کہ جنہیں دیکھ اور سن کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اب تو ویڈیو وائرل کا ایک نیا طریقہ بھی مارکیٹ میں آگیا ہے جس نے جلد مشہور اور بڑا یا بڑی ٹک ٹاکرز کا اعزاز پانا ہو اس کی اچانک کوئی شرمناک قسم کی ویڈیو وائرل ہو جاتی ہے۔ یہ ویڈیو وائرل کا عذاب اس ملک پر بھی نازل ہو چکا ہے۔ ٹک ٹاکرز کو تو قبر حشر اور خدا کا خوف ہے نہیں لیکن ان کی وجہ سے اب باقی لوگ بھی گنہگار بنتے جا رہے ہیں کیونکہ ویڈیو وائرل کے بعد وہ لوگ بھی پھر ویڈیو کے پیچھے پڑ جاتے ہیں جن کوٹک ٹاک کا پتہ ہی نہیں ہوتا۔ یہ ویڈیوز کوئی خود سے وائرل تو نہیں ہوتی۔ یہ بے شرم، بے حیا اور بے عزت ٹک ٹاکرز جو اپنی عزت برسر بازار نیلام کرنے کے بعد مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں یہ سب کچھ ان کا کیا دھرا ہوتا ہے۔ دولت اور شہرت کے سپنوں میں یہ اپنی عزتوں کی منڈیاں نہ لگائیں اور یہ فین اور فالورز کے چکر میں دوسروں کے کوچے سے بے آبرو ہو کر نہ نکلیں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ان کی ایسی کوئی ویڈیو وائرل ہو۔ ویڈیو وہی وائرل ہوتی ہے جو کہیں نہ کہیں بنی ہوتی ہے۔ جو ویڈیو بنی ہی نہ ہو وہ کیسے وائرل ہو گی۔؟ مطلب یہ ہے کہ ٹک ٹاک کے ان پارسائوں نے یہ گل کھلائے ہوتے ہیں اور یہ ویڈیوز بنائی ہوتی ہیں تب تو وہ پھر وائرل ہوتی ہیں۔ یہ اگر اپنی عزتیں نیلام اور اپنے جسم لوگوں کو پیش نہ کرتے تو نہ ان کی ویڈیوز بنتی اور نہ ہی وائرل ہوتیں۔ یہ سب کچھ اپنی مرضی اور اپنے ہاتھوں سے ہی تو کرتے ہیں تب ہی تواس طرح کی ویڈیوز بنتی اور پھر وائرل ہوتی ہیں۔ اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ہماری والدہ محترمہ کو۔ بچپن میں اکثر جب ہم اپنی کسی غلطی، گناہ اور جرم سے انکاری ہو کر جھوٹی قسمیں کھانے شروع کردیتے تووہ پشتومیں کہاکرتی (چہ ووگہ نہ خوری نوبین تہ نہ رازی)جولہسن نہیں کھاتااس سے بو نہیں آتی۔یہ ٹک ٹاکرزغلط کام نہ کرتے،اپنی عزتوں کی بولیاں اورمنڈیاں نہ لگاتے تونہ ان کی ویڈیوزبنتی اورنہ ہی اس طرح وائرل ہوتیں۔فین فالورزاورمشہوری کے چکرمیں ان ٹک ٹاکرزنے پورے ملک اورقوم کی عزت کا تماشا بنایا ہوا ہے۔ ٹک ٹاک پران ٹک ٹاکروں کے لائیو پروگرامز اور ویڈیوزدیکھنے کے قابل نہیں ہوتے۔کوئی بھی باعزت، باشرم اورشریف شہری ان کی بے ہودہ باتیں سننے کی ہمت نہیں کرسکتا۔جس طرح کے الفاظ یہ استعمال کرتے ہیں اس سے یوں لگتاہے کہ جیسے ان ٹک ٹاکرزکی مائیں، بہنیں، بیٹیاں، باپ اور بھائی کوئی نہ ہوں۔ماں باپ،بہن اوربھائیوں کے رشتے میں بندھے لوگ توایسی حرکتیں نہیں کرسکتے نہ ایسے الفاظ اورلہجے کااستعمال کرتے ہیں۔معلوم نہیں کہ یہ نمونے کہاں سے آگئے ہیں یاکہاں سے آرہے ہیں۔؟پرامن ماحول اورایک اچھے بھلے معاشرے کوان ٹک ٹاکروں نے اپنی غلیظ حرکتوں سے پراگندہ کردیاہے۔جس طرح کی ویڈیوزان کی وائرل ہورہی ہیں ایسی ویڈیوزکہیں مغرب میں بھی وائرل نہیں ہوتی ہوں گی۔ان ٹک ٹاکروں نے نوجوان نسل کوتباہ کردیاہے۔ملک وقوم کوفحاشی اوربے حیائی کے سمندرمیں ڈبونے سے بچانے کیلئے ان ٹک ٹاکروں کے خلاف فوری اور سخت کارروائی ناگزیر ہے۔ ان نمونوں کو اب ٹک ٹاک نہیں ٹھیک ٹھاک مرمت کی ضرورت ہے۔ وقت آگیا ہے کہ بے حیائی، بے شرمی اور فحاشی کے اس سیلاب کو یہیں روکا جائے نہیں تو کل کو ویڈیو وائرل والا یہ عذاب ہماری عزت، شرافت اور شرم و حیا سمیت سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔ پھر ہمارے پاس سوائے ہاتھ ملنے، چیخنے، چلانے اور دھاڑیں مار کر رونے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ اس لئے کل کو پھر مگرمچھ کے آنسو بہانے سے بہتر ہے کہ آج ہی ان کنجروں کا علاج کیا جائے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