لکھا نہیں جاتا….

 

خاتم النبیین، رحمت اللعالمین، نبی کریم حضرت محمد مصطفیﷺ نے خطبہ حجة الوداع کے موقع پر فرمایا ”لوگو! آج کے دن میں نے تمہارے لیے دین کو کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور تمہارے لیے پسند کر لیا کہ دین اسلام ہو“۔ خطبہ کے بعد آپ نے تریسٹھ اونٹ قربان کیے گویا اپنی حیات طیبہ کے ہر سال کی قربانی ادا کر دی۔ اس کے بعد آپ مدینہ روانہ ہو گئے راستے میں غدیر کے مقام پر بھی خطبہ ارشاد فرمایا۔ مدینہ میں پہنچنے کے بعد آقا کریم بیمار پڑ گئے۔ حضرت عائشہؓ کے حکم پر سرکار کے بخار کی حدت کم کرنے کے لیے حضرت بلالؓ باری باری سات مختلف کنووں کا پانی لائے مگر بخار کی حدت کم نہ ہوئی۔ سرکار کے بیمار پڑ جانے پر اہل بیت ؓ اور صحابہ اجمعینؓ نہایت دل گرفتہ ہوئے۔ آقا نے اپنی ظاہری حیات طیبہ کا آخری عمل مسواک کرنے کا کیا۔ جناب سیّدہ فاطمہ زہرہؓ دن میں کئی کئی بار عیادت کے لیے تشریف لاتیں ہر بار سرکار اُٹھ کر استقبال کرتے ماتھا چومتے اور خوش آمدید کہتے۔ بیماری کے انہی ایام میں آپ نے سات دینار صدقہ کیے۔ بضعة رسول فاطمہؓ دن میں کئی کئی مرتبہ عیادت کے لیے حاضر ہوتیں۔ اولاد میں تنہا سیّدہ (فاطمہؓ) ہی باقی رہ گئی تھیں۔ رسول خداﷺ ان سے بے حد محبت فرماتے۔ جب تشریف لاتیں استقبال کے ساتھ ان کے ماتھے پر بوسہ دیتے اور اپنی مسند پر نشست کا اعزاز بخشتے۔ سیّدہ شدت علالت میں حاضر ہوتیں تب بھی ان معمولات میں فرق نہ آنے پایا۔ اس دوران انہیں پاس بٹھا کر بی بی کے کان میں کوئی بات کہی جس سے وہ رو پڑیں۔ دوسری مرتبہ ان کے کان میں کوئی بات کہی تو سیّدہ مسکرا پڑیں۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ جو وہیں تشریف فرما تھیں، سیّدہ سے ان کے رونے اور ہنسنے کا سبب دریافت کیا۔ فاطمہ سلام اللہ علیہا نے فرمایا: رسول اللہﷺ نے جو بات مجھے راز کے طور پر بتائی ہے اس کے افشا کا یہ موقع نہیں لیکن رسول خداﷺ کی رحلت کے بعد فاطمہ سلام اللہ علیہا نے از خود بتا دیا کہ ”اس روز میرے گریہ کا سبب رسول اللہﷺ کا اپنی وفات کی اطلاع تھی اور دوسری مرتبہ جب مجھے یہ بشارت فرمائی کہ خاندان نبوت میں سب سے پہلے مجھے ہی آنحضرت کی ملاقات کا شرف حاصل ہو گا تو میں فرط مسرت سے ہنس پڑی“۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے حضور اکرم سخت بیمار ہو گئے اور آپ پر شدت درد چھانے لگی تو حضرت فاطمہؓ کہنے لگیں: ہائے میرے والد بزرگوار کی تکلیف تو ان سے حضور نے فرمایا کہ آج کے بعد تمہارے ابا پر کوئی تکلیف نہیں ہے۔ پھر جب حضور کا وصال ہو چکا تو حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا بولیں۔ اے میرے ابا جنہوں نے اپنے رب کے بلاوے پر لبیک کہا۔ جن کا جنت الفردوس ٹھکانہ ہے۔ اے میرے پدر بزرگوار ہم جبرائیل کو آپ کی خبر موت دیتے ہیں۔ پھر جب آپ کو دفن کیا گیا تو حضرت فاطمہؓ نے فرمایا: اے انس کیا تمہارے جیوں نے گوارہ کر لیا کہ تم رسول اللہﷺ پر مٹی ڈال دو؟
جب میرا شوق بڑھ جاتا ہے تو میں تیری قبر کی زیارت کرتی ہوں شکوہ شکایت کی حالت میں روتی ہوں، میں آپ کو جواب دینے والا نہیں دیکھتی اے صحرا میں رہنے والے آپ نے مجھے رونا سکھایا، آپ کی یاد نے مجھے ساری تکالیف بھلا دیں اگرچہ آپ مجھ سے مٹی میں چھپے ہوئے ہیں، مگر آپ میرے غمگین دل سے غائب نہیں ہو سکے۔ مجھ پر ایسی مصیبتیں ڈال دی گئیں کہ اگر یہ مصیبتیں دنوں پر آتیں تو وہ راتیں بن جاتے۔ (-1 نہایة الا¿رب فی فنون الادب (265/18) ، -2 دیوان علی بن ابی طالب 180/1)
آپ کو کپڑوں سمیت غسل دیا گیا جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت ابن عباسؓ نے دیا، کروٹ بدلنے میں حضرتفضل بن عباسؓ نے مدد دی۔ حضرت قُثم بن اسامہ بن زیدؓ اور تقران مولیؓ پانی دیتے تھے۔ غسل کے دوران حضرت علی ؑ کے علاوہ سب کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی تھیں۔ آپ کی تکفین تین کپڑوں قمیص، عمامہ، یمنی سرخ دھاری دار چادر (بعض روایات میں تین چادریں ہیں) میں کی گئی۔ ابو طلحہ بن سہیل انصاریؓ نے قبر کھودی، عباس بن عبدالمطلب، حضرت علی اور فضل بن عباسؓ نے قبر میں داخل کیا۔ قبر مبارک میں نو اینٹیں بچھائی گئیں، اہل بیت نے تدفین فرمائی…. کفن تین چادروں سے دیا گیا جن میں دو چادریں قریہ¿ صحار (یمن) کی بنی ہوئی تھیں اور ایک چادر دھاری دار تھی۔ آقا کی آرام گاہ کی مٹی پر تب ہر طرف حضرت بلالؓ کے ہاتھوں کے نشان تھے۔
آقا کے مرقد اقدس کے پاس ہی چھوٹا سا پرانا کنواں ہے جس کے پانی سے مرقد کی صفائی ستھرائی ہوتی ہے اُس کنویں اور پانی کی ایک ایک بوند کی قسمت پہ میری جان قربان، بس میرے قارئین! اس سے زیادہ ہمت نہیں ہے…. ایک ادنیٰ غلام سے اس سے زیادہ لکھ پانے کی توقع نہ کی جائے۔