’’فائونڈر‘‘اپنی صفوں کو درست کریں

لاہور تاجر برادری نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ لاہور چیمبر کے انتخابات کے بعد فائونڈر جو شکست خوردہ ہو جائے گا اور اس کی شکست کے بعد ٹریڈ سیاست میں اس کے مستقبل کے بارے میں بڑے سوالات جنم لے رہے ہیں جبکہ میرے ذرائع کے مطابق فائونڈر کی دوبارہ تنظیم سازی کی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں ابھی بہت سے کام پایہ تکمیل کی طرف رواں دواں ہیں۔ اس دوران سابق صدر کاشف انور پر بھی بہت سے اعتراضات کئے جا رہے ہیں کہ بحیثیت سٹنگ صدر ان کو الیکشن جتوا کر باہر آنا تھا اور ان کی وجہ سے فائونڈر اپنے اوپر انتخاب میں شکست کا لیبل لگوا بیٹھی اور بقول فائونڈر ہی کے ممبران کے چیئرمین فائونڈر میاں مصباح یہ بات بھی کہہ رہے ہیں کہ ہمیں دو سال کسی صدر کو نہیں دینے چاہئیں، ایک سال بہت ہوتا ہے۔ یہ باتیں گزشتہ روز اس وقت سامنے آئیں جب لاہور جم خانہ میں فائونڈر کی تنظیم سازی کے سلسلے میں ایک اجلاس ہوا لہٰذا بہت سے اعتراضات سامنے آئے پر ان کا جواب لینے کیلئے میں نے گزشتہ روز کاشف انور سے ایک ملاقات کی۔ مقصد ان پر لگنے والے وہ اعتراضات جو فائونڈرز کے اندر سے اٹھے۔ ان کے جواب میں کاشف انور نے کہا کہ اب جو کچھ ہوا اور فائونڈر کے ٹوٹنے کی جو باتیں میری وجہ سے ہو رہی ہیں۔ اگر کسی کے پاس اس کا کوئی جواز ہے تو مجھے بتائے کہ کیا میں نے ان کو کہا تھا کہ فائونڈر پیاف اتحاد کو توڑ دیں اور اس وقت جب میں صدر چیمبر کی حیثیت سے صرف فائونڈر پیاف کی بات کر رہا تھا۔ انتخابات کے لئے لوگوں سے ووٹ مانگ رہا تھا۔ اس وقت الائنسز تو آپ نے خود توڑ دیا۔ میں نے تو اس وقت بھی کہا کہ الائنسز توڑنا تھا تو الیکشن سے تین ماہ پہلے توڑتے تو شاید آج ایسی بری ترین شکست کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ یہی ایک ایسا فیصلہ تھا جس سے فائونڈر کو نقصان پہنچا۔ اگر آپ کے نزدیک پیاف فائونڈر اتحاد اس شکست کو میرے اوپر ڈالنا ہی ہے تو پھر وہ کرنا تھا جس کا میں نے کہا تھا۔ اب آپ نے میرا وہ فیصلہ نہیں مانا تو میری کوئی ذمہ داری نہیں اور جن کا فیصلہ تھا وہ ذمہ دار ہیں اور اگر کسی کو بھی میری کام سے کوئی اعتراض ہے تو وہ ثابت کرے۔ یہ وہ غلط تھے تو پھر کیوں ساری مخالف توپوں کے رخ میری طرف موڑ دیئے گئے۔ اب میں آتا ہوں آپ کے اس سوال کی طرف کہ دوران صدارت مجھ سے استعفیٰ لینے کے لئے فائونڈر پیاف کا پریشر تھا۔ یہاں میں واضح کر دوں کہ مجھ سے کسی نے کبھی استعفیٰ مانگا ہی نہیں۔ حالانکہ اس وقت میرے چیئرمین مجھ سے چیمبر کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ کروا سکتے تھے جو میں ان کا پابند تھا تو وہ اگر استعفیٰ مانگتے تو میں دے دیتا۔ انہوں نے یا کسی اور نے بھی مجھ سے استعفیٰ نہیں مانگا لہٰذا جو لوگ الزام لگا رہے ہیں وہ اپنی سیاست چمکانا بند کریں۔ یہاں میں ایک اور بات کرتا چلوں کہ اس الائنسز کو تڑوانے والے اور شکست کے ذمہ دار بھی اور لوگ ہیں۔
یہ تو تھیں کاشف انور کی باتیں ان پر عائد ہونے والے اعتراضات کے جوابات۔ اب پھر فائونڈر کی تنظیم نو کا سلسلہ شروع ہوا ہے اور فائونڈر کے اندر ہی فائونڈر کو نہلانے دھلانے کی خبریں زمانہ گردش ہیں۔ فائونڈر کے حالیہ اجلاس میں بڑی کھل کھلا کے باتیں ہوئیں۔ وہاں اختیارات کی تقسیم اور اس کو مستقبل قریب میں ٹرید سیاست میں کیسے دوبارہ کھڑا کرنا ہے۔ یہاں فائونڈر کو دوبارہ زندہ کرنے والے میاں کاشف انور کی یہ بات بھی ذہن نشین کر لیں کہ آج سے دس سال قبل بھی فائونڈر فرینڈز کلب کے نام سے تنظیم سازی کے لئے اقدامات اٹھائے۔ ان کو غدار قرار دے دیا گیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا اب ایسا تو نہیں ہوگا۔ میں نے اپنے گزشتہ دو کالموں میں اس بات کا اظہار کیا تھا کہ فائونڈر سے جب تک ایک شخصی کردار اور یکطرفہ اختیار کو ختم نہیں کیا جائے گا جب تک عہدوں میں اختیارات کی تقسیم نہیں ہوگی جب تک تنظیم کو ٹریڈ سیاست کے اصولوں کے مطابق ری آرگنائزڈ نہیں کیا جائے گا جب تک فائونڈر کے اندر بھرپور اعتماد کی فضاء قائم نہیں ہوگی اور ایک دوسرے کی اہمیت کو تسلیم نہیں کیا جائے گا شاید فائونڈر کے معاملات بہتر نہ ہو سکیں گے۔
