میرا خیال تھا اپنے مطالبات منوانے کے لئے پی ٹی آئی یا عمران خان کی جانب سے ریاست یا حکومت کے خلاف دی جانے والی فائنل کال مکمل طور پر ناکام ہو جائے گی اور کوئی ایک ’’احتجاجی‘‘ اسلام آباد میں داخل نہیں ہو سکے گا ، جب ہزاروں لوگ سرکار کے تمام انتظامات کو درہم برہم کر کے اسلام آباد ڈی چوک داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے تو اس فائنل کال کو ناکام کیسے قرار دیا جاسکتا ہے ؟، ریاست نے ایک بار پھر اپنی طاقت کا بھرپور استعمال کیا ، انتہائی قابل افسوس اور قابل مذمت جانی و مالی نقصان کے بعد ڈی چوک خالی کروا لیا ، اس وقت جو حالات بن گئے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے جیل میں بیٹھا شخص اپنے مقاصد کے حصول میں کافی حد تک کامیاب ہو رہا ہے ، اْس کے مطالبات پورے ہوتے ہیں یا نہیں یہ الگ بات ہے مگر یہ طے ہے اْس کی چوبیس نومبر کی فائنل کال چوبیس نومبر سے پہلے ہی کامیاب ہو گئی تھی کیونکہ حکومت یا ریاست نے اس فائنل کال سے نمٹنے کے لئے جو حکمت عملی اپنائی وہ انتہائی ناقص اور عوام کے لئے اتنی تکلیف دہ تھی کہ عوام کے دلوں میں سیاسی و اصلی حکمرانوں کے خلاف پہلے سے موجود نفرت میں مزید اضافہ ہوگیا ، شاید یہی عمران خان چاہتا تھا ، اس موقع پر انتہائی بھونڈے انداز میں اتنے جھوٹ بولے گئے ماضی میں جن کی کوئی مثال نہیں ملتی ، عمران خان کے پونے چار سالہ اقتدار کو لوگوں نے اتنا پسند نہیں کیا ، اْن کے کچھ ابتدائی اقدامات اور فیصلوں سے ہی لوگوں کو اس بات کا یقین ہوگیا تھا وہ دوسرے حکمرانوں سے مختلف ثابت نہیں ہوں گے ، تبدیلی کے نام پر جو خواب لوگوں کو اْنہوں نے دکھائے تھے وہ شرمندہ تعبیر ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دے رہے تھے ، جنرل باجوہ اگر اپنے کچھ ذاتی مذموم مقاصد کے لئے عمران خان کی حکومت ختم نہ کرتے عمران خان سیاسی طور پر خودہی ختم ہو جاتے ، اگلے الیکشن میں اْن کی جماعت کا ٹکٹ لینے والا شاید کوئی نہ ہوتا ، جنرل باجوہ مزید سوا سال اْن کے ساتھ گزارا کر لیتے ملک آج اس قدر بے یقینیوں ، بے چینیوں بدنامیوں اور تنزلیوں کا شکار نہ ہوتا ، جو شخص اپنے اقتدار کے پونے چار برسوں میں کچھ نہیں کر سکا تھا مزید سوا سال اْس نے ایسا کیا کر لینا تھا جس کی بنیاد پر اگلے دس سال تک وہ اقتدار میں رہتا ؟ ، فرض کر لیں وہ اگر جنرل فیض یا’’بے فیض حمید‘‘ کو آرمی چیف بنا بھی دیتا میں پورے وثوق سے کہتا ہوں جس طرح کی ہمارے کچھ جرنیلوں کی فطرت ہوتی ہے اْس کے مطابق جنرل ’’بے فیض حمید‘‘ نے بھی وہی احسان فراموشی دکھانی تھی جو جنرل ضیاء الحق ، جنرل مشرف اور جنرل باجوے نے اْن سیاسی حکمرانوں کے لئے دکھائی تھی جنہوں نے اْن کی تقرریاں بطور آرمی چیف کی تھیں ، جنرل ’’بے فیض حمید‘‘ نے بھی کچھ ہی عرصے بعد عمران خان کا اقتدار ختم کر دینا تھا اور اگلا الیکشن بھی اْسے جیتنے نہیں دینا تھا ، مجھے دْنیا کے بیشمار مْلکوں میں جانے کا موقع ملتا ہے ، اس برس میں کینیڈا، امریکہ، آسٹریلیا ،برطانیہ اور یو اے ای گیا ، بے شمار اوورسیز پاکستانیوں سے میری ملاقاتیں ہوئیں ، اْن کا کہنا تھا’’ ہمیں اس بات کا دْکھ نہیں عمران خان کی حکومت کو قبل از کیوں ختم کیا گیا ؟ ، یہ کام ہمارے کچھ جرنیلوں نے اپنی فطرت کے مطابق ہر دو چار سال بعد کرنا ہی ہوتا ہے ، ہمیں بھی اس کی عادت ہو گئی ہے ، ہمیں دْکھ اس بات کا ہے عمران خان کو نکال کر اْن ہی لوگوں کو کیوں اقتدار میں لایا گیا جن کے بارے میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے والوں نے بڑی محنت سے یہ بیانیہ بنایا تھا اور ہمیں یقین دلایا تھا کہ وہ اوّل درجے کے چور ڈاکو ہیں اور ملک میں ہر تباہی کے وہی ذمہ دار ہیں‘‘۔
