’’الہامی‘‘ کے بعد ’’الزامی پروپیگنڈا‘‘ کا آغاز

پی ٹی آئی کے الہامی پروپیگنڈا کے بعد اب جو بیانیہ ہمارے سامنے ہے ہم اُسے بغیر ہچکچاہٹ کے ’’ الزامی پروپیگنڈا ‘‘ کہہ سکتے ہیں ۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ الزام بھی اُسی نے ثابت کرنا ہوتا ہے جو الزام عائدکرتا ہے لیکن جب الزام لگانے والا الزام ثابت کرنے کے بجائے ثبوت اور گواہان کے بجائے الزام کے اندر سے الزام نکال لے تو پھر یہ بات سمجھنے کیلئے زیادہ عقل کی ضرورت نہیں کہ اول تو اُس کا الزام بے بنیاد ہے اور دوم وہ اپنے الزام کی بابت کوئی پیش رفت نہیں چاہتا بلکہ فریق ِ ثانی کو غیر ضروری الجھا کر یا اپنے مذموم اور مجرمان مقاصد کے حصول کے لئے عدالتوں کو مشکوک ریاست کو بے رحم اور عوام کو لاعلم رکھ کر تقسیم کرنے کا خواہشمند ہے ۔ اسلام آباد پر مارے جانے والے چار ناکام شب خون اور اُس کے بعد ریاستی اداروں پر سوشل میڈیائی مجاہدین کے ذریعے بے بنیاد الزامات کی بھرمار اور دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی کا یہ کھیل کھیلنے کی اجازت کب تک دی جائے گی ؟ کب تک خیبر پختون خوا سے ایک لشکرِ جرار اٹھے گا اور اور راستوں ٗ رکاوٹوں اورعدالتی پابندیوں کوتاراج کرتا ہوا اُس میدان میں پہنچ جائے گا جو اُن کے پلان کے مطابق مقتل بننا چاہیے تھا لیکن جب مقتلوں کا لشکر چھوڑ کر ’’ قائدین ‘‘ میدان جنگ سے فرار ہو گئے اور مانسہر ہ میں بیٹھ کر لاشوں کا انتظار کرتے ہوئے انہیں معلوم ہوا کہ اُن کے اپنے جنات بوتل سے باہر آ کر اپنے عاملوں کا گلہ دبانا چاہتے ہیں تو خیالی لاشوں کے انبار لگا دیئے گئے۔ لطیف کھوسہ جو اب پنکی پیرنی کو والدہ محترمہ تسلیم کرنے کے بعد لطیف مانیکا بن چکے ہیں اپنی منہ بولی والدہ سے تقریباً 12 سال پہلے دنیا میں تشریف لائے تھے لیکن یہ معجزاتی سیاسی جماعت ہے یہاں کچھ بھی ممکن ہے ۔ حیرت تو یہ ہے کہ لطیف کھوسہ نے کیسے 278 لاشوں کی اطلاع قوم کو دیدی اور کس بنیاد پر دی کوئی نہیں جانتا ٗ کسی کے پاس چالیس کا ہندسہ تھا اور کوئی سیکڑوں کی تعداد لیے پھر رہا تھا ۔ وقت گزر نے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پرچلنے والی خبروں کی صداقت کچھ یوں سامنے آئی کہ جن نوجوانوں کی لاشیں سوشل میڈیا پر دکھا ئی گئی تھیں انہوں نے خود اپنے زندہ ہونے کا اعلان کردیا البتہ پی ٹی آئی نے اپنے آفیشل بیان میں یہ تعدا د 12 بتا کراپنے اُن تمام لیڈروں کو کذاب ثابت کردیا جو ان گنت کا ہندسہ لیے میڈیا اور سوشل میڈیا پر منڈلا رہے تھے اور اپنے بیان کو بھی مشکوک بنا لیا۔

میں اُس اجنبی لشکر کو کہنا چاہتا ہوں کہ تم بہت عزیز ہو بلکہ جان ِعزیز ہو لیکن میں یا تم ریاست ِ پاکستان سے زیادہ عزیز نہیں ہو۔ کیونکہ میں اور آپ نہیں بھی ہوں گے تو ریاستِ پاکستان پوری آب و تاب کے ساتھ دنیا کے نقشے پر چمک رہی ہوگی اور ہماری آنے والی نسلیں ایک زندہ و جاوید قوم کی طرح اقوامِ عالم کے شانہ بشانہ اپنے بعد میں آنے والی نسلوں بارے سوچ رہی ہو ںگی ۔ یہی پاکستان کا مستقبل ہے جس کا نقشہ محبِ وطن پاکستانیوں کے ذہن میں ہے ۔اگر کسی کو اس ریاست میں چلنے والے نظام سے مسئلہ ہے تو اُسے سیاسی جدوجہد کے ساتھ اُسے تبدیل کرنے کا پورا حق ہے۔ وہ اپنا ایجنڈہ پاکستانی عوام کے سامنے رکھیں ٗ اُنہیں اپنا ہم خیال بنائیں اور پاکستان کی اسمبلی اورسینٹ میں پہنچ کر جو کرنا چاہتے ہیں کر لیں۔ یہی جمہوری طریقہ ہے اور یہی اختیار کرناراہ ِ راست بھی ۔ کیونکہ جمہوریت عوامی منشا اورمرضی کا نام ہے ٗ جمہوریت عوامی آمریت کانام ہے۔ جمہوریت عوام کی خواہش کا نام ہے ۔اسے کسی گروہ یا ایک سیاسی جماعت کے نان پولیٹیکل ایکٹرز یا افغان باشندہ کے مزاحمتی کردار سے تو تبدیل کیا نہیں جا سکتا ۔ پاکستان کا ہر فیصلہ پاکستان کے عوام نے کرنا ہے لیکن اگر آپ پاکستان کو نقصان پہنچانے کا سوچیں گے ٗ اگر آپ ریاست کو توڑنے کی بات کریں گے ٗاگر آپ موجودہ پاکستان کو 71 ء سے پہلے کا پاکستان سمجھیں گے ٗ آپ موجودہ معروض کو مشرقی پاکستان کے حالات سے تشبیہ دیں گے یا مکتی باہنی کا کوئی کردار ادا کرنے کی کوشش کریں گے تو آپ کو ایسا کرنے کی اجازت تو دور کی بات سوچنے کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی ۔ آپ کو ایک ہزار میل کے سمندر اور ایک دریا کے فاصلے کو سمجھنا ہو گا ۔

