یہ غالباً 1990ء کی بات ہے۔ مجھے روزنامہ جنگ کے لئے نامور کمپیئر، رائٹر، افسانہ نگار جنہوں نے بڑے سفرنامے اور ناول تک لکھ ڈالے، مستنصر حسین تارڑ کا انٹرویو کرنا تھا۔ وہ ان دنوں فردوس مارکیٹ لاہور میں رہتے تھے۔ دوران انٹرویو میں نے ان کی پسندیدہ سواری کے بارے میں پوچھا تو وہ بولے کہ مجھے اکثر ٹانگے پر بیٹھنا اچھا لگتا تھا۔ آج بھی یاد ہے گھوڑے کے پاؤں کی ٹک ٹک کوچوان کا گھوڑے کو زور زور سے چابک مارنا اور ساتھ ساتھ اس کو اپنی زبان میں سمجھانا میں کبھی نہیں بھول پاتا اور بہت افسوس کہ آج کی نسل ہمارے اس بڑے ورثے سے محروم ہے۔ میں نے مستنصر حسین تارڑ کا حوالہ یوں دیا کہ اس زمانے کے لوگوں کو یہ سواری آج بھی اچھی لگتی ہے۔ جدید دور کی جدید نسل کو تو شاید اس بات کا بھی علم نہیں کہ برصغیر پاک و ہند میں تانگے کی ایک زمانے میں بہت اہمیت ہوتی تھی۔ مغلیہ دور سے چلتی یہ سواری ایک زمانے میں بھارت کے راجواڑوں سے امراء تک تانگے کا استعمال کرتے اور بعض بڑے گھروں کے تو ذاتی تانگے ہوتے۔ آپ بہت دور نہ جائیں آج بھی دیہاتوں میں تانگوں کا استعمال ہوتا ہے، شہروں میں تو بچوں کو سکول تک لے جانے کے لئے ویگنز اور گاؤں میں بچے پرانی اور روایتی سواری تانگے پر ہی جاتے ہیں۔ نوے کی دہائی تک لاہور میں تانگوں کا بہت رواج تھا خاص کر لکشمی چوک سے لوہاری اور داتا دربار تک زیادہ تانگے ہی چلتے تھے۔ آپ کو یاد ہوگا، اسی دور میں گلوکار مسعود رانا کا زمانہ مشہور گیت بہت سنا کرتے تھے۔
ٹانگہ لہور دا ہووے تے پاویں جھنگ دا ٹانگے والا خیر منگدا گزشتہ دنوں مجھے ایک کام کے حوالے سے لوہاری جانا تھا تو میں نے دیکھا کہ وہاں اب بھی تانگے چلتے ہیں۔ مجھے مگر اکا دکا ماضی کے دنوں میں تانگے کا چلنا، سواریوں کا اس میں بیٹھنا اپنے گاؤں کے تانگے والے اور تانگے یاد آتے ہیں۔ لالہ تانگے والا… بھولا تانگے والا… لالی تانگے والا… کرمو تانگے والا۔ سو دل آج میرا مچلا اور ایک دم خیال آیا کہ تانگے کی سواری لوں۔ اس خیال سے کہ اب تو یہ سواری ناپید ہو گئی اور پھر ماضی کی کہیں ناں کہیں نشانی نظر آ جائے تو اچھا لگتا ہے لہٰذا تانگے پر بیٹھ گیا تو فوراً ذہن میں آیا کہ کیوں نہ اس ناپید سواری کے کوچوان کا انٹرویو کر لوں۔ جیسے ہی میں تانگے پر بیٹھا تو کوچوان کو پرہجوم ٹریفک میں تانگے کو آگے لے جانے میں بڑی دقت پیش آ رہی تھی۔ یوں بھی شام کے وقت شاہ عالمی سے لے کر داتا سرکار تک بے پناہ رش اور گھنٹوں ٹریفک بلاک رہتی ہے اور تانگے والا کہیں غصے میں گالیاں، کہیں گھوڑے کو کوستا رواں دواں تھا۔
میں نے کوچوان سے سوال کب سے تانگہ چلا رہے ہو تو وہ بولا میرا پڑدادا تے میرے نانکے سب تانگہ چلاندے سی… کیا نام ہے تمہارا… جی کالیا۔ اس نے سینہ تان کے جواب دیا… اب تو تانگے کا دور ختم ہو گیا ہے پھر کیسے روٹی شوٹی کماتے ہو… جد میں چھوٹا سی تے تو میں نے کار وچ بندھے گھوڑے اور تانگے دے بارے ماں نوں پوچھیا تو اس نے جواب دیا ساڈا رزق تے ساڈا مقدرے ساڈے غریباں دی دال روٹی کما لیندا اے اور یہ تیرے ابے کا یار بھی تو ہے پھر ابا دنیا سے چلا گیا تو ابے کی جگہ میں اس کا یار بن گیا… کیا تیرا یہ یار اتنے پیسے دے دیتا ہے کہ زندگی آسان ہو جاتی ہے۔ تو کالیا بولا کدی سواریاں، تے کدی سامان مل جاندا اے، خرچہ تو پورا نہیں ہوتا، مہنگائی نے برا حال کر دتا اے… فیر وی رب دا شکر اے… ساڈے دوناں دی جندگی گزر ای رہی اے… شروع لے لاہور کے ہو… تو کالیا بولا… لہور ای میرا جم پل اے… کبھی ووٹ ڈالا ہے۔ میں نے ایک اور سوال پوچھا… پہلے نواج نے ہون خان نوں ووٹ دتا اے… ٹی وی دیکھتے ہو؟… ٹی وی نئیں اے… تمہیں پتہ ہے کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے؟… سانوں روٹی دی فکر اے… ملک نال ساڈا کی تعلق… دن میں کتنا کما لیتے ہو؟… کدی چنگا تے کدی ماٹھا دن گزردا اے… ٹی وی نہیں تو فلم کبھی دیکھی؟… ’’راہی‘‘ دیاں فلماں دا شوق سی… ڈانس کس کا اچھا لگا؟… گوری تے انجمن دا… آج کل کونسی اداکار کا ڈانس پسند ہے؟… سینما کہا رہا کار ای بند ہو گئے تے نالے ہون نہ عمر تے نہ وقت اے… ابھی میرے سوالات کا سلسلہ جاری تھا کہ وہ بولا… باؤ جی اے دسوں خان جیل توں چھٹے گا؟… کیوں تم اس کو پسند کرتے ہو؟… بندہ کھرا اے… پر اس نے تو مہنگائی کی ہے؟… ہون تے او اندر اے ایہہ جیڑے بار بیٹھے نیں اے کی کردے پئے نیں… میں نے موضوع بدلتے ہوئے سوال کیا کبھی پریشانی ہوئی… اک نہیں پریشانیاں ای پریشانیاں نیں… اپنی روٹی، پانی دا خرچہ… گھوڑے دا خرچہ… بچیاں دا خرچہ… سڑک تے آواں تے پْلس والیاں دا خرچہ… کیا تمہارا بھی چالان ہوتا ہے… ہن تے حکومت نے سانوں وی نمبر لا دیتا اے… اس دوران اس کا موٹر سائیکل سے رکشا چلانے والوں کے ساتھ گالیوں کا سلسلہ بھی جاری و ساری رہا… کتنے بچے ہیں؟… اٹھ بچے نیں پنچ کاکیاں تے تن کاکے… کاکے اور کاکیاں پڑھتے ہیں؟… کچی… دوجی تیجی جماعت اے… دل نہیں کرتا کہ تمہارے بچے بھی پڑھ لکھ کر بڑے آفیسر بنیں؟… روٹی کھان نوں نئیں ملدی، فیساں کھتوں آن گیاں؟… بچیوں کی شادیاں بھی تو کرنا ہیں؟… کمیٹی پائی اے… حکومت سے کوئی گلہ کوئی شکوہ کوئی بات جو کہنا چاہتے ہو؟… جانور ساڈی گل من لیندا اے حکومت کتھے من دی اے… اسی اثناء میں کالیا نے تانگے کا رخ پھر لوہاری کی طرف کرکے آوازیں لگانا شروع کر دیں… شالمی… لوآری… شالمی… لوآری…
پیارے پڑھنے والو…!
یہ تو ایک کوچوان کالیا کے گلے شکوے تھے یہاں تو ہر طبقہ مہنگائی تلے دبا ہوا ہے یہ تو پھر غریب کوچوان جو آج کے دور میں بھی تانگہ چلا کر دال روٹی گھر لے آتا ہے۔ اس مہنگائی کے دور میں ہم اس سے وہ سب کچھ چھن گیا۔ جن کے بغیر اس کی زندگی ادھوری تھی۔ گدھا گاڑی سے لے کر تانگے کی سواری تک کے ماحول بھی رنگوں میں رنگے جاتے۔ انہی زمانوں میں گاؤں سے شہر جانے کے لئے گاؤں ہی کے بڑے زمیندار اور نمبرداروں کے گھروں میں اپنے تانگے ہوتے۔ جس طرح آج ہر گھر میں گاڑی ہے تو اس زمانے میں تانگے رکھنا فخر ہوتا تھا۔
اور آخری بات…!
یوتھیوں کی سب سے بڑی برائی گالیاں دینا ان کی فطرت احترام آدمیت سے کوسوں میل دور سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور وزیر دفاع خواجہ آصف اور پھر میاں نوازشریف اور مریم نواز پر جو بدتمیزیاں ہوئیں اور بانی کے لندن یاترا اور یوتھیوں نے اپنے خبیثوں نے اپنے خبیث پن کی انتہا بھی عبور کر ڈالی۔ یہ بات تو طے ہے کہ جب ان کا لیڈر بدتمیزی کی زبان بولے گا تو پھر یوتھیوں نے تو اس زبان کو ہی بولنا ہے۔ خدا تعالیٰ ایسے مرشد اور مرشد کے چیلوں سے ملک اور عوام کو بچائے… باقی رہے نام اللہ کا۔