گزشتہ کچھ عرصے سے دنیا ڈرامائی تبدیلیوں سے یوں گزر رہی ہے کہ : محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی! بڑے بڑے برج الٹ گئے۔ اگست 2021، افغانستان سے یکایک امریکی جھنڈے لپٹ گئے اور امریکی سفارخانے کی پوری دیوار پر کلمہ طیبہ والا جھنڈا تاریخ کے نئے باب کا معلن تھا! لٹکے منہ، پریشان حال، حواس باختہ امریکی جرنیلوں کی تصاویر اخباروں میں ہزیمت کی کہانی سنا رہی تھیں۔ اگلا حیرت زدگی کا اہتمام ’طوفان اقصیٰ‘ نے کیا۔ 75 سال سے دبے پسے کچلے فلسطینی شیروں کی سی گھن گرج لیے اٹھے اور اسرائیل اور اس کے حواری دہل کے رہ گئے۔ ارضِ موعودہ کے دعوے دار ایئرپورٹوں کو دوڑے کہ کون سی آبادکاری اور کیسی صیہونیت ! جن مغربی ممالک سے آ ئے تھے، انہی گھروں کو لوٹ گئے۔ اب اسرائیل تھا، قصابِ اعظم نیتن یاہو، امریکہ یورپ کا اسلحہ اور بمبار طیارے اور پھر چل سو چل۔ فلسطینیوں نے غزہ میں انسانی تاریخ میں عزیمت کی لازوال داستان اپنے صبر و ثبات ، پاکیزہ خون سے لکھی۔ اسرائیل میں قابض فوج کے سورما آئے دن دھاڑیں مار کر روتے، خودکشیاں کرتے، نفسیاتی عوارض کے سارے ریکارڈ توڑتے شکست خوردگی کی عجب تاریخ مرتب کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ طوفانِ اقصیٰ کے بعد ایک صبح اور طلوع ہوئی ڈھاکہ، بنگلہ دیش میں! جہاں صرف 36دن کی نوجوان طلباٗ نہتی تحریک نے 53سال باپ اور بیٹی حسینہ واجد کی جابر و قاہر حکمرانیوں کے ادوار سے یک لخت نجات کا سامان اپنی پامردی سے کر دیا۔
اور اب جب ساری توجہات کا مرکز خونچکاں غزہ، پاگل بھیڑیا بنا اسرائیل تھا، یکایک شام میں آزادی کا آفتاب نکل آیا!11دن میں 2011ء سے چھائی گھپ اندھیری گھنگھور رات چھٹ گئی۔ جیسے حسینہ واجد 45منٹ کے نوٹس پر ہیلی کاپٹر میں بھارت لپکی،عین اسی طرح بشار الاسد دانت کچکچاتا، مٹھیاں بھینچتا جہاز میں سوار (اشرف غنی کی طرح ڈالروں سمیت؟) اپنے میکے روس جا پہنچا۔ شام آزاد ہو گیا پوری دنیا میں بکھرے شامیوں کو نوید ہوئی! جیسے 75سال اہل غزہ نے اپنی سرزمین پر غاصب حکمرانوں کے ہاتھوں جھیلے، 54سال شامیوں پر کچھ کم نہ بیتی، جبر و ظلم کی حکمرانی میں۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق’اتنے سال بعد پہلی مرتبہ سنی اکثریت کو حکمرانی کا موقع ملا ہے‘۔ 7فی صد نصیری باپ بیٹا نہ صرف اکثریت کا حق غصب کیے رہے بلکہ اکثریت کے لیے سفاک بے رحم جابرانہ سیاسی نظام تھا۔ خوف کی حکمرانی ۔ قید و بند تعذیبیں بلا جرم بلا ثبوت ماورائے عدالت۔ ایک لاکھ30ہزار جبری گمشدگیاں۔ جیلوں میں خوفناک ٹارچر ۔ 2011ء میں عرب بہار ہر جگہ آتے دیکھ کر شامی اکثریتی عوام نے پر امن مظاہروں میں جینے کا حق، عزت ،امن آزادی، عزت و وقار مانگا تھا۔ مسلح تنازعہ نہ تھا۔ بدلے میں قتل و غارت گری اور صیدنیا ، سرخ جیل جسے انسا نی قصاب خانہ کہا جاتا تھا، انھیں وہاں ٹھونسا گیا ۔ ہزاروں بے گناہ مارے گئے۔ اب آزادی کے پروانوں نے سب سے پہلے آ کر یہی جیل کھولی۔ قیدی آزاد ہوئے۔ ولولے اور جذبات سے شہر ابل رہا تھا۔ خوشی، امید اور آزادی کی فضا میں اتنی دہائیوں بعد کھل کر سانس لیا!
