معاشرے میں اگر انتہا پسندی اور دہشت گردی کا دور دورہ ہے تو اس کی ایک بنیادی وجہ آج کے نوجوانوں کی ضرورت کے مطابق کھیلوں کے میدان، پارک اور سٹیڈیمز کی کمی بھی ہے۔ جب نوجوانوں کو تعمیری سرگرمیوں میں حصہ لینے کے مواقع نہیں فراہم کیے جائیں گے، تو ان کا غیر صحتمندانہ اور تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ہونا لازم ہے۔ ان نوجوانوں میں سے جن کے پاس مالی وسائل ہوتے ہیں، وہ تو پھر بھی کچھ نہ کچھ سرگرمی ڈھونڈ لیتے ہیں، لیکن وسائل سے محروم زیادہ تر نوجوان اکثر ون ویلنگ کرتے اور خطرناک حد تک کرتب دکھاتے سڑکوں پر اپنے جنون کا اظہار کرتے پائے جاتے ہیں۔
پاکستان کے تقریباً تمام بڑے شہروں خصوصاً لاہور اور کراچی میں ہفتے اور اتوار کے روز سورج نکلنے سے پہلے ہی ٹین ایجر لڑکوں کے جھنڈ کے جھنڈ شہر کی مختلف سڑکوں پر موٹر سائیکلوں پر موجود ہوتے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں یہ نوجوان صبح سے لے کر اکثر شام ڈھلے تک مصروف شاہراہوں پر ریسنگ اور ون ویلنگ کرتے ہیں، جبکہ بعض اوقات ماؤں کے اکلوتے بیٹے کسی حادثے کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔
ہماری ’’سیاسی اشرافیہ‘‘ جس کا عوام، ان کے مسائل، جذبوں اور ان کے فطری اظہار سے کوئی تعلق نہیں، وہ ‘ریاستی ہتھیار’ پولیس کے ذریعے ان نوجوانوں پر قابو پانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کبھی ان کی موٹر سائیکلوں کی ہوا نکال دیتے ہیں، کبھی تھانوں میں بند کر دیتے ہیں، اور ‘اوپر’ سے پریشر زیادہ ہو تو پکڑے جانے والے لڑکوں پر توہین آمیز تشدد بھی کیا جاتا ہے۔
گذشتہ کئی برس کا مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والے ان ’’جنونیوں‘‘ کی تعداد میں کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ اضافہ ہی ہوا ہے جس سے یہ بات تو ثابت ہوتی ہے کہ پابندیاں اور تشدد کسی بھی مسئلے کا حل ہیں اور نہ مسئلے کو ختم کرنے کا باعث ہیں، جبکہ مسائل میں اضافہ ہوتے ضرور دیکھا گیا ہے۔
اس سوال کا جواب کھوجنے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی کہ جوش، ولولے اور جنون سے سرشار نوجوانوں کے لیے کھیلنے کے میدانوں پر کیوں اور کس طرح قبضہ گروپوں یا نجی و سرکاری اداروں نے قبضہ کر رکھا ہے، اور وہاں تعمیرات کے ذریعے ان سے مثبت سرگرمیوں کے مواقع چھین لیے ہیں۔
جب ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی پر مشتمل ملک کے اس مستقبل کے جنون کے نکاس کے ذرائع ہی بند، محدود، یا پھر اشرافیہ کے نوجوان کے لیے مختص کر دیئے جائیں گے، تو یہ اپنا جنون سڑکوں پر تخریبی اور خطرناک کھیلوں کے ذریعے نہیں نکالیں گے تو کیا کریں گے؟
کبھی نئی آبادیاں بنتی تھیں تو وہاں کھیل کے میدان ضرور بنائے جاتے تھے۔ لیکن اب ہوسِ زر میں مبتلا معاشرے کی زمین کے ایک ایک انچ پر کمرشل تعمیرات ہوتی نظر آ رہی ہیں، اور کھیلوں کے میدان اور پارک کم ہوتے جا رہے ہیں، جبکہ ان کی ضرورت آبادی میں اضافے کے ساتھ بڑھتے جانا ایک فطرتی عمل ہے جس پر توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
