سوچنا وی نا۔۔۔۔

وقت حالات اور ’’ویلی مصروفیت ‘‘نے ثابت کیا ہے کہ وطن عزیزمیں سب سے بڑی اور منافع بخش انڈسٹری افواہ ساز ی ہی ہے۔افواہ سازی۔فیک نیوز۔ سازشی نظریات الٹی سیدھی خوشخبریاں ’’ویلی قوم‘‘ کو مصروف رکھنے کا تیر بہدف نسخہ ہوتا ہے اور ہم سے ’’ویلا‘‘اور فارغ تو شاید ہی کوئی اس کرہ ارض پر ہواس لیے افواہ سازصنعت کے سب سے زیادہ خریداربھی یہاں ہی پائے جاتے ہیں۔ہم افواہوں کے ایسے رسیا واقع ہوئے ہیں کہ جب کسی طرف سے کچھ نہ بن رہا ہو ۔کچھ قابل یقین سیاسی تبدیلی ممکن نہ ہورہی ہو تو قومی حکومت اور صدارتی نظام ہماری پسندیدہ ترین افواہیں ثابت ہوتی ہیں۔جو لوگ منطق ،محنت اور پریکٹیکل اپروچ سے دور بھاگتے ہوں وہ ہر وقت اپنے خود ساختہ نظریات کے مطابق اچھا اچھا سننے کے عادی ہوجاتے ہیں۔گزرے وقتوں میں گلی محلے کی چوپال اور ’’تھڑے‘‘ ایسے لوگوں کے پسندیدہ مقامات ہوتے تھے تو آج کل اپنا فون ہی ہر قسم کے ’’تھڑے باز‘‘ کی گفتگو کا اڈہ ہے۔

خیر ہمارا دنیا کی ترقی اور محنت سے کیا لینا دینا اس لیے افواہ سازی کی صنعت کو ترقی دیے رکھنا ہی ہمارے ’’مشاغل‘‘ میں رہے گا۔آج تک تازہ افواہ سازی میں شہبازسرکار کا ’’جُلی ِبسترا‘‘ گول کرنے۔ بلاول کو وزیراعظم بنانے ۔ پی ٹی آئی اور بلاول کا اتحاد کروانے اور کہیں سب جماعتوں پر مشتمل قومی حکومت بنانے کی’’ پتنگ بازی‘‘ خوب کی جارہی ہے۔یہ سب افواہیں ہی کمال کی ہیں کہ ہمیں تبدیلی بہت ہی زیادہ پسند ہے۔ہم سکون سے نچلے تو بیٹھ ہی نہیں سکتے ۔ہمارے ہاں الیکشن کے نتیجے میں تشکیل پانے والی حکومت کی مدت پانچ سال رکھی جاتی ہے لیکن ہم اتنے بے صبرے ہیں کہ سال بڑی مشکل سے گزرتا ہے کہ ہم ہر حکومت سے ’’بور‘‘ ہوجاتے ہیں اور ہمیں تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد والے ’’دورے‘‘ پڑنے شروع ہوجاتے ہیں۔ جس کو پہلے ’’خجل ‘‘ خراب کرکے نکالتے ہیں پھر اسی کی یاد میں ٹرکوں کے پیچھے نعرے لکھوالیتے ہیں۔ ہماری ٹوٹل ذہانت اور فیصلہ سازی کی ثقاہت کا اندازہ تو اس سے لگایاجاسکتا ہے لیکن ایسی دلیلیں ترقی پسند قوموں کے لیے ہوتی ہیں ہم جیسی قوم کے لیے یہ سب شغل میلہ ہوتا ہے۔دوہزار انیس اور بیس میں جناب عمران خان کی حکومت کے نیچے اس ملک میں بربادی کا وہ دور جاری تھا کہ زرعی ملک میں آٹے کا بحران تھا تو چینی کی قیمت اچانک پچاس روپے کلو سے ایک سو بیس روپے تک چلی گئی تھی ۔ملک کا وزیر خوراک اسمبلی میں بتارہاتھا کہ گندم تو ہماری ضرورت سے بھی زیادہ پیدا ہوئی تھی لیکن پتہ نہیں کہاں چلی گئی ہے ۔

ہمارے کپتان ساری زندگی میں مفادات کے ٹکراؤ کے نقصانات کے درس دیتے رہے اور جب عمل کی باری آئی تو ایک ایک ہیرا چن کر اس وزارت پر فائز کیا جس وزارت سے اس کا کاروبار وابستہ تھا۔یعنی مفادات کا ٹکراؤ ،ٹکراؤ سے اوپر والے درجے یعنی مفادات کی جنگ تک پہنچ گیا تھا۔ نہیں یقین تو رزاق داؤد،ندیم بابر اور ظفر مرزاجیسوں کے کابینہ میں کردار نکال کر دیکھ لیں۔یہ وہ وقت تھا جب پی ٹی آئی کے اپنے کارکن حکومت کی مہنگائی اور معیشت کا دفاع نہیں کرتے تھے۔سب کویقین تھا کہ عمران خان کی حکومت رہی تو ملک نہیں رہے گا لیکن دیکھ لیں آج پھر تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد کے دورے مسلسل پڑرہے ہیں ۔ٹھیک ہے لگے رہیں بھائی ۔گھومتے رہیں اسی دائرے میں کہ دائروں کا سفر ہی ہمارا پسندیدہ سفر جو ٹھہرا۔

