مشرق وسطیٰ کی محرومیاں بمقابلہ اسرائیل کی تباہ کاریاں

اسرائیل کرہ ارض پر ناپاک وجود کی حامل غاصب ریاست گریٹر اسرائیل منصوبے پر عمل پیرا ہے، جس کیلئے مشرق وسطیٰ کو بھٹی میں تبدیل کردیا گیا ہے، فلسطین غزہ، لبنان اور شام کو بدترین جنگ میں دھکیل کر اسرائیل بدمست ہاتھی کی طرح قتل عام اور بربریت کی تاریخ رقم کر چکا ہے اور یہ سلسلہ یہیں پر تھما نہیں۔ اسرائیلی جارحیت 7 دہائیوں پر مشتمل ہے جس کا دائرہ کار ایران اور عرب ممالک تک پھیلا ہوا ہے اور بدترین وحشیانہ انسانیت سوز کارروائیوں نے مسلم امہ کے دل میں چھرا گھونپا ہے، تو دوسری جانب پاکستان، سعودیہ، ترکیہ اور دیگر اسلامی ممالک او آئی سی اور اقوام متحدہ سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں کہ اسرائیل کو روکا جائے۔ اسرائیل بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں کو بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے در پے ہے، غزہ میں ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹنے کے بعد لبنان اور اب شام میں کارروائیاں قیامت خیز مناظر کی روداد سنا رہی ہیں۔ اسرائیل انسانی حقوق کو خاطر میں لا رہا ہے نہ امن معاہدے اور جنگ بندی اس کی وحشت کو روکنے کیلئے کافی ہے، بلکہ اسرائیل نے ہر وقت کوئی نہ کوئی محاذ کھولے رکھا ہے اور یہیں پر ہی بس نہیں ایران اسرائیل کشمکش بھی جلتی پر تیل کا کام کرتی ہے۔
مشرق وسطیٰ جب بھی جنگ بندی کیلئے کاوشیں ہوئی، امریکا نے امن کوششوں کو کاری ضرب لگائی، بلکہ یوں کہہ لیجئے امریکا جلتی ہوئی آگ پر ہاتھ تاپنے کے مزے لے رہا ہے اور یہی اس کے مفاد میں بھی ہے۔ اسرائیل کی مشرق وسطیٰ میں کارروائیوں کے ذریعے ایران کو بالواسطہ یا بلا واسطہ ہدف اور ٹریپ کیا جارہا ہے، ایران نہ صرف حکمت عملی سے کام لے رہا ہے بلکہ اسرائیلی کارروائیوں کا منہ توڑ جواب بھی دے رہا ہے تاہم اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ مشرق وسطیٰ کی جنگ ایران تک پہنچ کر عالمی جنگ کی شکل اختیار کرلے گی، طاقت کے توازن میں تبدیلی اور علاقائی منظرنامے کی تشکیل نو اسرائیل کے اہداف میں شامل ہے۔ غزہ، لبنان اور شام میں کشیدگی اسرائیل کو اس کے مقاصد کے قریب کر رہی ہے، دوسری جانب مسلم ممالک محض کھوکھلے بیانات اور سربراہی ملاقاتوں کے علاوہ کوئی عملی ردعمل اور خاطر خواہ اقدامات کرنے سے قاصر نظر آئے ہیں۔ اسلامی ممالک مشرق وسطیٰ جنگ کا بالواسطہ حصہ بننے سے گریزاں ہیں، وہ اسرائیلی مظالم کو بیانات کی حد تک تو مذمت کرتے ہیں لیکن معصوم بچوں کی چیخ و پکار ان کے دلوں پر اثر نہیں کررہی، یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اپنی کارروائیوں کو بے باکی سے جاری رکھے ہوئے ہے۔
شام میں علوی خاندان اور بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد نئی صورتحال زیادہ گمبھیر ہوتی چلی جارہی ہے، ناقدین سوالات کر رہے ہیں کہ کیا یہ انقلاب شامی عوام کیلئے امن و سلامتی اور ترقی لائے گا یا بربادی، خونریزی اور خانہ جنگی شامی عوام کی قسمت ہوگی جبکہ ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ اس انقلاب کی پس پردہ کون سی قوتیں کار فرما تھیں؟ شام میں موجودہ ملکی صورتحال کا سب سے بڑا فائدہ اٹھانے والا امریکہ ہے جس کے مفادات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ امریکہ کا سب سے بڑا ایئربیس العدید شام میں ہے، شام میں انقلاب کا سب سے بڑا فائدہ اسرائیل کو ہوا ہے جس نے کونیٹرا صوبے کی حدود میں واقع بفر زون پر قبضہ کرلیا ہے۔ اب سب سے بڑی چوٹی اسرائیل کے قبضے میں ہے جہاں سے 40 کلومیٹر دور دمش کو نہ صرف توپخانے سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے بلکہ پورے علاقے پر بھی نظر رکھی جاسکتی ہے۔ شام میں انقلاب پر جس قدر شادیانے بجائے گئے ہیں اس کی قلعی آئندہ چند برس میں کھل جائے گی۔
ایران اسرائیل کشیدگی کے پیش نظر یہ خطرہ بھی منڈلانے لگا ہے کہ اسرائیل اور ایران تیزی سے بجانب عالمی جنگ رواں دواں ہیں، یورپین یونین ایران کیخلاف ہر شعبے میں سخت پابندیوں کی خواہاں ہے جرمنی کے ایک جریدے نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کیلئے سنجیدگی سے غور کررہے ہیں، حالیہ ایک سروے میں 62 فیصد امریکیوں اور 74 فیصد اسرائیلیوں نے ایران کو ایٹم بم بنانے سے روکنے کیلئے فوجی مداخلت کی حمایت کی ہے۔ عالمی منظرنامے پر گہری نظر رکھنے ایک بات پر متفق ہیں کہ امریکہ نے ایران کو گھیرے میں لے رکھا ہے، مغرب میں افغانستان اور پاکستان، مشرق میں عراق، ترکی، قطر اور جنوب میں عمان اور ڈیگو گارشیا میں امریکہ اپنے فوجی اڈے کرچکاہے۔ خلیج کے پانیوں میں امریکی بحریہ کے بیڑے موجود ہیں جو حملہ کیلئے جنگی لڑاکا طیاروں اور کروز میزائلوں سے لیس ہیں، تو دوسری جانب ایران نے بھی دفاع کی بھرپور تیاری کر رکھی ہے۔ اہم ترین علاقوں میں فضائی دفاعی نظام قائم کیا جاچکا ہے اور ایٹمی پلانٹ کے حساس حصوں کو زیرزمین 80 فٹ تک گہرائی میں منتقل کردیا ہے برعکس ان اقدامات کے ماہرین کا ماننا ہے کہ امریکہ کے پاس ایران کی درجنوں ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ امریکہ اور اسرائیل ایران کو چاروں اطراف سے گھیرنے کو بیتاب ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایران اپنے حق کیلئے لڑنا چھوڑ دے۔
مشرق وسطیٰ میں میں امریکہ کا کردار ہمیشہ مشکوک اور تنازعات کو ہوا دینے والا رہا ہے افغانستان اور عراق میں امریکہ کی کارستانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، شام میں باغیوں کے قبضے کیلئے 13 سالہ محنت کے بعد 13 دنوں میں بشار الاسد کے دھڑام تختے سے ہونے والی کاوشیں اور سازشیں واضح ہیں۔ اس میں کوئی تعجب نہیں کہ امریکہ کا اپنے مفادات کیلئے شام میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنا اس کے حق میں ہے، شام میں ہونے والی تبدیلیوں نے پورے مشرق وسطی کو سیاسی، سماجی اور اقتصادی حوالے سے ایک نئے دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔ شام کا مستقبل اس وقت مشرق وسطی کی سیاست کا مرکز بنا ہوا ہے بشار الاسد دور کا خاتمہ کے بعد دیکھنا ہوگا کہ نئی حکومت کس حد تک عوامی فلاح و بہبود کیلئے کام کرتے ہوئے علاقائی اور بین الاقوامی طاقتوں کے دباو¿ کا سامنا کیسے کرتی ہے۔ مشرق وسطی اس وقت دھکتے ہوئے کوئلوں کی بھٹی سے کم نہیں جہاں ایک طرف غزہ میں فلسطینی بے سر و سامانی کے عالم میں لقمہ اجل بنے ہوئے ہیں تو دوسری جانب لبنان اور شام کی صورتحال کسی بھی صورت تسلی بخش نہیں، ایران اور اسرائیل تنازع اور امریکہ کے مفادات نے خطے کو ناتلافی نقصان پہنچایا ہے جس کے پیش نظر ایک عالمی جنگ ہماری منتظر ہے۔