تین دن قبل جب اچانک رات ساڑھے سات بجے کے قریب بچوں کے سکول کی جانب سے میسج آیا کہ کل سے سکول کھل جائے گا اور اپنے بچوں کو موسم سرما کی یونیفارم اور کچھ تبدیل شدہ کتب کے ساتھ لازمی بھیجیں۔ فوری طور پر ڈی ایچ اے لاہور کے ایچ بلاک کا رخ کیا جہاں مخصوص دکان پر سکول کی جملہ ضروریات دستیاب ہوتی ہیں۔ لیکن جیسے ہی مین بولیوارڈ پر آئے تو حیران کن طور پر ہرجانب گاڑیاں ہی گاڑیاں تھیں۔ بڑی مشکل سے 5 منٹ کا فاصلہ 25 منٹ میں طے کر کے مطلوبہ بک شاپ پرپہنچے تو وہاں خوف و ہراس کی کیفیت کے ساتھ عجیب سی ہڑبونگ مچی ہوئی تھی۔ پہلے تو سمجھ نہیں آیا کہ ہوا کیا ہے؟ بس ایک ہی آواز آ رہی تھی جلدی دکان بند کرو۔ باہر پولیس کی گاڑیوں کے سائرن بھی بجنا شروع ہو گئے۔ میں نے سیلزمین سے کہا کہ جلدی سے یہ دو کتابیں دے دو۔ اس کی مہربانی کہ اس نے کتابیں فوراً نکال دیں۔ میں نے پے منٹ کے لئے کارڈ بڑھایا تو اس نے ایک نمبر میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا سر اس پر ٹرانسفر کر دیجئے گا اور لائٹس آف کرنے لگ گیا۔ میں جیسے ہی دکان سے باہرنکلا تو 5 منٹ پہلے روشنیوں سے جگمگاتی مارکیٹ مکمل بند ہو چکی تھی۔ سٹریٹ لائٹس کے علاوہ سب بتیاں بجھ چکی تھیں۔ اس بار سموگ کو لے کرجو بھی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ ان سے کسی پائیدار پالیسی کی جھلک نہیں دکھائی دی۔ بادی ¿النظر میں لگتا ہے کہ انتظامیہ اس صورتحال کے لئے ذہنی طور پرتیار ہی نہیں تھی۔ خوفناک سموگ کی وجہ لاہور، دہلی کو پچھاڑ کر جب پہلے نمبرپر براجمان ہوا تو لاہور ہائیکورٹ کے محترم جسٹس شاہد کریم نے انتظامیہ کو سموگ کی روک تھام کے لئے فوری اقدامات کے احکامات جاری کئے۔ ظاہر ہے انتظامیہ کی ایسی صورتحال سے نمٹنے کی کوئی پلاننگ یا تیاری نہیں تھی۔ جو بعد ازاں ان کے اقدامات سے ظاہر بھی ہوا۔ جو نوٹیفیکیشن جاری کئے گئے ان سے ماضی قریب میں کرونا کی وبا سے نمٹنے جیسے ملتے جلتے اقدامات کی جھلک نظرآئی۔ ان سارے احکامات میں صرف ایک ہی مرکزی نقطہ تھا کہ سب کچھ بند کر دو۔ ایک جانب تو ہمارے وزیر خزانہ اس امر کا شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ احتجاج اوردھرنوں سے ملکی معیشت کوروزانہ اربوں کا نقصان ہوتا ہے۔ دوسری جانب حکومت خود بلا سوچے سمجھے سب کچھ بند کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ اس دوران بہت سے کام بالائے نوٹیفیکیشن بھی کئے گئے ہیں ۔ پولیس کو موقع مل گیاکہ وہ تاجروں کوڈرا دھمکا سکے۔ ایک دوست نے فون کر کے کہا کہ یار ایسا لگتا ہے کہ ہم تاجر نہیں بلکہ چور یا ڈاکو ہیں۔لاہور اور فیصل آباد میں گزشتہ اتوار کے روز زبردستی دکانیں بند کرائی گئیں۔ سیلز کے عملے سے بدتمیزی اور کئی ایک کو زبردستی تھانے لے جایا گیا۔ اس بڑھتی صورتحال پر متعلقہ پولیس کے سینئر حکام سے رابطے کیا گیا تو انھوں نے ایسے کسی بھی حکم سے لا علمی کا اظہار کیا۔ یعنی ایسا عجیب گھمسان مچا ہوا ہے کہ انتظامی اور عدالتی فیصلوں کی من مانی تشریح ہر علاقے کا ایس ایچ او خود سے ہی کر رہا ہے۔ اس دوران حکومت نے بھی لاک ڈا¶ن کا عندیہ دے دیا۔ آخر کار قدرت کو رحم آیا اور ہوا کا رخ بدلنے سے لاہور سمیت پنجاب کے دیگر شہروں کا ائر کوالٹی انڈیکس تقریباً معمول پر آگیا ہے۔ لاہور کی معمول کی فضا ویسے ہی آلودہ ہے۔ اس میں بہتری لانے کے لئے شجر کاری، صنعتی آلودگی اوردھواں چھوڑنے والی گاڑیوں سے متعلق بڑے دور رس اور انقلابی فیصلے کرنا ہوں گے۔ پنجاب میں ایک تاجر دوست تاثر رکھنے والی حکومت ہے۔ ملک کو درپیش معاشی چیلنجز سے نکلنے کے لئے معیشت کو بھرپور انداز میں چلانے کے ضرورت ہے۔ ایسے وقت میں پاپولر فیصلے ملک کے حق میں بہتر ہیں اور نہ ہی حکومت کے۔ آرگنائزڈ ریٹیل سیکٹر کے ڈیٹا کے مطابق 11 نومبر کے بعد صرف ایک ہفتے (سات دن) میں دو گھنٹے پہلے دکانیں بند کرنے سے تقریباً 2.7 ارب روپے کا معاشی نقصان ہوا ہے۔ جبکہ حکومت کو سیلز ٹیکس کی مدمیں ساٹھ کروڑ کی کم آمدن ہوئی ہے۔ 13 دنوں میں یہ نقصان دوگنا ہو چکا ہے۔ اگر پورے پنجاب کا احاطہ کیاجائے تو یہ نقصانات بہت زیادہ ہوں گے۔ یہ ڈیٹا صرف ان دکانوں کا ہے جوپی اوایس کے سسٹم سے جڑی ہوئی ہیں۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ کلچر تبدیل کیا جائے لوگ جلدی سوئیں اور جلدی جاگیں۔ فیصلہ سازوں کے علم میں ہوگا کہ پنجاب کے 70 فیصد پرمشتمل چھوٹے شہر مغرب کے بعد بند ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ جبکہ بڑے شہروں میں بڑی ہول سیل مارکیٹس اور پرائیویٹ دفاتر بھی تقریباً7 بجے کے بعد بند ہوجاتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو 80 فی صد سے زائد پنجاب 8 بجے سے پہلے بند ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد صرف بڑے شہروں میں ہوٹل، مالز اور ہائی سٹریٹ آ¶ٹ لیٹس کھلی رہ جاتی ہیں۔ جہاں لوگ شام کے کھانے اور شاپنگ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ بڑے مالز اور ہائی سٹریٹس کا کلچر ایک پورے سسٹم سے جڑا ہے جہاں لوگوں کو تفریح، شاپنگ اور کھانے ایک ہی جگہ پر میسر ہوتے ہیں۔ اگران میں سے کوئی ایک بند اور دوسرا کھلا ہو توپورا بزنس کلچر متاثر ہوتا ہے۔ یعنی اگر یہ کہاجائے کہ کچھ بزنسزاس وقت بہترپرفارم کرتے ہیں جب باقی بند ہوتے ہیں۔ لاہور جیسے
شہر بڑے میں جہاں کسی بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں کم ازکم آدھ سے پون گھنٹہ لگتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کاروباری حضرات،سرکاری اور پرائیویٹ ملازمین، ورکنگ وومن اور سٹوڈنٹس شام ساڑھے 7 بجے کے بعد گھر پہنچ کر کس وقت اور کس طرح شاپنگ کرنے جا سکتے ہیں؟ اس تبدیل ہوتے سرد اور تقریبات کے موسم میں ہر شخص کچھ نہ کچھ خریدنا چاہتا ہے۔ لیکن وقت کی اس بندش نے سب کچھ چوپٹ کر دیا ہے۔ حکومت کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ کلچرل تبدیلی کے عمل کو درست تناظر میں دیکھے۔ ایسی تبدیلی بپا کرنے کی کوشش نہ کرے جس سے لوگوں کی خوشیاں ماند پڑ جائیں۔ جبر کے ذریعے کئے جانے والے فیصلے زیادہ پائیدار نہیں ہوتے۔ بلکہ عوام کو حکومت سے دور لے جانےکا باعث بنتے ہیں۔ اگر درست تناظر میں دیکھا جائے تو موجودہ معاشی حالات کسی طرح اس کلچرل تبدیلی کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہیں۔ کلچرل تبدیلی کی خواہش اپنی جگہ لیکن یہ اس انداز میں نہیں ہونی چاہیے کہ لوگوں کی ذاتی زندگیوں اور معاشی سرگرمیوں پر اثر انداز ہو۔ حکومت کو اپنے حالیہ فیصلوں پر نظرثانی کرتے ہوئے ریسٹورنٹس کے ساتھ مالزاور ہائی سٹریٹ مارکیٹس کو10 بجے تک کھلنے کی اجازت دینی چاہیے۔ اس کے بعد اگر کچھ اصلاحات ناگزیر ہیں تو سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشورے کے ساتھ کی جائیں تاکہ اس سے بہتر ثمرات حاصل کیے جائیں اور نقصانات سے بچاجائے۔