کے پی کے میں مسلم لیگ ن کمزور کیوں ؟

پچھلے کئی دنوں سے خیبر پختونخوا کے نظریاتی ن لیگیوں اور صوبے میں موجود کچھ دیگر سیاسی دوستوں سے بات ہوئی تو اندازہ ہوا کہ وہاں پارٹی دن بدن کمزور ہو رہی ہے. اور اسکی جو وجوہات سامنے آئیں ان میں آپسی اختلافات ، مقامی عہدیداران کی ایک دوسرے کے خلاف اندرون خانہ سازشیں، مقامی صوبائی لیڈران کا ناروا رویہ اور پارٹی معاملات سے لا تعلقی نکلا۔ صوبائی تنظیم اور اس کا صوبے میں فعال ہونا یا فعال رہنا سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ لیکن ان سارے مسائل کے باوجود اطمینان بخش خبر ملی تو وہ تھی کہ صوبہ بھر میں اگر کوئی صوبائی تنظیم اور فرد مسلم لیگ ن کی بھرپور نمائندگی کر رہا ہے تو وہ صوبائی ترجمان ن لیگ اختیار ولی خان ہیں۔

بہت پرانی بات بھی نہیں کہ خیبر پختونخواہ میں مسلم لیگ ن سب سے منظم، متحرک اور بڑی سیاسی جماعت تھی لیکن پچھلے کچھ عرصے سے صوبے کی اس بڑی سیاسی جماعت نے ریورس گیئر لگا رکھا ہے۔بے شک اس پہ پارٹی کی مرکزی قیادت کی فوری توجہ درکار ہے۔ مسلم لیگ ن کو صوبہ کے پی کے میں مزید منظم اور طاقتور ہونے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ مسلم لیگ ن ہی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جو انتشاری، تخریبی، ملک دشمن اور فارن فنڈڈ فتنہ جماعت پی ٹی آئی کا سیاسی میدان میں مقابلہ کر سکتی ہے۔

اس وقت اگر دیکھا جائے تو پورے صوبے میں پارٹی کے پاس دو ہی موثر آوازیں ہیں۔ پہلی کیپٹن صفدر صاحب اور دوسرا اختیار ولی صاحب۔ دوسری طرف حیرانگی ہے کہ مسلم لیگ کے پی کے، کے صدر جناب امیر مقام کافی عرصے سے وفاق میں وزیر بن کر صوبائی سیاسی منظر سے ہی غائب ہیں۔ نا تو انہیں کسی نے کبھی کسی نیشنل چینل پہ پارٹی اور قیادت کے بیانئے کا دفاع کرتے دیکھا ہے اور نا ہی کبھی صوبے میں پارٹی کی تنظیم نو میں کہیں مصروف لیکن اس کے برعکس پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کی فسطائیت کے خلاف روزانہ کی بنیاد پہ کیپٹن صفدر اور اختیار ولی کو ہی پارٹی کے منشور کو فروغ دیتے، قیادت کا دفاع کرتے اور لولی لنگڑی تنظیم سازی کرتے دیکھا گیا ہے۔

اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ ن لیگ کو اس وقت کے پی کے میں ایک فعال، نڈر اور متحرک صوبائی قیادت کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن جہاں تک کیپٹن صفدر کا تعلق ہے تو وہ پارٹی کے مرکزی رہنمائوں میں سے ایک ہیں اس لئے وہ قطعی طور پہ کسی بھی صوبائی عہدے کے امیدوار نہیں ہونگے۔ لہٰذا ان کی عدم دستیابی کی صورت میں موجودہ صدر مسلم لیگ ن کے پی کے جناب امیر مقام اور جناب اختیار ولی خان صوبائی ترجمان ن لیگ ہی پارٹی پرچم اٹھانے کے لئے بچتے ہیں ۔

مت بھولئے کہ تاریخ بڑی بے رحم ہے اور یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ جب امیر مقام صاحب ڈکٹیٹر جنرل مشرف کے قریبی ساتھی تھے اور اسے مہمان بنا کر اس سے تحفے لے اور دے رہے تھے، تو تب بھی اختیار ولی خان اپنی پارٹی اور زبردستی جلاوطن کی گئی قیادت کے ساتھ پورے قد کاٹھ کے ساتھ موجود تھے۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پارٹی صوبائی لیول پہ انہیں کیوں مسلسل نظر انداز کر رہی ہے؟ اس سوال کا جواب تو قیادت ہی بہتر دے سکتی ہے کہ جن کی آنکھوں کے سامنے پارٹی دن بدن سکڑ رہی ہے۔ اور وہ اب تک ایک مؤثر صدر و دیگر عہدیداران پہ مشتمل فعال ڈھانچہ ہی تشکیل نہیں دے سکے۔ صوبہ کے پرانے ن لیگی ہمدردوں کے بقول حقیقت تو یہ یے کہ آج اختیار ولی صاحب کو صوبائی قیادت سونپ دیں۔ تو کل ہی مسلم لیگ ن کے پی کے میں نئی جان پڑ جائیگی جو کہ پختون خواہ کے موجودہ حالات اور وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

یقینا امیر مقام پارٹی کے لئے قابل احترام ہیں اور جب قیادت انہیں ان کے مرتبہ کے مطابق مرکز میں وزیر بنا کر ایڈجسٹ بھی کر چکی ہے تو صوبائی قیادت بھی ان کو دیئے رکھنے کی دلیل،ضد یا مجبوری کیوں؟ ۔
آخر میں ن لیگ کی مرکزی قیادت سے پیشگی معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ مسلم لیگ ن کے پی کے کی قیادت پارٹی کے مشکل وقت کے ساتھی، ایک نظریاتی کارکن اور دہائیوں سے قیادت کے وفادار کو ہی جچتی ہے۔ لہٰذا صوبہ میں موجود مگر مایوس لاکھوں ورکروں کی اپنی مرکزی قیادت سے درخواست ہے کہ خدارا سوچئے صوبائی قیادت کسی فعال بندے کے ہاتھ دیجئے تا کہ پارٹی کے مزید زوال کو روکا جا سکے اور مسلم لیگ ن کو دوبارہ صوبہ کی سب سے بڑی جماعت بنایا جا سکے۔