پولیس اور بہاولپور

بہاولپور کی محبت میں لکھا ہوا گزشتہ کالم کچھ اچھے سول و پولیس افسروں کی خدمات کو یاد کرتے کرتے پورا ہوگیا ، سوشل میڈیا پر اس کالم پر بیشمار قارئین نے بہت دلچسپ تبصرے کئے ، بہاولپور کے لوگوں نے اسے بہت سراہا ، میں نے اس میں آر پی او بہاولپور رائے بابر سعید ، موٹر وے میں تعینات ڈی آئی جی افضال کوثر ، ڈی پی او بہاولپور اسد سرفراز خان اور کچھ عرصہ پہلے بہاولپور میں تعینات ڈپٹی کمشنر ظہیر احمد جپہ کا زکر خصوصاً ان تمام افسروں کی اہلیت اور ایمانداری کے حوالے سے کیا تھا ، لوگوں نے مجھ سے مکمل اتفاق کیا ، کوئی ایک ایسا شخص نہیں تھا جس نے کہا ہو کہ میں نے ان افسروں کے بارے میں غلط لکھا ، البتہ مجھے فیصل آباد سے اپنے بیشمار جاننے والوں کی کالز اور میسجز موصول ہوئے ، اْنہوں نے بتایا اْن کے آر پی او ڈاکٹر محمد عابد خان کے دروازے بھی عام لوگوں کے لئے ہمیشہ کْھلے رہتے ہیں ، وہ شاید رائے بابر سعید کے بیج میٹ ہیں ، اس بیج کے بہت سے پولیس افسران جنہیں میں ذاتی طور پر جانتا ہوں بہت اچھے ہیں ، چند ایک نکمے اور کرپٹ بھی ہیں مگر اس میں اْن کا کوئی قصور نہیں وہ بیچارے فطری طور پر ہی ایسے ہیں ، ڈاکٹر محمد عابد خان پچھلے شاید دو برسوں سے فیصل آباد میں ہیں ، وہ بھی ڈی آئی جی آپریشنز لاہور رہے، تب وہ ایس ایس پی نہیں تھے جنہیں کسی سیاسی ابو کی مالش یا بْوٹ پالش پر ڈی آئی جی آپریشنز لاہور لگا دیا گیا ہو ، وہ اپنی سنیارٹی ، میرٹ اور اہلیت کی بنیاد پر تعینات ہوئے تھے ، ہمارے کچھ افسران اب اہلیت سے زیادہ ‘’’اہلیہ‘‘کی بنیاد پر تعینات ہوتے ہیں ، اس کلچر پر کسی روز تفصیل سے لکھوں گا میرے پاس اس حوالے سے بڑے مزے مزے کے واقعے ہیں ، ڈاکٹر محمد عابد خان بہت خوش مزاج ہیں ، اْن کے پاس آپ گھنٹوں بیٹھ کر بھی بور نہیں ہوتے جبکہ ہمارے اکثر افسران شیر ببر تو پتہ نہیں ہوتے ہیں یا نہیں ’’بور ببر‘‘ ضرور ہوتے ہیں چند لمحے اْن کے ساتھ گزارنے مشکل ہو جاتے ہیں ، ایسی ایسی بونگیاں وہ آپ کے سامنے ماریں گے آپ کا جی چاہے گا اْنہیں گھسیٹ کر کسی ماہر نفسیات کے پاس لے جائیں یا پاگل خانے جمع کروا کے رسید لے لیں ، ایساہی ایک کردار فیصل آباد میں بطور سی پی او تعینات ہے ، مجھے نہیں معلوم ڈاکٹر محمد عابد خان جیسے خوش مزاج پولیس افسر اس’’بور ببر‘‘ کے ساتھ کیسے گزارا کرتے ہوں گے ؟ اْسے کچھ لوگ پولیس کا چاہت فتح علی خان اور اللہ رکھا پیپسی بھی کہتے ہیں ، کسی معاملے میں وہ کامران ہے نہ عادل ہے ، بس بادل ہے جو جہاں برستاہے، کیچڑ کر جاتاہے ، ٹک ٹاکری بھی کرتاہے اور وہ بھی ٹکے ٹوکری کی کرتاہے ، ڈاکٹر محمد عابد خان فیصل آباد میں بطور آر پی او تعینات نہ ہوتے قسم سے فیصل آباد کے مظلوم لوگ بے چارے رْل گئے ہوتے ، آئی جی عثمان انور کو فیصل آباد سے اگر ٹھنڈی ہوائیں آتی ہیں اْس کی واحد وجہ ڈاکٹر عابد خان ہیں ، اسی طرح کا معاملہ آر پی او ملتان کیپٹن ریٹائرڈ سہیل چودھری کاہے ، میں جب بھی کسی کے ساتھ ہونے والی زیادتی یا ظلم کو سوشل میڈیا پر دیکھ کر اْن کے نوٹس میں لاتا ہوں وہ پہلے ہی اْس کا نوٹس لے چکے