اوورسیز پاکستانیوں کا یہ گلہ بہت حد تک جائز ہے ، عمران خان بھی اپنے اْس وقت کے محسنوں اور آج کے دْشمنوں کے حکم پر سوائے چور ڈاکو چور ڈاکو کی رٹ لگائے رکھنے کے کچھ نہیں کر سکے ، کبھی کبھی مجھے یوں محسوس ہوتا ہے وہ اپنے دور اقتدار میں جب بھی کوئی ڈھنگ کا کام کرنے لگتے ہوں گے اْنہیں اقتدار میں لانے والے اْن سے کہتے ہوں گے’’کاکا ہم تمہیں کوئی ڈھنگ کا کام کرنے کے لئے نہیں لائے ، تمہارا کام بس اتنا ہے ہمارے اْن مخالفین کو چور ڈاکو چور ڈاکو کہتے رہو جو ووٹ کو عزت دینے کی بات کر کے ہمیں ہرٹ کرتے رہتے ہیں ، اگر ووٹ کو عزت مل گئی بوٹ کی عزت کہاں جائے گی ؟ پاکستان میں یہ طے ہو چکا ہے صرف وہی سیا ست دان اقتدار کی مدت پوری کر سکتے ہیں جو مکمل تابعداری کی اہلیت رکھتے ہوں ، ایک بار زرداری نے مجھے بتایا تھا ’’میں نے اپنے اقتدار کی مدت صرف اس لئے پوری کی میں نے ’’نامعلوم افراد‘‘ کے کاروباری معاملات میں بالکل دخل نہیں دیا ، جوابا اْنہوں نے بھی نہیں دیا ، ہم بس کبھی کبھار ملاقات ہونے پر بڑے ادب سے اْن سے پوچھ لیتے تھے’’ سر بھائیوں کا کاروبار خیر سے ٹھیک چل رہا ہے ؟‘‘ ، مجھے یقین ہے’’مشترکہ جذبہ خیر سگالی‘‘ کے طور پر کبھی کبھار نامعلوم افراد بھی اْن سے پوچھ لیتے تھے’’سر بات ٹین پرسینٹ‘‘ سے آگے بڑھی یا نہیں ؟‘‘ ، کل مجھ سے کسی نے پوچھا ’’عمران خان دوبارہ اقتدار میں آ سکتے ہیں ؟‘‘ ، میں نے عرض کیا’’ 1999ء میں نواز شریف کی حکومت گرانے کے بعد جب دس سال کے لئے اْنہیں جدہ بھجوایا گیا کوئی یہ تصور بھی نہیں کرتا تھا وہ دوبارہ اقتدار میں آئیں گے ، مگر سب نے دیکھا وہ پھر اقتدار میں آئے ، اْس کے بعد پھر نکالے گئے پھر لائے گئے ، اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں جو بدزبانی وہ کرتے تھے وہ عمران خان کی بدزبانیوں سے کچھ زیادہ ہے ، اس میں اْن کی بیٹی بھی بھر پور حصہ ڈالتی رہی ہے ، سو جب کوئی آپشن سوائے عمران خان کو لانے کے اور کوئی نہیں رہے گا نو مئی کا واقعہ بھی شاید بھلا دیا جائے گا ، بس ایک یقین دہانی وہ اگر کروا دیں کہ وہ اقتدار میں آ کر کسی کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی اپنی فطرت کے مطابق نہیں کریں گے اور چھبیسویں آئینی ترمیم کو نہیں چھیڑیں گے ، اقتدار کے لئے اْن کی راہیں آسان ہونا شروع ہو جائیں گی ، کوئی مانے نہ مانے امریکہ میں نئی حکومت کا قیام بھی جلد یا بدیر اْن کی مشکلیں آسان کرے گا ، یہ بڑا دلچسپ معاملہ ہوگا اقتدار سے نکالنے کے لئے کسی ملک کی مداخلت ناجائز اور اقتدار میں لانے کے لئے اْسی مْلک کی مداخلت جائز سمجھی جائے ، ویسے اندرون و بیرون ملک عمران خان کی مسلسل مقبولیت اور حکمرانوں کی مسلسل نااہلیوں اور بدنامیوں کا جو ماحول پاکستان میں بن گیا ہے مجھے لگتا ہے رہا ہونے کے لئے یا دوبارہ اقتدار میں آنے کے لئے عمران خان کو امریکہ کی حمایت کی اب زیادہ ضرورت نہیں رہے گی ، اْنہیں بس مزید صبر کی ضرورت ہے ، اْن کے خلاف کھڑی کی جانے والی ہر دیوار اپنے ہی وزن سے گرے گی۔