ملک دشمن مہم

 

مجھ ایسا شخص کہ جس کی ساری عمر جمہوری اقدار کی سر بلندی کی جدوجہد کرتے گذری ہو اسے سمجھ نہیں آتی کہ تحریک انصاف کی ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے اس کے جمہوری حقوق کی بات کروں یا پھر اس کے سوشل میڈیا پر اس کا دوسرا چہرہ جو ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف پروپیگنڈا کرتا ہے اس کی مذمت کروں۔ بانی پی ٹی آئی کی جانب سے سول نا فرمانی کی تحریک کے لیے 14 دسمبر کی تاریخ دی گئی لیکن اس سے ہفتہ دس دن پہلے ہی سوشل میڈیا پر ایک حساس ادارے کی پروڈکٹس کے بائیکاٹ کی ملک دشمن مہم شروع چلائی جا رہی ہے اور یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ عسکری بنک سے اپنی رقم نکلوا لیں اور یہی نہیں بلکہ کچھ لوگ امریکہ سے بیٹھ کر ٹویٹ کر رہے ہیں کہ ڈیفنس میں اس مہم کی وجہ سے پلاٹس کی قیمتیں کم ہو گئی ہیں۔ اس زہر آلود مہم کے نتائج کیا نکل رہے ہیں پہلے اس پر ایک نظر ڈال لیں کہ عسکری بنک کے حصص کی قیمت میں 1.61 پیسے کے ساتھ 4.39% اضافہ ہوا۔ فوجی سیمنٹ کے شیئرز کی قیمت میں 0.42 پیسے کے ساتھ 1.08% اضافہ ہوا۔ فوجی فرٹیلائزرز کے شیئرز کی قیمت میں 2.45 پیسے کے ساتھ 0.70% اضافہ ہوا۔ فوجی فوڈ کے شیئرز کی قیمت میں 0.82 کے ساتھ 5.99% اضافہ ہوا۔ تحریک انصاف میں جو محب وطن لوگ ہیں خدارا وہ اس سیاست پر غور کریں کہ جب بھی اسلام آباد میں کوئی بین الاقوامی یونٹ ہونا ہوتا ہے تو اسلام آباد پر چڑھائی کر دی جاتی ہے۔ آئی ایم ایف کو قرض رکوانے کے لیے خط لکھے جاتے ہیں۔ اس کے ہیڈ آفس پر مظاہرے کیے جاتے ہیں۔ یورپی یونین کو پاکستان کے لیے جی ایس پی پلس سٹیٹس ختم کرنے کے لیے ہزاروں ای میلز کی جاتی ہیں۔ پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ سول نا فرمانی کی تحریک کی کال میں بیرون ملک پاکستانیوں کو ترسیلات زر ہنڈی کے ذریعے بھیجنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ عسکری پروڈکٹس کے بائیکاٹ کی مذموم مہم چلائی جاتی ہے۔
کیا اس میں سے کسی ایک کا تعلق بھی سیاست یا کسی سیاسی جماعت یا سیاسی شخصیت سے ہے۔ نہیں بلکہ ریاستی مفادات سے ہے۔ عسکری اداروں کی پروڈکٹس کے بائیکاٹ کی مہم چلائی جا رہی ہے اور ساتھ میں خیالی لاشوں کا گمراہ کن پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ جن کے لواحقین کا اتنے دن گذرنے کے باوجود بھی اتا پتا نہیں۔ یہ سب اس لیے کیا جا رہا ہے کہ جو کچھ کیا تھا اب اس کا سامنا کرنے کا وقت آ گیا ہے اس لیے پڑتھو پڑے ہوئے ہیں۔ 24 نومبر کی کال کی زبردست ناکامی کے بعد عمران خان نے سول نا فرمانی کی تحریک کی کال دی ہے۔ پہلی مرتبہ 2014 میں یہ کام کیا تھا اور اس وقت بھی ناکام ہوئی تھی۔ اس لیے کہ عوام کو کال دے کر اپنے گھروں کے بل ادا کریں گے تو ایسا ہی ہو گا۔ جمعرات 12 دسمبر کو عدالت میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے مطالبات نہ مانے گئے تو 15 دسمبر سے سول نافرمانی کی تحریک شروع کر دیں گے۔ اس کے لیے انہوں نے 14 دسمبر کی ڈیڈ لائن دی تھی کہ ان کے مطالبات تسلیم کیے جائیں کہ 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی انکوائری کے لیے سپریم کورٹ کے سینئر ترین ججز پر مشتمل جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ خان صاحب ہمیں علم ہے کہ آپ بہت عقلمند ہیں لیکن حکومت والے بھی کوئی دودھ پیتے بچے نہیں ہیں اگر انہوں نے سینئر ترین ججز سے ہی انکوائری کرانا ہوتی تو انہیں 26 ویں ترمیم کے پاپڑ بیلنے کی کیا ضرورت تھی وہ سینئر ترین کو چیف جسٹس بنا دیتے۔ سب سے زیادہ جس بات پر زور دیا ہے وہ بیرون ملک پاکستانی جو ترسیلات زر بھیجتے ہیں انہیں کہا ہے کہ وہ بنک کے بجائے ہنڈی کے ذریعے بھیجیں لیکن انہیں علم نہیں ہے کہ اول تو یہ منی لانڈرنگ کی مد میں آئے گا اور دوسرا ہنڈی کے حوالے سے جو سخت قوانین ہیں ان کے تحت ہنڈی یا حوالہ کے کاروبار کرنے والوں کو ڈھائی کروڑ سے لے کر 10 کروڑ تک جرمانہ اور دس سال قید ہے تو کون رسک لے گا۔ اس کے علاوہ خان صاحب کو اگر تھوڑا سا علم ہوتا تو انہیں پتا ہوتا کہ سول نا فرمانی کی تحریک تو آج سے سو سال پہلے ہندوستان پر قابض انگریزوں کے خلاف مہاتما گاندھی کی کال کامیاب نہیں ہوئی تھی اور 2020 سے 2022 تک کانگریس کی پوری کوشش کے باوجود ناکام ہوئی تھی تو آج کیسے کامیاب ہو سکتی ہے جبکہ اس وقت ٹیلی فون گیس اور بجلی کے بل بھی نہیں تھے۔ اب یہ تحریک کامیاب ہو گی یا نہیں تو اس کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے کہ جس کال کے لیے خود پارٹی کے اندر ہی اختلافات ہوں تو وہ کیسے کامیاب ہو سکتی ہے اور یہی صورت حال 24 نومبر کی کال کے حوالے سے تھی۔
اس کال کا اصل نشانہ ترسیلات زر ہیں اور کوئی شک نہیں کہ ترسیلات زر کا پاکستان کے زر مبادلہ کے زخائر میں مرکزی کردار ہے اور یہ بھی ایک خوش آئند حقیقت ہے کہ گذشتہ سال کے مقابلہ میں اس سال تین فیصد زیادہ ہیں تو اگر ان میں کمی ہوتی ہے تو پاکستان کی بہتر ہوتی معیشت کو ایک زبردست جھٹکا لگ سکتا ہے اور یہ ڈالر ریاست کے خزانہ میں آتے ہیں زرداری یا نواز شریف کے اکاﺅنٹ میں نہیں آتے۔ بانی پی ٹی آئی نے اپنی گفتگو میں اپنی ہی پارٹی کی قیادت پر بھی ایک طرح سے عدم اعتماد کا اظہارکر دیا اور کہا کہ انہیں سمجھ نہیں آتی کہ باہر سب ”گڈی گڈی“ کیوں ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت خان صاحب کو شاید زمینی حقائق نہیں بتاتی یا خان صاحب میں زمینی حقائق کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہے ورنہ انہیں پتا چل جاتا کہ حالات کس قدر سنگین ہو چکے ہیں۔ باہر کی قیادت در حقیقت انتہائی تیزی سے بدلتی صورت حال کو بھانپتے ہوئے اپنے رویوں میں تبدیلی لائی ہے لیکن لگتا ایسے ہے کہ عمران خان کو پاکستان کی قیادت سے زیادہ بیرون ملک بیٹھی سوشل میڈیا کی ٹیم اور مفرور قیادت پر بھروسہ ہے اور تحریک انصاف آج جس بند گلی میں پہنچ چکی ہے اس میں ان کے سوشل میڈیا نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