مریم نواز کا دورہ چین اور اپوزیشن کی مذاکرات کی دعوت

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی جانا پڑے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے تو علم حاصل کرنے کے لیے تمام مسلمانوں کو چین کا راستہ دکھایا تھا لیکن ہمارے حکمران قرضہ حاصل کرنے کے لئے اور مراعات لینے کے لئے دن رات چین کے دورے پہ ہوتے ہیں پہلے میاں محمد نواز شریف آصف علی زرداری میاں محمد شہباز شریف اور عمران خان کئی کئی بار چین کا دورہ کر چکے ہیں اور ہر حکمران نے اپنی بساط کے مطابق چائنیز حکام سے قرضے اور منصوبے حاصل کئے جن میں سی پیک گوادر پورٹ اور دیگر بڑے بڑے منصوبے شامل ہیں لیکن ان تمام منصوبوں کے باوجود پاکستان میں ترقی کی رفتار نہ بن سکی جو کہ بننی چاہیے تھی جس وقت چائنا آزاد ہوا تھا تو پاکستان نے اس وقت قرضہ دیا تھا چائنا کو پاکستان مغربی ممالک کے کچھ ممالک کو بھی قرضہ دیا تھا کیونکہ ملک کی معیشت مستحکم تھی اور یہ چل رہا تھا جبکہ ملک میں موجودہ حکمرانوں کی طرح کرپشن کے ساتھ ساتھ عوامی فلاح کے منصوبے بھی جاری تھے اب بات سمجھ سے باہر ہے کہ چائنہ سے اتنے قرضے اتنے منصوبے اور پھر ہم بھوکے کے بھوکے، پہلے جتنا بھی قرضہ لیا گیا وہ مرکزی حکومت سے منسلک تھا۔ ان تمام معاملات کو دیکھتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف صاحبہ نے بھی چائنہ کا وزٹ کیا ہے۔ دیکھتے ہیں یہ دورہ پاکستان کے عوام کو کتنے میں پڑتا ہے اور اس دورے سے پاکستان کو کیا فوائد حاصل ہوئے ہیں دیکھنے میں آیا ہے۔ اس دورے میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز صاحبہ نے چین کے مختلف شہروں کے دورہ کے موقع پر متعدد وفود سے ملاقاتیں کیں اور ایک موقع پر ٹریکٹر ڈرائیونگ کی۔
ادھر پنجاب میں تحریک انصاف کے کارکن عمران خان کی کال پر اسلام آباد جانے کے لئے تیاری کر رہے ہوتے تو ان پر پنجاب پولیس کے ذریعے ان کے گھروں سے نہ نکلنے دیا جا تا حتیٰ کہ خواتین اور بچوں کو بھی مزاحمت پر زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ چین میں بھی انہوں نے کئی موقعوں پر مختلف اقسام کے سرکاری لباس پہنے۔ ایک موقع پر تو ایک ایسی میٹنگ ہوئی جس میں چینی شخص کو انگلش بولنا نہیں آتی تھی اور مریم نواز کو چائنیز بولنی نہیں آتی تھی لیکن میٹنگ دھڑا دھڑ جاری رہی اور ایم او یو سائن ہو گیا تو ایسے بھی معاملات وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز صاحبہ کے پانچ روزہ دورے میں نظر آئے ہیں اور یہ بھی عوام نے ٹی وی سکرین پر مناظر دیکھے کہ وزیر اعلیٰ مریم نواز ہر وفد کے نمائندگان کیساتھ بڑی گرم جوشی کے ساتھ ہاتھ ملا کر خوش آمدید کہتی۔ پاکستان میں اس وقت اپوزیشن اور حکومت ایک دفعہ پھر چوہے اور بلی کا کھیل کھیل رہے ہیں پہلے حکمران کہتے تھے کہ پاکستان تحریک انصاف غیر سیاسی اور دہشت گرد تنظیم ہے جو کہ مذاکرات کی بجائے صرف جلسے جلوس دھرنوں اور توڑ پھوڑ پر یقین رکھتی ہے اب مذاکرات کے لئے تحریک انصاف نے کمیٹی بنائی ہے جو کہ حکمرانوں کے ساتھ چار نکات پر بات چیت کرنے کے لئے تیار بیٹھی ہے ان میں جو بے گناہ 26 نومبر کو گرفتار پارٹی کارکن ڈی چوک اسلام اباد سے گرفتار کئے گئے ان کی رہائی اور نو مئی کو جو مقدمات بنائے گئے ان کی اور 26 مئی کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ ہے اور وہ حکومت کے ساتھ بات کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن حکومت جو کہ ماں کی طرح ہوتی ہے رویہ تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ تحریک انصاف کی قیادت کو ویلکم کرتے اور انگیج کرتے اور سول نافرمانی کی تحریک جو کہ 24 دسمبر سے تحریک انصاف کی طرف سے دی گئی تھی اس پر بات چیت کرتے لیکن یہاں تو باوا آدم ہی نرالا ہے جوں ہی تحریک انصاف نے مذاکرات کے لئے کمیٹی بنائی اس وقت سے لے کر اب تک رانا ثنا اللہ، عطا اللہ تارڑ، احسن اقبال وفاقی اور صوبائی وزراء مذاکرات کے بارے میں اپنے منہ سے آگ کے گولے چھوڑ رہے ہیں کہ مذاکرات کب کیوں کر رہے ہو پہلے تو آپ ہمیں چور کہتے تھے کیا ہم اب ڈاکو چور نہیں ہیں تو یہ وہ رویہ ہے بادشاہوں کی حکمرانی کا یہ پہلے جال میں پھنساتے ہیں اور بات چیت کرنے کی بجائے جس طرح 26 نومبر کو تحریک انصاف کے کارکنوں کو پہلے ڈی چوک میں جمع ہونے دیا اور پھر چاروں طرف سے گھیرا ڈال کر آنسو گیس ربڑ کی گولیوں سے وار کر دیا اور جو کارکن بھاگے جان بچانے کے لئے ان کو گلیوں سے پکڑ کر پابند سلاسل کر دیا گیا جن کی تعداد سینکڑوں میں نہیں ہزاروں میں ہے لیکن وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ بار بار آ کر یہ اعلان کر رہے تھے کہ یہ مظاہرین تو دو منٹ کی مار ہیں جب چھٹا لگے گا تو ان میں سے کوئی بھی نہیں بچے گا تو پھر وہی کیا۔ اسی طرح اب نہ جانے یہ کس طرح کے مذاکرات چاہتے ہیں مذاکرات تو کسی ایجنڈے پر ہی ہوتے ہیں اپوزیشن نے ایجنڈا دے دیا ہے اب مذاکرات کرنا آپ حکومت کا کام ہے تو میں مبارک باد پیش کرتا ہوں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کو کہ انہوں نے چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوھر کو قومی اسمبلی میں آ کر تقریر کرنے کو ویلکم کیا اور کہا کہ شکر ہے کہ آپ سڑکوں سے نکل کر واپس ایوان میں آئے ہیں میں آپ کو ویلکم کرتا ہوں اس کے علاوہ کسی بھی حکمران شخص سے یہ بات سننے میں نہیں آئی کہ مذاکرات کی ٹیبل پر اپوزیشن کا آنا خوش آئند ہے۔