منی مرگ سے نکل کر ایک بار پھر ڈومیل تک پہنچ جانا دراصل میری ذاتی خواہش تھی، جس کا احترام میرے ساتھیوں پر واجب نہ تھا۔ منی مرگ کی ایک اجلی صبح میں جیپ ڈرائیور کے ساتھ ایک بار پھر ڈومیل کی طرف نکل آیا۔ گزری شام جو ندی ہمارے راستے کی رکاوٹ بنی تھی، اب چپ چاپ بہتی جاتی تھی۔ برف پگھلنے سے پہلے ہم نے یہ ندی عبور کی اور رینبو جھیل کی قربت میں آ گئے۔ میرے تمام ہم سفر منی مرگ کے ریسٹ ہاؤس میں ابھی سوئے ہوئے تھے اور میں رات کے وقت سنائی ہوئی کہانی کا کردار بن کر نکل آیا۔ رینبو جھیل سے آگے سیون سٹریم لیک تھی جس میں سات چشمے یوں گرتے تھے جیسے کوئی اپنی ذات کسی محبوب پر فدا کر دے، ہمیشہ کے لیے اپنی ہستی مٹا دے۔ مگر یہ ابھی صرف کہانی تھی اور اس سات چشموں والی جھیل تک پہنچنے کے لیے میں ڈومیل میں تھا۔ رینبو جھیل کے ساتھ بہتے نالے پر ہم نے سات گھنٹے سفر کرنا تھا اور پھر دو جڑواں جھیلوں تک پہنچنا تھا۔ میں تھکنے والا نہ تھا کہ ڈومیل سے واپس لوٹ جانا میرے سیاحتی عقیدے کی خلاف ورزی تھا۔ منی مرگ سے نکلے ہوئے دو گھنٹے ہی گزرے ہونگے کہ ہم ایک ایسی وادی میں آ گئے جہاں بلند درختوں کے عقب میں وسیع لینڈ سکیپ تھا۔ چھوٹے چھوٹے چشمے تھے اور موسم میں نرم دھوپ کا سایہ تھا۔ دن ڈھلنے سے پہلے جیپ ڈرائیور نے کہا کہ ہم نیرو کی جڑواں جھیلوں تک پہنچ گئے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ نیرو کی جڑواں جھیلیں مکمل طور پر ان چھوئی اور کنواری جھیلیں تھیں جہاں تک انسان بہت کم پہنچتا تھا۔ صاف اور مقدس جھیلوں میں جو پانی تھے وہ کرسٹل واٹر تھے۔ برف کا تازہ عرق ان جھیلوں کا رزق بنتا تھا۔ خوبصورت جھیل میں تین خصوصیات ہوتی ہیں، ایک یہ کہ وہ زندہ جھیل ہوتی ہے جس میں پانی داخل ہو رہا ہو اور ساتھ ساتھ اخراج بھی ہو رہا ہو۔ دوسری خصوصیت یہ کہ وہ اپنے اطراف میں بلند حصار رکھتی ہے۔ تیسرا خاصا اس کا شفاف پانی ہوتا ہے۔ ان جھیلوں میں تینوں نمایاں خصوصیات پائی جاتی تھیں۔ ان جھیلوں سے آگے ایک اور حیرت کا جہان ہمارا منتظر تھا۔ صرف دو گھنٹے کی مسافت پر غلام سر کی دو اور جڑواں جھیلیں ہماری منتظر تھیں۔ ضلع بانڈی پورہ میں واقع یہ جھیلیں بھی حسن فطرت میں آپ اپنی مثال تھیں۔ رینبو جھیل وادیٔ ڈومیل سے ایک گھنٹے کی پیدل مسافت پر دو اور جڑواں جھیلیں ہیں جنہیں آر بی کی جھیلیں کہا جاتا ہے۔ آر بی جھیلوں کے ارد گرد زعفرانی گھاس کا ڈھلوان فرش بچھا ہے۔ رینبو لیک کے پاس ہی دل نما جھیل بھی حسن کا منبع ہے۔ کئی جڑواں جھیلیں اور ان دیکھی وادیاں دیکھ کر جب منی مرگ پہنچے تو رات کا دوسرا پہر ڈھل چکا تھا۔ ہر طرف خاموشی تھی اور تارے اتنے قریب تھے کہ آسمان پر نہیں ہمارے سروں کے اوپر چمکتے محسوس ہوتے تھے۔ منی مرگ کے پی ڈبلیو ڈی کے ریسٹ ہاؤس میں میرے بچے میرے ہی منتظر تھے۔ میرے ذہن میں سیون سٹریم جھیل اور کئی جڑواں جھیلوں کے حسن کا جادو تھا جو آنکھوں میں خمار بن کر ہر دیکھنے والے کے سامنے مجھے مشکوک کرتا تھا۔ میں اسی خمار کی وجہ سے گنگ تھا کہ بولنے کی سکت ہی نہ تھی۔ منی مرگ میں یہ رات ہماری آخری شب بسری تھی۔ ہونے والی صبح ہم نے برزل عبور کر کے استور پہنچنا تھا۔
