آئے بھی وہ گئے بھی وہ ختم فسانہ ہو گیا۔ انجام ٹریجڈی، انقلاب ناکامی کے بعد لاشوں کی تلاش، مردہ خانوں کے چکر، 24 نومبر کی فائنل کال اپنے پیچھے کئی الجھی کہانیاں چھوڑ گئی۔ بقول افتخار عارف ’’کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہو گا‘‘۔ پورا انقلاب آدھے گھنٹے میں ناکام، حیرت انگیز، خیبر پختونخوا سے مار دھاڑ کرتا رکاوٹیں ہٹاتا رینجرز جوانوں کو گاڑیوں تلے کچلتا اور پولیس اہلکاروں پر گولیاں برساتا دس پندرہ ہزار کا لشکر جناح ایونیو اور بلیو ایریا کے علاقہ میں 26 نومبر کی رات تاریکی میں گم ہو گیا۔ گرینڈ آپریشن نے پی ٹی آئی کے رہنمائوں کی آرزوئوں کا جنازہ نکال دیا۔ لشکر کی خود ساختہ کمانڈر بشریٰ بی بی کی ڈی چوک پہنچنے کی خواہش دم توڑ گئی اور وہ آپریشن سے چند لمحے قبل علی امین گنڈا پور کے ہمراہ گاڑی میں بیٹھ کر پیر سوہاوا کے راستے مانسہرہ فرار ہو گئیں، ’’قسمت کی خوبی دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند، دو چار ہاتھ جبکہ لب بام رہ گیا‘‘ اناڑی پن، فتنہ پرداز، سیاست سے بے خبر بشریٰ بی بی کی سیاسی زندگی کا سورج طلوع ہوتے ہی غروب ہو گیا۔ خان کی سیاسی جد و جہد کو مایوسیوں کے بحیرۂ عرب میں ڈبو گیا۔ بشریٰ بی بی ڈی چوک سے 5 سو گز دور تھیں، خان کی جانب سے مبینہ طور پر سنگجانی میں دھرنے کے حکم کو ویٹو کرتے ہوئے لشکر کو یہاں تک لے آئی تھیں لیکن ڈی چوک میں فوج دیکھ کر آگے بڑھنے سے ہچکچائیں اور گنڈا پور کو موت کے منہ میں جانے کی ہدایات دیتی رہیں، اس موقع پر ان سے تلخ کلامی اور کارکنوں کے ساتھ گالیوں کا تبادلہ ہوا، گنڈا پور کی بھی منزل یہی تھی، اس لیے وہ پیش قدمی پر آمادہ نہ ہوئے۔ بشریٰ بی بی کے دو ڈھائی سو جن بھوت ڈی چوک کے کنٹینروں تک پہنچ گئے۔ تاہم پیچھے دھکیل دئیے گئے۔ چائنہ چوک پر حملہ آور لشکریوں اور پولیس میں گھمسان کارن پڑا، دونوں جانب سے زبردست شیلنگ، فائرنگ پتھرائو گھنٹوں جاری رہا اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ انقلابیوں کو کچلنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ رات 11 بجے پورے علاقہ کی لائٹس آف، آپریشن شروع، شیلنگ اور فائرنگ کی آوازیں، لشکر میں بھگڈر مچ گئی، بشریٰ بی بی اور گنڈا پور کے فرار کی خبر سے بھی مظاہرین کے حوصلے جواب دے گئے۔ بی بی کے کنٹینر کو آگ لگا دی گئی۔ چاند ماری شروع ہوتے ہی دس پندرہ ہزار انقلابی اپنا اسلحہ ٹوپیاں، جوتے، بوتلیں اور دو سو گاڑیاں چھوڑ کر رات کی تاریکی میں غائب ہو گئے۔ بدھ کا سورج طلوع ہوتے ہی شہر اقتدار کا منظر نامہ تبدیل تھا۔ زندگی معمول پر آ گئی، کنٹینر ہٹا دئیے گئے تجارتی مراکز میں گہما گہمی شروع ہو گئی۔ خفیہ اداروں کو اس دوران مبینہ طور پر ایک خفیہ منصوبہ کا نقشہ ملا جس میں وزیر اعظم ہائوس قومی اسمبلی اور دیگر عمارتوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ ان پر قبضہ اور نذر آتش کرنے کا پلان بنایا گیا تھا اس کے علاوہ ایک ہزار تربیت یافتہ افغان دہشت گرد تباہی مچانے کے لیے اسلام آباد کے کسی خفیہ مقام پر ٹھہرائے گئے تھے۔ انہیں کارروائی کا موقع نہ مل سکا۔ کتنے ہی پکڑے گئے خبر ہے کہ حکومت نے 31 دسمبر تک این او سی کے بغیر پوش علاقوں میں رہائش پذیر افغانوں کو شہر سے نکل جانے کا حکم دے دیا ہے۔