قانون کی حکمرانی، مضبوط ریاست، آزادیٔ اظہار، اتحاد و اتفاق سے ملکی تعمیر نو، عدل و انصاف اور حقوق کا تحفظ نئے شام اور شامیوں کو بلا تخصیص ملے۔ یہ عزمِ نو لیے دنیا بھر میں بکھرے مہاجر شامی گھر لوٹنے کو تیار، بے قرار ہیں۔ 2کروڑ20لاکھ آبادی کئی ممالک میں بکھر گئی۔ 68لاکھ ملک کے اندر در بدر ہجرتوں میں رہے۔ 5لاکھ شہید ہو گئے۔ 40لاکھ ادلب میں (جہاں سے تحریک اٹھی) مسلسل روسی، اسدی بمباریوں کی زد میں۔ اگست 2013ء میں غوطہ اور دومہ میں خوفناک کیمیائی حملے میں ایک ہزار شہید ، ہزاروں زخمی ہوئے۔ کیمیائی حملے کے مقتولین میںسانس لینے کی کوشش میں ادھ موئے بچے بھی تھے۔ منہ سے اذیت کے مارے جھاگ نکلتی۔ نظر دھندلا جاتی۔ دل کی دھڑکن کم سے کمترین، پھر جھٹکے لگتے اور موت نجات بن جاتی۔
’غوطہ‘ کے محصور لاکھوں نے یہ خوفناک حملہ سہا، دیکھا۔ بھوکے، روٹی کے منتظر ، کھلونوںکے خواب دیکھتے بچوں کو سارین گیس کا تحفہ بشارالاسد نے دیا۔ شام کے مسلم اکثریتی علاقوں کو کھنڈر کر دیا بیرل بموں سے۔فرق یہ ہے کہ اہل غزہ کا لمحہ لمحہ دنیا نے دیکھا، تڑپے، پوری دنیا مظاہروں میں جت گئی۔ یہی سفاک مغربی پشت پناہ جو آج نیتن یاہو کے ہمنوا و اتحادی ہیں، شام کے لیے بھی لاحاصل قراردادیں پاس کر دیتے۔BBCکے مطابق اسدی حکومت کے بڑے مددگار روس، ایران، مغربی طاقتیں اور کئی خلیجی عرب ممالک رہے۔ روس کے فوجی ( نیول ، ایئربیس) اڈے موجود رہے جن سے پروازوں نے ’باغیوں‘ اور عام شہریوں کو نشانے پر رکھا۔ ایران نے ہزاروں مسلح تربیت یافتہ جنگجو اور اربوں ڈالر فراہم کیے۔ ایرانی فوج/ جرنیلوں کی قیادت میں لبنان (حزب اللہ)، عراق، یمن، افغانستان (ہزارے) سے لڑاکا قوت مہیا ہوئی۔ امریکہ کی سرکردگی میں گلوبل اتحاد نے 2014ء سے ’شامی ڈیموکریٹک فورسز‘ کی مدد کو خصوصی فورسز لگائیں ،جہادی گروپوں کے خلاف شام کو مضبوط کرنے کے لیے! غزہ، شام کی سرزمین پر انسانوں کو چیتھڑوں میں بدل دیا، ان کا جرم ’جہادی‘ ہونا ہے۔ موجودہ HTS، ھیۃتحریر الشام (شام کی آزادی کی تحریک) جس میں دیگر گیارہ گروپ مزید شامل ہیںمضبوط مزاحمت کی صورت اٹھی ۔ چار سال سے جنگ ختم سمجھی جا رہی تھی اس لیے ترکی کی آشیرباد اور ان کی خاموش پلاننگ سے اٹھنے والی مزاحمت بھونچال کی طرح محسوس کی گئی شام تامشرق وسطیٰ و مغربی دنیا۔ ترکی میں 35لاکھ شامی مہاجروں کی بنا پر تحریک میں ترکی کی مدد ، پشت پناہی عین متوقع تھی۔