سوشل میڈیا پرپنجاب کے خلاف کمپین چلانے والوں کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے ٗ جو کہتے ہیں کہ پنجابی لڑنے کے قابل نہیں ٗ ایسا کہنے والوں کو اپنے گریبانوں میں ضرور جھانکنا چاہیے کہ وہ خود پنجاب کی ایک مفرور عورت کی قیادت میں اپنا لائو لشکر لے کر اسلام آباد پہنچے تھے اور بقول چشم دید گواہان کے اُس عورت کو وہاں سے جنگجو سورما گنڈا پور براق کی رفتار سے لے کر رفو چکر ہوا ہے ۔ ہمیں نوجوانوں کی تربیت کرنا ہو گی ٗ ہر سیاسی جماعت نے جیسے اپنا میڈیا سیل بنا رکھا ہے ویسے ہی پولییٹکل ٹریننگ سیل بھی بنانا ہو گا تاکہ ہمارے بچے ورغلائے نہ جا سکیں ۔ صدر استحکام پاکستان پارٹی و وفاقی وزیر نجکاری و مواصلات عبدالعلیم خان کی ہدایت پر طالبعلم رہنمامزمل افضل کو پنجاب سٹوڈنٹس فیڈریشن کا چیف آرگنائزرمقرر کیاگیا ہے۔ صدر آئی پی پی پنجاب رانا نذیر احمد خان اور صوبائی جنرل سیکرٹری وممبر پنجاب اسمبلی شعیب صدیقی کی جانب سے استحکام سٹوڈنٹس فیڈریشن کے چیف آرگنائزر کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔مرکزی جنرل سیکرٹری آئی پی پی میاں خالد محموداورصوبائی صدر رانا نذیر احمد خان نے مزمل افضل کو پنجاب آفس لاہور میں نوٹیفیکیشن دیا۔ اس موقع پر استحکام پاکستان پارٹی پنجاب کی قیادت نے سیاست میں طلبا و طالبات کی کامیابی کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی وزیر ا ور صدر آئی پی پی عبدالعلیم خان نوجوانوں کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی چاہتے ہیں، اسی لئے انہوں نے طلبا میں سیاسی بالیدگی اور شعور کے لئے استحکام سٹوڈنٹس فیڈریشن کے قیام کی منظوری دی ہے۔ سیاسی رویے پروان چڑھانے اور سیاسی اتار چڑھائو سے روشناس ہونے کے لئے طلبا سیاست پہلی تربیت گاہ ہے۔آج کا نوجوان با شعور اور معاشرتی حقوق و فرائض بخوبی پہچانتا ہے جس کے لئے اُس کی قائدانہ صلاحیتوں کو نکھارنا انتہائی ضروری ہے۔عبد العلیم خان نے طلبا کو آئی پی پی کے پلیٹ فارم سے سیاسی سفر کا آغاز کرنے پر مبارکباد پیش کی اور انہیں زندگی کے پہلے میدان عمل میں خوش آمدید کہا۔ روس عظیم انقلابی لینن نے کہا تھا مستقبل اُسی کا ہے جس کے ساتھ نوجوان ہوتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مستقبل صرف اُسی سیاسی جماعت کا ہوتا ہے جس کے ساتھ تربیت یافتہ سیاسی نوجوان ہوتا ہے اور اِس کیلئے انہیں پلیٹ فارم فراہم کرنے کے بعد اُن کی سیاسی تربیت بھی سیاسی جماعت کی ذمہ داری ہوتی ہے ورنہ غیر سیاسی ہجوم ملک کا جو حال کرتا ہے وہ ہمارے سامنے ہے اور عبد العلیم خان تو اِس سے بخوبی واقف ہیں مجھے امید ہے وہ جلد ہی اِن نوجوانوں کی تربیت کا بہترین بندوبست کریں گے ۔ تاکہ آئندہ کسی بڑے سانحے سے بچا جا سکے ۔