ٹک ٹاک پر آن لائن گیمنگ کی بھی بہت باتیں ہو گئیں، یوٹیوب پر گمراہ کن تھم نیلز بھی عام ہیں۔ فیس بک اور انسٹاگرام پر ریلز ہوں یا شارٹ ویڈیوز ، منفی اثرات بہت بڑھ کر ہیں لیکن فیک نیوز معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں۔ جہاں مسائل بڑھ رہے ہیں وہیں ان مسائل کو بڑھانے میں فیک نیوز کا کردار بھی ہے۔ سوشل میڈیا پر فیک نیوز یعنی جھوٹی خبروں کے حوالے سے پراپیگنڈا بڑھتا چلا جارہا ہے۔ فیک نیوز ہمارے معاشرے کا وہ المیہ بن چکا ہے جس کی وجہ سے پورا معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ خوا وہ نارمل حالات ہوں یا کسی پارٹی کا جلسہ، دھرنا یا کوئی اور واقعہ، بہت سے عناصر فیس بک ، ایکس اکاؤنٹس یا دوسرے پلیٹ فارم پر متحرک ہو جاتے ہیں اور پھر اپنی خود ساختہ معلومات کو شیئر کرنا شروع کر دیتے ہیں جن میں کوئی صداقت نہیں ہوتی۔ یہ تمام فیک نیوز ہی ہیں جو منظم سازش کے تحت وائرل کی جاتی ہیں۔ مرنے والوں کی تعداد ہو یا زخمیوں کی، کسی میں صداقت نہیں ہوتی۔ یا اگر کسی پر الزام لگانا ہو تو تصویریں اور وڈیوز اس طرح سے ایڈٹ کی جاتی ہیں کہ سوشل میڈیا پر بیٹھے سادہ لوح عوام اس پر یقین کر لیتے ہیں۔ اس طرح ایک ہی معاملے پر آپ کو مختلف نیوز نظر آئیں گی، ہر خبر دوسری خبر سے مختلف ہوگی۔ یہ تمام فیک نیوز ہوتی ہیں اور یہ جھوٹی خبریں کوئی اور نہیں سوشل میڈیا صارفین دیتے ہیں جو کہ تمام خودساختہ معلومات ہوتی ہے۔ پی ٹی آئی کی جعلی لاشوں اور "انسانی حقوق” پر تو ہندوستانی میڈیا نے بہت شور مچایا مگر اتر پردیش میں ہندوؤں کے سنبھل مسجد گرانے کے دوران مسلمانوں کی ٹانگیں توڑنے کا حکم دیا جارہا ہے اس پر سب نے خاموشی اختیار کرلی۔ کیا پی ٹی آئی کے کسی سوشل میڈیا گدھ نے سنبھل مسجد واقعہ میں دس مسلمانوں کے مرنے پر ہندستانی بربریت پر منہ کھولا ؟؟ ڈالر جو صرف پاکستان کو گالیاں دینے کے ملتے ہیں! پختون نوجوانوں کو یہ حقیقت سمجھنا ہوگی کہ پی ٹی آئی انہیں صرف اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ جلسے جلوسوں اور مظاہروں میں ان کی توانائی کو سیاسی مقاصد کے لیے بروئے کار لایا جاتا ہے، لیکن جب بات ان کے حقیقی مسائل جیسے روزگار، تعلیم اور امن کی آتی ہے تو یہ جماعت مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی ہے۔ خیبر پختونخوا میں تین بار حکومت کرنے کے باوجود پی ٹی آئی نے پختون عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے کے بجائے صرف سیاسی شعبدے بازی پر توجہ دی۔ نوجوانوں کو سوچنا ہوگا کہ وہ اپنی توانائیاں کس مقصد کے لیے صرف کر رہے ہیں اور اس کے بدلے انہیں کیا حاصل ہو رہا ہے؟ عام آدمی پی ٹی آئی کے پراپیگنڈے کو بخوبی بھانپ چکا ہے۔ ڈی چوک کی کہانی پاکستانیوں کو سمجھ آ چکی ہے۔ وزیراعلیٰ کے پی نے سیکڑوں کارکنوں کی ہلاکت کادعویٰ کیا ساتھ ہی کہا ایک ہزار سے زائد لوگ زخمی ہیں۔ پی ٹی آئی کے سینئر رہنما لطیف کھوسہ نے 280کے قریب ہلاکتوں کی اطلاع دی۔ تحقیقات ہوئیں تو یہ دعوے جھوٹ کا پلندہ نکلے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ بغیر سوچے سمجھے پی ٹی آئی کے کارکنوں نے سوشل میڈیا پر دل کھول کر پراپیگنڈا کیا اور یہ دعوے کرتے رہے کہ سیکڑوں ہلاکتوں کی ذمہ دار حکومت ہے۔ لاشیں کہاں گئیں ؟ تدفین کہاں ہوئیں ؟ کیا یہ سب سوشل میڈیا پر فیک نیوز کا ہی شاخسانہ تھا؟ کنٹینرز کے اندر لاشیں موجود ہونے کا دعویٰ کیا گیا۔۔ مگر یہ لاشیں کہاں سے برآمد ہوئیں؟ پراپیگنڈے کی انتہا دیکھئے کہ ایک فلسطین کی تباہ شدہ گاڑی کی ویڈیو کو بھی پی ٹی آئی سے منسوب کر کے وائرل کیا گیا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ فورسز نے گاڑی پر فائرنگ کی کارکنوں کو مار دیا اور گاڑی جل گئی۔ اسی طرح آرٹی فیشل انٹیلی جنس کا جتنا منفی استعمال پاکستان کی یہ سیاسی جماعت کر رہی ہے شاید ہی کوئی اور کر رہا ہو۔ اس جماعت کے کارندوں نے اے آئی ٹیکنالوجی کی مدد سے ایسی سازش کی جس کی نظیر نہیں ملتی۔ چند سو کے جتھے کو ہزاروں میں دکھانے کے لئے تحریک انصاف کے کارندوں نے دل کھول کر اے آئی تصاویر جاری کیں اور عوام کو گمراہ کرنے کی خوب کوشش کی۔ کیا ایسے حالات میں کوئی بھی پاکستانی ان پر اعتبار کر سکتا ہے ؟ یقینا ایسا نہیں۔ پاکستانی باشعور ہو چکے ہیں اور فیک نیوز پر اب کان نہیں دھرنا چاہتے۔ مسئلہ صرف اسی جماعت کے پیروکاروں کا ہے جو جھوٹ کو سچ دکھانے کیلئے حدیں پار کرجاتے ہیں اور کسی بھی قیمت پر جھوٹ کا اعتراف نہیں کرتے۔ ایسے حالات میں پاکستانیوں کو چوکنا رہناہوگا اور فیک نیوز پر سنجیدہ نہیں ہونا ہوگااسی میں ملک کے مفادات چھپے ہیں۔ تحریک انصاف بھارتی مظالم پر کبھی آواز نہیں اٹھاتی۔ ہر ملک دشمن کام اسی جماعت کے ہاتھوں ہو رہا ہے۔ کشمیر کا سودا کرانے کے بعد تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ان سے کسی اچھے کام کی امید رکھی جائے ، لہذا پاکستانی ہوشیار رہیں اور فیک نیوز پر کان نہ دھریں۔