وطن عزیز کے سیاسی حالات، بیوروکریسی کی ریشہ دوانیاں، اداروں کی ایک دوسرے میں حصول اقتدار کے لیے گھس جانے، مسلسل اور ان تھک جد و جہد، سیاسی کردار اور انسانیت کے ’’علمبردار‘‘ حکمران طبقوں کے متعلق دل نہیں چاہتا کہ ایک لفظ بھی لکھوں مگر اخبار کی وہ سپیس جو میرے کالم کے لیے ہے میری نہیں اخبار کے قارئین کی ہے لہٰذا سوچا کہ کم از کم آج کا دن حالات حاضرہ کا بوجھ سیکڑوں مجھ سے بہتر لکھنے والے اٹھائیں۔ حالات حاضرہ پر غور کیا تو ہمارے خطے میں تو کم از کم یہ تاریخ کا تسلسل ہی تو ہے۔ مرزا عبدالقادر بیدلؒ جن کو ابو المعانی کا خطاب دیا گیا، نے 8 مغل بادشاہوں کا زمانہ دیکھا۔ 78 سال عمر پائی، زندگی میں نقل مکانی، مسافرت اور صعوبتیں برداشت کیں جن کو سیاحت پسندی کا نام دیا گیا البتہ 38 سال دہلی میں رہے جس وجہ سے دہلوی بھی کہلوائے۔ شاہجہان، عالمگیر، بہادر شاہ، جہاندار شاہ، فرخ سیر، رفیع الدرجات، رفیع الدولہ، شاہجہاں ثانی اور محمد شاہ رنگیلا کا اقتدار دیکھا۔ مرزا عبدالقادر بیدلؒ نے تاج شاہی کی خاطر چار خونیں جنگوں کی تباہ کاریاں دیکھیں۔ انہوں نے چڑھتے سورج کی پوجا کبھی نہ کی کہ ڈوبتے سورج کی لاش ان کی آنکھوں میں موجود دیکھی۔ اگلے روز گلزار بھائی (گلزار احمد بٹ صاحب) نے شعر سنایا۔
کان رکھتا ہے تو دریا کی روانی پہ نہ جا
ہم نے دریاؤں کو چڑھ چڑھ کے اترتے دیکھا ہے
موجوں سے کھیلنے والے یوں بھی اشارہ کرتے ہیں
طوفاں ہی ابھارا کرتے ہیں طوفاں ہی ڈبویا کرتے ہیں
شائد زمانے کا یہ چلن بیدلؒ نے بہت پہلے دیکھ لیا۔ یوں تو مشکِ بیدلؒ سے مجھے روشناس جناب قبلہ محمد صادق خان تنولی صاحب ڈائریکٹر جنرل کسٹم ویلیو ایشن نے کرایا۔ ہماری معاشرت کے چند نگینے لوگ جن کی نیابتداری میرا حق تو نہیں لیکن مقدر ضرور ہے۔ جن کا ذکر میں صرف اپنے آپ سے کرتا ہوں کہ ان کوخودنمائی، خود شناسی پسند نہیں اور بعض ایسے بھی ہیں کہ اگر ان کی تعریف بند کریں تو ان کی سانس بند ہونے لگتی ہے جبکہ جناب محمد صادق صاحب کی جائز ترین تحسین کریں تو ان کا چہرہ زرد پڑ جاتا ہے۔ ایک روحانی شخصیت جو میری رگ و پے میں بستی ہے جنہوں نے میری زندگی بدل کر رکھ دی جن کے انوارات دودھ اور شہد کی طرح میرے حلق میں اترتے رہتے ہیں، جن کی پاکیزگی، پاکبازی میرے لیے اثاثہ ہے شائد کبھی بتا نہ پائوں مگر نظر، توجہ اور دعا کے کرشمے زندگی میں تغیر ضرور لاتے ہیں۔ ایسی محبت و عقیدت و مؤدت یکطرفہ ہی ہوا کرتی ہے جیسے چاند چاندنی کسی عوضانے میں نہیں دیتا، نہ ہی چکور کی سعیٔ مسلسل کبھی چاند سے تقاضا کرتی ہے کہ تم بھی میری طرف مراجعت کرو البتہ مجھے روحانی ابلاغ بھی کبھی میسر آ جاتا ہے مگر برابری نہیں ہو سکتی۔ آتے ہیں موضوع کی طرف کہ مشکِ بیدلؒ علم و فضل، حقائق اور حقیقی انا اور خودداری کا نام ہے۔