استور پہنچے تو ہمارے مقامی دوستوں کے توسط سے معلوم ہوا کہ ایک ایسا خوبصورت علاقہ ابھی دیکھنا باقی ہے جو ہمیں منی مرگ سے جدائی کا احساس جلد بھلا دے گا۔ پہلے تو ہم نے اس بات کو مذاق سمجھا لیکن جلد ہی معلوم ہوا کہ وہ ہماری آوارہ گردی اور کوہ نوردی کی صلاحیت کی وجہ سے ہمیں ایسے علاقے کی طرف بھیج کر اسے عوام الناس کے سامنے لانا چاہتے ہیں۔ یہ مقام صاحب کی بیٹھک ہے اور جلد ہی ہم نے تک یہاں تک رسائی کا ارادہ کر لیا۔ اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہم نے اپنا سفر استور شہر سے شروع کیا جو بذریعہ جیپ تھا۔ ناشتہ گوری کوٹ میں۔ چورت کے مقام پر ہم دریائے روپل پر قائم پل پار کر کے رٹو چھانی کی طرف مڑگئے۔ اب ہمارا سفر دریائے ریاٹ کے ساتھ ساتھ تھا۔ رٹو چھانی سے ہم نے دریائے ریاٹ کو الوداع کہا اور دائیں طرف میر ملک نالے کے ہم قدم ہو گئے۔ دا جیل گاں اور چمروٹ کے مقامات سے گزرتے ہوئے میر ملک گاں پہنچے۔ استور شہر سے 3 گھنٹے کا سفر کر کے ہم شونٹر پاس کے قریب پہنچ چکے تھے۔ ہماری دائیں جانب مشہور شونٹر پاس تھا جہاں سے براستہ کیل بکروال صدیوں سے پیدل سفر کر کے پہنچتے تھے جبکہ مخالف سمت میں پھلاوائی وادی نیلم کے قرب و جوار کے پہاڑ واقع تھے۔ قرب میں چند خانہ بدوش بھی آباد ہیں۔ شونٹر پاس کی طرف سے آنے والی ندی کو ایک ایسے پل سے پار کیا جو لکڑی کے 2 شہتیروں کے درمیان پتھر کی سلیں رکھ کر تیار کیا گیا تھا۔ ہم 3 ٹریکرز نے شام 4 بجے اپنی ٹریکنگ کا آغاز کیا۔ مقامی لوگوں کے مطابق ہمیں اس آبشار تک پہنچنے میں کم و بیش ڈیڑھ گھنٹے کا وقت درکار تھا۔ غزنوی بھائی کی رہنمائی میں ہم آبشار کی طرف روانہ ہو گئے۔ راستہ انتہائی آسان تھا، گھاس میں پوشیدہ چند ڈھلوانیں پار کیں تو ایک گمنام جھیل کے کنارے جا اترے۔ یہ جھیل اگرچہ چھوٹی تھی لیکن باقاعدہ الپائن جھیل تھی۔ یہاں سے آگے راستے میں پتھر اور چٹانیں تھیں جن پر ہمیں احتیاط سے قدم اٹھانا پڑے۔ تھوڑی بلندی سے نیچے اترے تو ایک اور خوبصورت جھیل کا دیدار نصیب ہوا۔ یہ جھیل بھی ایک الپائن جھیل ہی تھی جو پچھلی جھیل کی نسبت قدرے بڑی تھی دور پہاڑوں کی نوکیلی چوٹیاں فلک سے محو گفتگو تھیں۔ ان چوٹیوں کے نیچے ایک بڑا گلیشیئر نظر آ رہا تھا جس کا دل موہ لینے والا نظارہ بہت ہی بھلا معلوم ہو رہا تھا۔ کچھ آگے بڑھے تو تیسری جھیل کا دیدار نصیب ہوا اور پھر دور سے آبشار کے گرنے کی کھنکتی آواز نے توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔ یہاں بھی چند خانہ بدوش آباد ہیں اور اپنے گاں کو صاحب کی بیٹھک کا نام دیتے ہیں۔ گاں کی خوبصورتی نے مجھے اپنا گرویدہ کر لیا اور سوچنے پر مجبور کر دیا کہ عجب گورے لوگ تھے جو صدیوں قبل منی مرگ اور صاحب کی بیٹھک تک جا پہنچے اور ہم اب تک ان جگہوں کے دیدار سے محروم رہے۔ شاید واقعی ہم اپنے ملک کی خوبصورتی کو ابھی تک پہچان نہیں سکے۔ اس گاں کے قریب بھی ایک خوبصورت جھیل موجود تھی۔ چلتے چلتے اب ہم ایک میدان میں داخل ہو چکے تھے۔ اس میدان میں میر ملک کی ندی میدان کا سینہ چیرتے ہوئے چند شاخوں میں تقسیم ہو کر بہہ رہی تھی۔ بعض شاخوں میں پانی مٹیالہ اور بعض میں نیلا تھا۔