HTSکا لیڈر ابو محمد الجولانی دمشق میں پلا بڑھا۔ امریکی حملے کے بعد عراق میں القاعدہ کے ساتھ رہا۔ شام میں القاعدہ سے مربوط رہا مگر پھر خود کو اس سے الگ کر کے صرف شامی حدودکے لیے اپنا گروپ بنایا۔ مختلف نام بدلتے بالآخر HTSبنی جس کا مقصد شام کو اسد کی جابرانہ حکومت سے آزاد کروانا تھا۔ ایرانی ملیشیائیاں ملک سے نکال باہر کرنا اور اسلامی قانون کی حکمرانی لاگو کرنا مقصود تھا۔ الجولانی نے اپنا تاثر قومی سطح پر شام کے سب سے بڑے مسلح گروپ کے سربراہ کا رکھا ہے جس کا کوئی گلوبل ایجنڈا نہیں ہے۔ (القاعدہ سے مختلف ہونا واضح اور مغرب کو مطمئن کرنے کے لیے)۔ خصوصیت سے اقلیتوں سے حسن سلوک اور حقوق کے تحفظ کی یقین دہانیاں کرواتے رہے ہیں تاکہ مغرب مطمئن رہے! جولانی نے خود کو بتدریج تبدیل کیا۔ روایتی مغرب دشمن جہادی سے زیادہ قابلِ قبول انقلابی!
جولانی جہاد کا حوالہ دینے سے گریزاں، صرف شام کو اسد کے ظلم کے لیے نجات دہندہ کی حیثیت سے کھڑا ہوا ہے۔ ہیومن رائٹس گروپوں نے HTSکا ادلب میں مخالفین کے ساتھ سلوک پر تشویش کا اظہار کیا۔ مظاہرین اور اختلاف ِرائے رکھنے والوں کو ٹارچر اور بدسلوکی کا نشانہ بنایا۔بہرطور HTSممبران اور انقلابی تحریک تمام تر ’سافٹ امیج‘ دینے کی کوششوں کے باوجود جذبۂ ایمانی سے معمور ہے۔ جس کا اظہار حلب کی دیوار پر لکھے اس جملے میں پوشیدہ ہے!’میں حلب میں ہوں، میری روح دمشق میں ہے، میرا دل حمص میں اور میری نگاہیں قدس پر جمی ہیں!‘ عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتا۔ ادلب میں سختیاں جھیلتے مجاہدوں کی اٹھان مصلحت بینی بھول گیٔ۔پہلے خطاب کے لیے جامع الاموی دمشق کا انتخاب کیا۔ CNNبلک اٹھا اس انتخاب پرکہ جولانی نے نہ ٹی وی سٹوڈیو ، نہ خالی شدہ صدارتی محل پہلی تقریر کے لیے منتخب کیا، بلکہ ایک ایسا مقام جو بہت بھاری، اونچی مذہبی حیثیت کا حامل ہے۔ یاد رہے کہ بعض روایات میں حضرت عیسیٰؑ کا اسی مسجد میں نزول ہے۔ CNNکے نک رابرٹسن کا اس مسجد کا تاریخی تناظر میں نوٹس لینا یوں اہم ہے کہ آج کے مسلمان اس مسجد (بلکہ ہر مسجد!) کی اہمیت سے نا بلد ہیں مگر گورا جانتا ہے! بشارالاسد کے فرار ہوتے ہی امریکہ نے وسطی شام میں ISISکے 75ٹھکانوں پر بھاری جنگی جہازوں سے بمباری کی ہے۔ساتھ ہی اسرائیل گولان پہاڑیوں کے راستے شام میںگھس آیا۔48 گھنٹوں میں 500دفاعی اہداف پر بمباری کر کے بحری، فضا ئی قوت اور اسلحے کا مکمل صفایا کر دیا۔مزید بمباری/پیش قدمی جاری ہے۔ سر زمینِ شام پر اسرائیلی، روسی، امریکی افواج نٔی قیادت اور عالم ِ اسلام کیلئے بہت بڑا چیلنج ہے!کیا ہونے چلا ہے؟ واللہ اعلم!