میں اپنے گزشتہ دو تین کالموں میں اس بات کا ذکر کر چکا ہوں کہ فائونڈر پہلے اپنے اندر ان لوگوں کو تلاش کرے جو وجہ شکست بنے۔ پہلے وہ 240کے قریب ووٹر سے پوچھے کہ وہ ووٹ ڈالنے کیوں نہیں آئے، اصل شکست کے ذمہ دار تو آپ کے وہ ووٹر ہیں جنہوں نے فائونڈر کی کمر پر چھرا گھونپا۔ ایسے لیڈروں اور سابقہ ای سی ممبرز کو بھی منظرعام پر لائیں جنہوں نے کام ہی نہیں کیا اور ایک ووٹ بھی نہیں مانگا اور لیڈری کا دعویٰ بھی کرتے ہیں اور انہوں نے ہی حسرتوں کی محبتوں کو شکست میں بدل دیا۔ فائونڈر ان کو تلاش کرے جنہوں نے لندن پلان کے تحت علی حسام کے پیاف کے ساتھ معاہدہ نہ کرنے کا کہا اور فائونڈر کے ساتھ اتحاد کی خبر اور پھر ایک بڑی پریس کانفرنس آرگنائز کروا دی ،میں یہاں نہ کاشف انور کی نہ میں فائونڈر کے ان لوگوں کی زبان بول رہا ہوں جن کا بڑا دکھ یہ ہے کہ وہ کسی بھی شکل میں پیاف انجم نثار کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔ وہ اس لئے بھی ناراض گروپ بن گئے کہ سوائے لندن پلان والوں کے علاوہ کسی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ میں نے لاہور چیمبر کے انتخابات سے قبل بار بار کہا تھا جو آن ریکارڈ ہیں کہ 40فیصد خاموش ووٹ کسی کی بھی جیت میں بڑا کردار ادا کرے گا یا تو وہ گھر سے نہیں نکلے گا یا پھر انجم نثار کے ساتھ اتحاد توڑنے اور اپنے اندر کا غصہ فائونڈر کو ووٹ نہ دے کر نکالے گا۔ میں یہ بات ان حقائق پر لکھ رہا ہوں جن کے ثبوت میرے پاس موجود ہیں۔ یہ فائونڈر کی اب بقاء کا معاملہ ہے کہ وہ اتنی بڑی شکست کے بعد بجائے ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کریں اپنی صفوں کو درست کریں اور اس کی ری آرگنائزیشن کرتے ہوئے پہلے اس کی بنیادوں کو ازسرنو مضبوط کرے جو اب بہت کمزور ہو چکی ہیں۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ گرتے ہیں شہ سوار ہی میدان میں… یا ایک پنجابی کی مثال ہے۔
’’ڈولے پیراں دا کج نئیں وگڑیا‘‘
میری اطلاع کے مطابق اب نئے سرے سے اس کی تنظیم سازی کرنے میں اس وقت شیخ ابراہیم ہیں جو دن رات ان کوششوں میں مصروف عمل ہیں کہ فائونڈر نہ صرف پھر سے متحد ہو۔ ایک بڑی طاقت بن کر ابھرے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ چیئرمین سے لے کر نیچے تک عہدوں کی مناسبت سے پاور بھی دیں اور ایک چھوٹے سے بڑے فیصلے تک سب کو اعتماد میں لیں۔ جب آپ کسی کو اعتماد میں نہ لے کر خود فیصلے کرنے کے مجاز بن جائیں گے تو پھر وہی ہوتا ہے جو فائونڈر کے ساتھ ہوا۔ اب اگر فائونڈر کو نہلا دھلا کر نئے کپڑے پہنائے جا رہے ہیں تو پھر ان الزامات سے بچیں کہ یہ لوگ تنظیم سازی کے اندر اپنی چودھراہٹ قائم کرنا چاہتے ہیں اور بات جانتے ہوئے بھی کہ اب دور ہے نئی قیادت، نئے لوگوں اور نئے تازہ دم دستے کا… جو لوگ یہ نعرہ لگا رہے ہیں کہ ہم فائونڈر تھے ہم فائونڈر ہیں اور فائونڈر رہیں گے تو پھر ان لوگوں کو اختیارات کے ساتھ سامنے لائیں، کسی بھی ٹریڈ باڈی کی کامیابی میں اس کا مضبوط ڈھانچہ ہوتا ہے۔ آپ کی آرگنائزیشن بہتر ہوگی تو وہ مضبوط نظر آئے گی۔ لیڈرشپ میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں مگر مضبوط ڈھانچہ آپ کے ورکرز اور ووٹر کا اعتماد بن جاتا ہے… باقی نام رہے اللہ کا…!