انقلاب سے ملک کو کیا ملا؟ تین چار روز اسلام آباد بند رہا، کروڑوں کا نقصان، کاروبار بند، وفاقی حکومت کو 23 کروڑ 28 لاکھ کے اخراجات برداشت کرنا پڑے، 8 سو کنٹینرز کا کرایہ 7 کروڑ 88 لاکھ، آنسو گیس کے شیل، ربڑ کی گولیوں پر 11 کروڑ کے اخراجات دو ڈھائی کروڑ کے کیمرے توڑ دئیے گئے۔ 22 گاڑیاں تباہ، درختوں کو جلا دیا گیا۔ کتنے نفلوں کا ثواب ملا، پولیس چیف کے مطابق 954 اور رپورٹرز کی اطلاعات کے مطابق سوا چار ہزار مظاہرین گرفتار کر لیے گئے جو تھانوں میں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں، وکلا اور ضمانتی نہیں مل رہے۔ کارکن جیلوں میں قیادت گھروں میں یا ٹی وی سکرینوں پر انقلاب کا پوسٹ مارٹم کرنے میں مصروف، گرفتار شدگان میں 70 سے زائد افغان شامل 32 مقدمات قائم، دو سو گاڑیاں پکڑی گئیں،39 ہتھیار قبضہ میں لیے گئے، فورسز کے چار جوان شہید، 71 زخمی ان میں رینجز کے 52 جوان شامل 27 کو گولیاں لگیں، انقلابی کتنے مرے ابھی تک ایک لاش پیش نہ کی جا سکی صرف دعوے، سلمان اکرم راجہ نے 8، شیر افضل مرمت نے 12 گنڈا پور نے سیکڑوں اور لطیف کھوسہ نے 278 لاشوں کی نشاندہی کی۔ کے پی کے کسی گھر سے آہ و
بکا سنائی نہ دی، گنڈا پور نے کھال بچانے کے لیے ہر نامعلوم خاندان کو ایک کروڑ دینے کا اعلان کر دیا، وفاقی حکومت کے 6 کھرب اسی طرح خرچ ہوں گے، خواجہ آصف کے مطابق ساری ہلاکتیں آن لائن ہوئیں، پی ٹی آئی نے لاشوں کا رخ سوشل میڈیا بی بی سی، سی این این اور وائس آف امریکا کی طرف موڑ دیا جو لاشوں کی متضاد تعداد بتا رہے ہیں۔ مقصد پاکستان اور یہاں کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بدنام کرنا ہے۔ ناکام انقلاب کا نتیجہ؟ پی ٹی آئی میں زبردست پھوٹ پڑ گئی، بشریٰ بی بی نے سیاسی قیادت کو بے شرم اور بے غیرت کے القابات سے نوازا اس پر کور کمیٹی اور سیاسی کمیٹی کی جانب سے شدید رد عمل آیا۔ تلخ کلامی ہوئی، سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ، سنی اتحاد کونسل کے حامد رضا نے استعفے دے دئیے جو بیرسٹر گوہر نے منظور نہیں کیے خبریں گشت کر رہی ہیں کہ بشریٰ بی بی کے سیاسی بیانات پر پابندی لگا دی گئی ہے وہ پشاور کے کسی مقام پر محصور ہیں۔ وفاقی دارالحکومت سے نیب کی ٹیم ان کی گرفتاری کے لیے پشاور پہنچ گئی ہے۔ یہ بھی افواہیں سننے میں آ رہی ہیں کہ مبینہ ہلاکتوں اور گرفتاریوں کے بعد خیبر پختونخوا کے عوام ان کے دشمن ہو گئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انہیں پنجاب واپس بھیجا جائے مگر جوں ہی وہ صوبہ سے باہر قدم رکھیں گی انہیں گرفتار کر لیا جائے گا۔ وفاقی حکومت کی جانب سے صوبہ میں ایمرجنسی، گورنر راج کے نفاذ اور دوبارہ انتخابات پر غور کیا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے سربراہ خان کس حال میں ہیں؟ خبروں کے مطابق 8 فروری کے انتخابات کے بعد اسلام آباد پر پانچ حملے ناکام ہوئے 24 نومبر کی فائنل کال ناکام ثابت ہوئی بہتوں کی جان لے گئی۔ بشریٰ بی بی اور گنڈا پور سمیت پوری سیاسی قیادت ناکام رہی۔ خان کی ضمانتیں مسترد ہو گئیں، قید لمبی ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ سنگجانی میں دھرنے کی صورت میں مذاکرات کا موقع کھو دیا گیا۔ عوام کب تک اس انتشار کو برداشت کریں گے پنجاب سندھ اور بلوچستان سے 24 نومبر کی کال پر کوئی نہیں نکلا، آئندہ گنڈا پور کے 3 ہزار کے دیہاڑی دار بھی کنی کترا جائیں گے۔ حکمت عملی سے عاری خود غرض سیاست اپنے انجام کو پہنچ گئی۔ خبر دی گئی کہ پی ٹی آئی اب آئندہ ایک سال تک کال نہیں دے گی لیکن سراغ لگانے والوں کا کہنا ہے کہ خان دسمبر کے وسط تک ایک اور فائنل کال دینگے اس بار لشکر لاہور سے چلے گا حکومت الرٹ رہے ڈرامے دہرانے سے فائدہ کچھ حاصل نہیں ہو گا۔