ہوتے ہیں ، میں اکثر یہ کہتا اور لکھتا ہوں خالی ایمانداری کو ہم نے چاٹناہے اگر کوئی ایماندار افسر کسی مظلوم کی داد رسی ہی نہ کرے ، اْس سے تھوڑا بہت وہ بے ایمان افسر ہزار درجے بہترہے جو اپنے دفتر میں آنے والے ہر مظلوم کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتاہے اور اْسے مطمئن کر کے واپس بھیجتاہے ، میں ملتان کے اکثر لوگوں سے کہتا ہوں آپ ملتان پولیس کو اْس کے سی پی او کی صورت میں مت دیکھیں ورنہ یہ آپ کو بہت بدصورت لگے گی آپ اْسے آر پی او کی صورت میں دیکھیں یہ آپ کو بہت خوبصورت لگے گی۔۔ اب میں بہاولپور واپس جا رہا ہوں میرا پچھلا کالم بہاولپور سے شروع ہوا اور اچھے بْرے افسروں کی خوبیوں خامیوں کی نذر ہوگیا ، یہ کالم بھی کہیں ایسے ہی ختم نہ ہو جائے ، بہاولپور پاکستان کا ایک انتہائی صاف سْتھرا اور خوبصورت نوابی شہرہے ، نوابوں کی اس ریاست کا ہر شخص اپنی عادات اور اخلاق کے اعتبار سے آج بھی نواب ہے ، یہاں کرائم نہ ہونے کے برابرہے ، اور جو کرائم ہیں اْن پر قابو پانے کی یہاں کی پولیس پوری صلاحیت رکھتی ہے ، یہاں پولیس کا رویہ لوگوں کے ساتھ ویسا نہیں جیسا روایتی طور پر مشہورہے ، اس بار میں نے بہاولپور کی تحصیل حاصل پور میں زیادہ قیام کیا ، دو برس قبل میں جب بہاولپور گیا تو زیادہ قیام بہاولپور شہر میں کیا تھا ، تب دوسری بار میں نے عالمی سطح پر مشہور نور محل بھی دیکھا تھا ، پہلی بار یہ محل میں نے شاید 2010 ء میں دیکھا ، شہباز شریف مجھے اپنے ساتھ لے گئے تھے ، حاصل پور میں دانش سکول کا افتتاح تھا اور وہاں جانے سے پہلے کچھ دیر اس محل میں رْک کر ہم نے چائے پی تھی ، یہ دیکھنے کے لائق جگہ ہے ، اْس سے ملحقہ ایک لائبریری بھی ہے ، میں نے پاکستان کی بیشمار لائبریریاں دیکھیں یہ بلامبالغہ پاکستان کی ایک خوبصورت ترین لائبریری ہے ، مگر دْکھ کی بات یہ ہے پوری لائبریری میں ایک شخص نہیں تھا جو کوئی کتاب پڑھ رہا ہو ، اپنے اس دْکھ کو میں نے اس طرح کم کیا بہت دیر تک یہاں بیٹھ کے کچھ کتابیں پڑھیں ، اس بار حاصل پور میں ہم نے آر ڈی ففٹی کے نام سے قائم ایک وسیع و عریض ریسٹ ہاؤس بھی دیکھا ، میرے کچھ ’’خاص دوستوں‘‘نے یہاں میرے قیام کا بندوبست کیا تھا ، محل نما اس ریسٹ ہاؤس کے بارے میں مشہورہے یہ ایک سابق وزیراعظم نے ایک گلوکارہ کی محبت میں قائم کیا تھا ، وہ دونوں اکثر یہاں آتے تھے ، قیام بھی ظاہرہے کرتے ہوں گے ورنہ اْس وزیراعظم کا کام خالی ’’طعام‘‘ سے بھی چل جایا کرتا تھا ، اس پارک میں ایک مصنوعی جھیل بھی ہے جو اصلی جھیل سے زیادہ خوبصورت لگتی ہے ، ہم نے اس جھیل میں کشتی کی سیر بھی کی ، میرے عزیز دوست اور چھوٹے بھائی احمد دستگیر ، نجم الدین اویس ، محمد اْسامہ انور ، چودھری کاشف یٰسین ، شہیر عامر ، محمد طارق جاوید ، بلال وسیر اور محمد سجاد بھی میرے ہمراہ تھے ، جھیل میں ایک مقام پر بہت خوبصورت بطحیں بھی ہم نے دیکھیں ، ہم جب اْن کے قریب سے گزرنے لگے اْنہوں نے خوب شور مچایا ، مجھے لگا جیسے وہ احتجاج کر رہی کہ’’ یہ بھوکے شوہدے ہمارے لئے کوئی روٹی شوٹی بھی نہیں لے آئے (جاری ہے )