سیاست دانوں کو دو باتیں یاد رکھنی چاہیے ۔ایک یہ کہ وقت تیزی سے بدلتا ہے۔ آج کی برائی کل کی ضرورت بن جاتی ہے اور آج کی ضرورت کل کی برائی بن جاتی ہے ۔ لوگ بھول جاتے ہیں لیکن تاریخ یاد رکھتی ہے ۔ دوسری بات یہ کہ اس بات سے بچنا چاہیے جو کل اپنے سامنے آئے ۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں نے یہ بھگتا ہے اسی لیے ایک وقت کے بعد دونوں جماعتیں میثاق جمہوریت پر متفق ہو گئیں ۔یہ الگ بات ہے کہ بعد میں بھی اس میں ڈنڈی مارنے کی کوشش کی گئی لیکن ماضی کی بدترین مخالف جماعتوں نے اپنے اپنے وقت پر وہ فصل کاٹی جو دوسرے کے لیے بوئی تھی۔ عمران خان کے لیے البتہ یہ پہلا موقع تھا ۔ انہیں پہلی بار حکومت ملی اور پھر وہ بھی اسی طرح جیل گئے جیسے نواز شریف اور ان کے ساتھی گئے تھے ۔ آصف زرداری اس سے قبل طویل قید کاٹ چکے تھے اور مبینہ طور پر اس دوران انہیں تشدد اور زبان کاٹے جانے جیسی تکالیف سے بھی گزرنا پڑا تھا۔ یقینا عمران خان بھی اسی طرح قومی دھارے کی سیاست میں واپس آئیں گے جیسے ماضی میں دیگر جماعتوں کے قائدین واپس آئے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بانی تحریک انصاف دوبارہ حکومت میں بھی آ جائیں ۔ سیاست کے میدان میں کچھ بھی ممکن ہے یہاں جیتنے والا گھوڑا لمحے میں شکست کھا سکتا ہے اور آخری نمبر پر نظر آنے والا گھوڑا اچانک بازی پلٹ سکتا ہے۔ زیادہ مدت نہیں ہوئی، بانی تحریک انصاف جلسوں میں سائفر لہراتے تھے اور ان کے کارکنان "ہم کوئی غلام ہیں ؟” کے نعرے لگاتے تھے پھر یہ وقت بھی آیا کہ اسی تحریک انصاف کے لیے امریکا میں بھاری معاوضہ پر لابسٹ کمپنی کی خدمات لی گئیں تاکہ امریکا سے تعلقات بہتر ہو سکیں ۔ امریکی سفیر کی سابق وزیراعلیٰ کے پی کے سے ملاقاتوں کی خبریں بھی سامنے آئیں ۔ تحریک انصاف کے قائدین کی جانب سے پاکستان کے قرضے روکنے کے لیے خط تک لکھنے کی اطلاع ملی۔ محب وطن پاکستانیوں کے لیے یہ دکھ کی خبر تھی کہ دیوالیہ ہوتے ملک کے قرضے روکنے کا خط اس لیڈر کی جانب سے بھیجا جا رہا تھا جسے پاکستان کا خیر خواہ سمجھا جاتا ہے۔ اب پھر اسی بانی تحریک انصاف کے حوالے سے سوالات اٹھ رہے ہیں ۔ عمران خان ان کے مخالف یہودی ایجنٹ کہتے رہے ہیں ۔ ان کی سابقہ بیوی خصوصاً سابقہ برادر نسبتی کی الیکشن سپورٹ سمیت ایسے کئی حوالے ہیں جنہیں بنیاد بنا کر ان پر ایسے الزامات لگائے گئے ۔ دوسری جانب تحریک انصاف ایک بار پھر ایسی ہی غلطی کر رہی ہے جس سے ان الزامات کو تقویت مل رہی ہے ۔ عمران خان پر پاکستانی قوانین کے مطابق مقدمات درج ہیں اور انہیں پاکستانی عدلیہ نے جیل سے رہا نہیں کیا ۔ ابھی ان کے مقدمات کی سماعت ہو رہی ہے ۔ ممکن ہے انہیں ان مقدمات میں سخت سزا ملے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ باعزت بری ہو جائیں۔ ہر دو صورت میں یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے ۔ عمران خان نہ تو کسی عالمی مقدمہ کی زد میں ہیں اور نہ ہی ان کا معاملہ کسی اور ملک کی دلچسپی کا حامل ہو سکتا ہے ۔اس کے باوجود بانی تحریک انصاف کی جانب سے 24 نومبر کو دی جانے والی احتجاجی کال سے قبل ایک بار پھر امریکی کانگرس کے 46 اراکین کی جانب سے صدر جو بائیڈن کو ایک خط لکھا گیا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ پاکستان میں گرفتار بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے کوشش کریں۔اس سے قبل بھی 60 اراکین کی جانب سے ایک خط جو بائیڈن کو لکھا گیا تھا۔ اس طرح اب مجموعی طور پر کانگرس کے سو سے زائد اراکین نے صدر جو بائیڈن سے بانی پی ٹی ائی کے رہائی کے لیے کوششیں کرنے کا مطالبہ کیا ہے جو کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہی قرار دی جا سکتی ہے ۔ ان اراکین میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں شامل ہیں۔ امریکی کانگریس کے اراکین کی اس دلچسپی نے کئی سوال اٹھا دیئے ہیں ۔ امریکی کانگریس کے اراکین کی اس بے چینی پر سوال اٹھ رہے ہیں کہ کیا واقعی بانی تحریک انصاف غیر ملکی طاقتوں کے ایجنڈے پر تھے یا پھر انہوں نے اپنی رہائی کے عوض کچھ وعدے کر لیے ہیں ؟ امریکی کانگریس کے اراکین کا بار بار صدر جو بائیڈن کو خط لکھ کر بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے کردار ادا کرنے کا کہنا کسی بھی خود مختار ملک کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت ہے اور یہ سفارتی اصولوں کے خلاف ہے۔ اراکین کانگریس کی جانب سے لکھے گئے اس دوسرے خط کی بھی بظاہر کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے کیونکہ یہ خط پاکستان کے نظام انصاف پر دبا ڈالنے کی ایک کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ تحریک انصاف کے حامیوں کی جانب سے ان خطوط کو اہمیت دینا یا ان پر خوش ہونا بذات خود تحریک انصاف کے لیے مزید مشکلات کا باعث بن سکتا ہے ۔ شاید عمران خان کو ایک عرصہ تک اس سوال کا سامنا کرنا پڑے گا کہ اگر وہ واقعی کسی صیہونی طاقت کے ایجنٹ نہیں تھے تو امریکہ کے حکومتی و اپوزیشن اراکین کانگریس ان کی رہائی کے لیے اتنے بے قرار کیوں ہو گئے کہ پاکستان کے اندرونی معاملہ پر خط لکھ بیٹھے ؟ کیا یہ خطوط امریکا میں ہائر کی گئی لابنگ کمپنی اور تحریک انصاف کی جانب سے لکھوائے گئے ؟ اگر ایسا ہے تو سوال اٹھتا ہے کہ پاکستان کے اندرونی معاملہ میں امریکا سے دبائو ڈلوانے کی کوشش کرنا ملک دشمنی نہیں ؟ اگر ایسا نہیں ہے اور ان خطوط میں تحریک انصاف کا کوئی عمل دخل نہیں تو معاملہ مزید مشکوک ہو جاتا ہے کہ کیا بانی واقعی کسی طاقت کے مہرے تھے یا پھر یہ خطوط کسی وعدے یا یقین دہانی کا نتیجہ ہیں ؟ مبینہ سائفر سے حمایتی خطوط تک لکھی جانے والی تاریخ تضادات اور سوالات سے عبارت ہے۔