افواہ سازی بڑی مزے کی چیز ہوتی ہے لیکن اس کا ایک کمزور پہلو حقیقت بھی ہوتا ہے ۔جب ہم اس افواہ کا حقیقی پہلو سے موازنہ کرلیں تو بہت سی پرتیں کھل کر ہمارے سامنے کھڑی ہوجاتی ہیں۔اب یہ قومی حکومت یا بلاول کی حکومت یا پی ٹی آئی کی حکومت والی افواہوں کا حقیقی پہلو سے آمنا سامنا کرواتے ہیں۔اس وقت ملک میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے اور شہبازشریف وزیراعظم ہیں۔پنجاب میں بھی مسلم لیگ ن کی حکومت ہے اور بلوچستان میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی مخلوط حکومت قائم ہے۔یہ تو حقیقت ہے اور افواہ یہ ہے کہ فیصلہ یہ ہوا ہے کہ شہبازشریف سے اسٹیبلشمنٹ کی بس ہوگئی ہے وہ مزید اب اس حکومت کا بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں ہے اس لیے شہبازکی جگہ بلاول کو سرکار کا ’’مُکھیا‘‘ بنا دیا جائے۔ اب اگر تو شہباز شریف اور مسلم لیگ ن اس پراجیکٹ کے لیے از خود رضامندہوجائیں تو کیا ہی بات ہے یہ افواہ سچ ہوجائے گی لیکن کیا وہ راضی ہیں تو جواب ہے کہ نہیں راضی ۔جب راضی نہ ہوں اور پھر بھی اسٹیبلشمنٹ یہی چاہتی ہو کہ شہبازنہیں بلاول ہی چاہئے تو وہ پیپلزپارٹی کو کہہ سکتی ہے کہ اپنی سپورٹ واپس لے کر اس حکومت کو گرادیں۔ کیا پیپلزپارٹی ایسا کرنے جارہی ؟ جواب ہے نہیں ۔ کیا پیپلزپارٹی ایسا کرسکتی ہے تو اس کا جواب ہاں ہوسکتا ہے کہ وزیراعظم بننا کس کو برا لگتا ہے؟

اس پراجیکٹ کے لیے حکومت سازی میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کو اپنی جگہ بدلنی پڑے گی ۔کیا یہ جگہ صرف اس حد تک بدلی جائے گی کہ شہبازشریف استعفیٰ دیں اور اگلے دن بلاول اعتماد کا ووٹ لے لیں؟نہیں بالکل نہیں ۔ایسی صورت میں پیپلزپارٹی کو صدرکا عہدہ ن لیگ کو واپس کرنا پڑے گا۔خیبرپختونخوا اورپنجاب کی گورنری واپس کرنی پڑے گی۔سینیٹ کا چیئرمین مسلم لیگ ن کا لگانا پڑیگا۔بلوچستان حکومت میں لیڈنگ کردار مسلم لیگ ن کو دینا پڑے گا۔سندھ کے گورنرپر بھی شورشرابا الگ ہوگا۔کیا اتنی اکھاڑ پچھاڑ اتنی ہی آسانی سے ہوجائے گی ؟ اس کا جواب بھی ہے نہیں۔او رپھر کیا صرف بلاول کو وزیراعظم بنانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ خود یہ بنابنایا سسٹم دوبارہ سے بنانے کی کوشش کرے گی ؟

یہ تو تھا ن لیگ کی رضامندی کے ساتھ تبدیلی والی افواہ کاحقیقی پہلو۔ اب دیکھ لیتے ہیں کہ ن لیگ نہ مانے تو پھر یہ تبدیلی کیسے لائی جائے گی ۔ن لیگ اگر بلاول کو وزیراعظم ماننے سے انکار کرتی ہے تو پھر وہی فارمولہ بچتا ہے کہ پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کا اتحاد کرادیا جائے۔یعنی پہلے اسٹیبلشمنٹ نومئی کی تدفین کرے پھر عمران خان کو عام معافی دے۔اس کو جیل سے باہر لائے ۔اس کے تمام کارکنوں کو باعزت بری کروائے اور پھر عمران خان کو راضی کرے کہ وہ ایک چور ،ڈاکو۔سب سے بڑی بیماری وغیرہ وغیرہ سے مل کر حکومت بنائے اور اسی طرح بلاول کی حکومت بنوا دے جس طرح بلاول نے ن لیگ کی بنوارکھی ہے۔ اس کے بدلے میں تمام آئینی عہدے پی ٹی آئی کو مل جائیں اور عمران خان صاحب کو ’’ٹاکی شاکی‘‘ مار کر مقدمات سے بری کرکے ملک کا صدر بنادیا جائے ۔کیا یہ ہوسکتا ہے ؟ اس کا جواب ہے کہ بالکل ہوسکتا ہے لیکن کیا ہونے جارہا ہے تو جواب ہے کہ ایسا فی الحال تو کچھ نہیں ہونے جارہا۔چلیں یہ افواہ بھی مان لیتے ہیں کہ ایسا ہوسکتا ہے تو سوچیں کہ ایسا ہونے کے بعد کیا مسلم لیگ ن ایسے ہی آسانی سے اس سیٹ اپ کو تسلیم کرکے خاموشی سے گھروں میں بیٹھ رہے گی ؟ سوچنا وی نا۔۔۔!