حضرت مرزا عبدالقادر بیدلؒ جنہوں نے غزل، قصیدہ، رباعی، مثنوی اور دیگر اصناف میں اظہار فرمایا۔ اڑسٹھ ہزار سے زائد اشعار کہے یا لکھے اور معیار گرنے نہیں دیا یہ کرشمہ سازی انسان کے قرب رحمن کی برکات کے سوا ممکن نہیں۔ بیدلؒ کو ہمہ گیر و کثیر الجہت شخصیت عطا ہوئی۔ اوائل عمری میں عالمگیر کے بیٹے شہزادہ محمد اعظم کے دربار میں نوکری کر لی۔ اپنے کسی دوست کے لیے قصیدہ لکھا جو شہزادہ محمد اعظم کے پاس پہنچا۔ اس نے پوچھا یہ کون اور کہاں ہے۔ بتایا گیا کہ ہمارے دفتر (اب سیکرٹریٹ کہلاتا ہے) میں ملازم ہیں۔ اس نے کہا کہ اس سے کہیں میرے لیے بھی قصیدہ لکھے۔ پیغام رساں قدموں سے بھی آگے چلتا ہوا آیا۔ بیدل بیدل آپ کی بات بن گئی۔ شہزادہ کا پیغام سنایا۔ بیدلؒ نے کہا کہ بیدل دوستوں کے لیے قصیدہ لکھتا ہے، شاہوں کے لیے نہیں۔ محل سے چلے گئے اور اگلے دن گھر سے ہی استعفیٰ بھیج دیا۔ غالب ہوں، بیدل یا سقراط علم و حکمت، تصوف و کردار متاع دنیا سے بے نیازی اور حقیقت میں عارضی ترین ماننے پر ہی حاصل ہوتے ہیں۔
یہ بیدل ہی تو ہیں جو کہتے ہیں!
ترک آرزو کردم رنج ہستی آسان شد
سوخت پُرفشانی ما کاہن قفس گلستان شد
میں نے آرزو کے پر جلا دیئے، قید خانہ گلستان بن گیا۔
لالچی معتبر نہیں ہوتا، شرم آتی نہیں بھکاری کو
مظاہر کثرت بے شمار ہیں لیکن وحدت بھی حق ہے
اعداد لاکھ ہوں زبان پر اک اک ہی آتے ہیں
ایک دفعہ کالج کے طلبا نے یوم غالب منایا جس میں علامہ اقبالؒ مہمان خصوصی تھے۔ یہی بیدل ہیں جن کے لیے کہا کہ ’’مناسب ہوتا تم یوم بیدلؒ مناتے۔ اچھا اب یہ سوال زیر بحث لائو کہ کیا وجہ ہے کہ غالب کا کلام غلام آباد یعنی ہندوستان میں مقبول ہے اور بیدل کو کوئی جانتا نہیں لیکن بیدل کا کلام آزاد ممالک افغانستان میں تلاوت ہو رہا ہے اور وہاں غالب کو کوئی پوچھتا نہیں۔ پھر فرمایا غالب کا تصوف افسردگی پیدا کرتا ہے اور بیدل کا تصوف حیات بخش تر و تازگی کے ساتھ ابھارتا ہے۔
گویا مشکِ بیدل سے علامہ اقبالؒ بھی متاثر ہیں۔ فرماتے ہیں کہ بیدل کی سطح کی بلندی تک نہ پہنچ سکا۔ بیدلؒ ہستی کی گتھی کو سلجھانا چاہتے ہیں پھر فرماتے ہیں ’’بیدل اپنے طرز کا موجد بھی ہے اور خاتم بھی‘‘ اور پھر یہ کہ بیدل کا فلسفہ خودی اور بے خودی کا امتزاج ہے۔‘‘ بیدلؒ کی نظم کو کلی اور نثر کو پھول سے تشبیہ دیتے ہیں۔ مرزا اسد اللہ خان غالب جو سب کے پسندیدہ شاعر ہیں، شاعروں کے شاعر ہیں فرماتے ہیں۔ بیدلؒ بحر بیکراں اور محیط بے ساحل ہیں۔‘‘ پھر فرماتے ہیں۔
طرز بیدل میں ریختہ کہنا
اسد اللہ خان قیامت ہے
ہماری تاریخ میں ظلم و ستم، آنکھیں نکالنا، اعضا سے محرومی، محسن کشی میں اقتدار کی خاطر درندوں کو پیچھے چھوڑ جانا، ایران اور ترکی سے برآمد ہوا جس کے لیے الگ تحریر درکار ہے۔ بادشاگر سید برادران کی اٹھان ان کے مظالم اور بے نام ہونے سے کون واقف نہیں۔ ان کے ہاتھوں فرخ سیر کا قتل بیدل کو دکھی کر گیا اور وہ لاہور آئے پھر دہلی چلے گئے۔ مشکِ بیدل بتاتی ہے کہ اقتدار کی خاطر ظلم و جبر نئی چیز نہیں اور جب سے جہاں آباد ہے یہ فقرہ بولا جاتا ہے کہ اب زمانہ بدل گیا۔