سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے

پاکستان کی تاریخ میں آج تک کوئی معرکہ ایسا نہیں لڑا گیا جس میں حکمرنوں کوفتح اور اپوزیشن کو شکست ہوئی ہو حکمرانوں نے 24 نومبر کی تحریک انصاف کی کال کو ختم کرنے کے لیے 22 نومبر سے ہی پورے پاکستان کی تمام شاہراہوں موٹر ویز ٹرانسپورٹ اور وہ تمام ذرائع بند کر دیے جس پر تحریک انصاف کے رہنما اور کارکن اسلام آباد پہنچ کر حکومت کے خلاف احتجاج کر سکیں اسلام آباد کو آنے والے وہ تمام راستے کنٹینر لگا کر سیل کر دیے گئے تاکہ ہوا کا جھونکا بھی اسلام آباد کی شہریوں کو پی ٹی آئی کے کارکنوں کی طرح پریشان نہ کر سکے پنجاب سے کسی بھی شہری تحریک انصاف کے کارکن کو لاہور سے ڈیرہ غازی خان سے ملتان سے سیالکوٹ سے شیخوپورہ سے فیصل آباد سے قصور اوکاڑا گجرات گجرانوالہ منڈی بہاؤالدین سرگودھا میانوالی اور دیگر وہ تمام شہر جن سے تحریک انصاف کے کارکن اپنے قائد بانی پی ٹی آئی عمران خان کی کال پر اسلام آباد ڈی چوک پر پہنچ کر احتجاج کرنے کے لیے آنا چاہتے تھے ان کے تمام راستے بند کر دیئے گئے حتیٰ کہ تین دن پہلے سے پنجاب پولیس نے کریک ڈاؤن کرتے ہوے تحریک انصاف کے متحرک رہنماؤں کارکنوں کو گرفتار کیا اور ان کے گھروں پر چھاپے مارے اور اس طرح پاکستان کی معیشت کو حکومت نے خود ہی کھربوں روپے کا نقصان پہنچا دیا جس کا ذکر میں نہیں وزیر خزانہ پاکستان اور وزیراعظم پاکستان نے اپنی اپنی تقریر میں کیا ہے اور انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ہم نے ڈی چوک پر پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں جو کہ دہشت گرد تصور کیے گئے اور کہا گیا کہ اس کاروان میں طالبان اور افغانستان کے لوگ بھی شامل تھے۔ تحریک انصاف کے یہ کارکن جان جوکھوں سے جدوجہد کر کے ڈی چوک تک پولیس اور رینجر نے گھیرا ڈال کر تمام گلیوں اور راستوں کو بند کر کے چاروں طرف سے گھیرا ڈال کر بتیاں بجھا کر آنسو گیس کے شیل برسا کر آپریشن کیا اور نماز پڑھتے ہوئے لوگوں کو اور کھانا کھانے والے لوگوں کو ڈی چوک سے اس طرح بھگایا جس طرح مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت ظلم کر کے وہاں کے شہریوں کو نشانہ بناتی ہے اسی طرح ڈی چوک کو بھی چاروں طرف سے گھیر کر تحریک انصاف کے کارکنوں اور رہنمائوں پر اس طرح آنسو گیس سے حملہ کیا کہ کارکنوں کو بھاگنے کے لیے کوئی راستہ نہ ملا اور چند ہی گھنٹوں کے بعد ڈی چوک پر آ کر وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے اپنے اپنے انداز میں تحریک انصاف کے کارکنوں کو بھگوڑے کہتے ہوئے الزام لگایا کہ یہ تو عمران خان کو اڈیالہ جیل سے رہا کرانے کے لیے آئے تھے اور اپنے کپڑے، دوپٹے اور دیگر اشیاء ڈی گراؤنڈ میں چھوڑ کر بھاگ گئے بشریٰ بیگم اور علی امین گنڈا پور نے تو یہ شرکا سے قسم لی تھی کہ ڈی چوک سے اس وقت نہیں ہلیں گے جب تک عمران خان کو اڈیالہ جیل سے رہا نہیں کرائیں گے یہ طعنے دیتے رہے حالانکہ حکومت تو ماں کی طرح ہوتی ہے اپنے تمام بچوں کو ایک ہی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن یہاں کچھ مسئلہ ہی اور تھا جو پولیس اور رینجر کے جوان شہید ہوئے جن کا پاکستان کے 25 کروڑ عوام کو غم ہے وہاں پر جو تحریک انصاف کے کارکن شہیدکر دیے گئے ان کا بھی غم پولیس اور رینجر کے شہید ہونے والے کارکنوں جیسا ہے لیکن حکمران رینجر اور پولیس کے شہداء کے لیے تو اچھے جذبات رکھتے ہیں اور ان کی جنازے میں وزیراعظم اور چیف آف آرمی سٹاف خود شرکت کرتے ہیں جب کہ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی یہ کہہ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کی لاشیں ڈھونڈ کے دکھائیں ان کے نام بتائیں تو میں یہاں وفاقی وزیر سے ملتمس ہوں ہسپتال آپ کے ہیں حکومت آپ کی ہے جو چاہیں آپ کر سکتے ہیں بتیاں بجھا کر آپ آپریشن کریں یا روشنی پھیلا کر آپ کچے کے ڈاکو تلاش کریں ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں لیکن جو ظلم کی داستان تحریک انصاف کے کارکنوں کے ساتھ اسلام آباد کے ڈی گراؤنڈ میں دہرائی گئی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