مہذب ممالک کی طرح اگر ان بچوں کے جنون کی نکاسی کی راہیں کھلی رکھی جاتیں تو آج ہم سماجی ٹوٹ پھوٹ کے ساتھ انتہا پسند معاشرے کے قالب میں نہ ڈھلتے۔ جاپان، چین، روس، اور مغربی ممالک میں نوجوانوں کی ذہنی و جسمانی نشو نما کے لیے نت نئے طریقے اور کھیل دریافت کیے جاتے ہیں اور ان کے لیے کھیلوں کے میدان اور سٹیڈیم بنائے جاتے ہیں، جہاں یہ بچے اپنے شوق کی تسکین کے ساتھ صحت مند سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔
مغربی ممالک نے کار، موٹرسائیکل اور سائیکل کے کرتب دکھانے کو باضابطہ کھیل کا درجہ دے رکھا ہے جس کی وجہ سے ان کھیلوں میں حفاظتی اقدامات بھی اسی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس نہ تو اس چیز کو محفوظ بنانے کے لیے سرکاری سرپرستی حاصل ہے، اور دوسری صورت میں اس سے روکنے کے لیے کوئی متبادل منصوبہ بندی بھی نہیں۔
یہاں کرکٹ جیسے غیر پیداواری کھیل کو ہی قومی اور عوامی سمجھ لیا گیا ہے، جبکہ علاقوں کی پہچان، ذہنی و جسمانی نشونما کے حامل کم دورانیے کے کھیلوں کبڈی، فٹ بال اور ہاکی کو جیسے جلاوطن ہی کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ کھیل نوجوانوں کے صحت و تندرستی کے ساتھ باہمی بھائی چارے اور معاشرے میں امن کی فضا کو قائم کرنے کے حوالے سے شدید ضروری ہونے کے ساتھ ناگزیر بھی ہیں جن پر حکومت اور دیگر اداروں کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔
اس وقت معاشرہ جس ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، دہشت اور خوف کی فضا میں آئے روز اضافہ ہوتا جارہا ہے ایسے حالات میں تو علاقائی کھیلوں کے فروغ کی اور بھی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہے جس کی طرف حکومت کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
قومیں ہوں یا معاشرے ان کی ذہنی و جسمانی نشونما کے راستے بند کئے جائیں گے تو معاشرے میں انتہا پسندی، عدم تحمل، رواداری اور عدم برادشت جیسے رویوں میں اضافہ ہوگا۔ پاکستان میں اس وقت کھیلوں اور تفریح کے مواقع محدود سے محدود تر ہوتے جا رہے ہیں۔ کبھی یہاں جشن بہاراں عوامی سطح پر منایا جاتا تھا۔ گلیوں محلوں اور کھیتوں کھلیانوں میں رنگ و نور کے دلکش مناظر ہوتے تھے جو انسانی ذوق کی تسکین کے ساتھ اس کی فرسٹریشن کو دور کرنے کا بھی ذریعہ تھے، جبکہ حکومت یہاں پر بھی دھاتی ڈور کا سدِباب کرنے کے بجائے پورے تہوار پر ہی پابندی لگا چکی ہے۔
جو ادارے اس طرح کی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے کام کر رہے ہیں، حکومت کو ان کی سر پرستی کرنی چاہیے ورنہ نوجوان اپنے جنون کا اظہار سڑکوں پر ون ویلنگ جیسے خطرناک کھیلوں کے ذریعے کرتے رہیں گے جس میں دن بہ دن اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے۔ حکومت کو اس ضمن میں ماں باپ کا رویہ اپنانے اور بچوں کی ضروریات کے مطابق کھیل اور تفریح کے مواقع پیدا کرنے پر توجہ دینی چاہیے تاکہ ہم بھی ایک تحمل اور رواداری کا حامل ایسا انسانی معاشرہ بن سکیں جس کی مثال دنیا دے۔