بانی پی ٹی آئی اور تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لئے 24نومبر کو احتجاج نہیں بلکہ تحریک کی کال دی گئی ہے اور ساتھ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آخری کال ہے ۔ آگے بڑھنے سے پہلے آخری کال کے حوالے سے چند الفاظ کہ بقول شاعر
ترے وعدے پر جئے ہم، تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جا تے اگر اعتبار ہوتا
ہماری دعا ہے کہ کاش تحریک انصاف کی قیادت اور بانی پی ٹی آئی اپنے کہے پر قائم رہیں اور اس کے بعد احتجاج یا کسی تحریک کی کوئی کال نہ دیں اور ملک کو پر سکون انداز میں چلنے دیں بالکل اسی طرح کہ جیسے 2018کے الیکشن کے بعد اس وقت کی حزب اختلاف کو بھی ان انتخابات پر اسی طرح کے تحفظات تھے کہ جیسے تحریک انصاف کو فروری 2024کے انتخابات پر ہیں لیکن آپ کو یاد ہو گا کہ قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں اس وقت کے قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری دونوں نے خان صاحب کو میثاق معیشت کی پیشکش کی تھی لیکن عمران خان نے اس پیشکش کو پائے حقارت سے ٹھکرا دیا تھا اور اس پیشکش کو قبول تو کیا کرنا تھا الٹا پوری حزب اختلاف کو پابند سلاسل کر دیا ۔ خان صاحب کے رویوں میں اب بھی تبدیلی نہیں آئی اور وہ اب بھی ہر صورت محاذ آرائی کی سیاست چاہتے ہیں لیکن ملک و قوم کی خوش قسمتی کہ عوام ان کے طرز سیاست پر ان کا ساتھ دینے کو تیار نہیں ۔ خان صاحب شروع دن سے خبط عظمت کا شکار ہیں اور وہ زمینی حقائق کے بر خلاف حکمت عملی تیار کرتے ہیں اور ان کا اصرار ہوتا ہے وہ ہر حال میں درست ہیں اور وہ غلطی نہیں کر سکتے ۔ ان کے ماضی کے تمام احتجاج ناکام ہوئے حتیٰ 2014کے لانگ مارچ میں دو ہزار سے زیادہ لوگ نہیں تھے اور 2022میں لاہور کے لبرٹی چوک سے شروع ہونے والے لانگ مارچ میں اس سے بھی کم ہزار ڈیڑھ ہزار کے قریب لوگ تھے اور وہ بھی صرف لاہور کی حد تک اور یہ لانگ مارچ بڑی مشکل سے راوی کا پل کراس کر کے شاہدرہ تک پہنچا تھا اور شاہدرہ میں خطاب کے بعد خان صاحب اپنے گھر اور لانگ مارچ والے اپنے گھر اور اس کے بعد ہر روز اگلے شہر میں ایک چھوٹی سی جلسی ہوتی اور سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ۔
اب یہ آخری کال دی ہے اور بشریٰ بیگم نے ہر ایم این اے کو دس ہزار اور ہر ایم پی اے کو پانچ ہزار بندے لانے کا ٹاسک دیا ہے ۔ بشریٰ بیگم جب یہ ٹاسک دے رہی تھیں تو سامنے بیٹھے کسی دل جلے ایم پی اے نے اپنے ساتھ بیٹھے ایم پی اے سے کہا کہ محترمہ اگر پاک پتن سے ایک ہزار بندہ بھی اپنے ساتھ لے کر ڈی چوک آ جائیں تو میں پانچ کیا دس ہزار بندہ لے آئوں گا ۔ ایک تو بندوں کے لے کر آنے کا ٹاسک اور اس پر مزید ستم کہ ان کو لے کر آنے کا تمام خرچہ بھی متعلقہ ارکان اسمبلی کے ذمہ ڈال دیا گیا ہے یعنی پنجابی میں کہتے ہیں کہ ’’ چوپڑیاں تے نالے دو دو ‘‘ یعنی ایک تو گھی والی روٹی اور پھر ایک نہیں بلکہ دو دو ۔ سب سے دلچسپ ہدف خیبر پختون خوا سے پانچ لاکھ افراد کا رکھا گیا ہے ۔ اب یہ احتجاج یا تحریک کے اہداف ہیں یا کوئی مذاق ہو رہا ہے اس لئے کہ گذشتہ تمام احتجاج کہ جن میں اسلام آباد کے ڈی چوک پہنچنا تھا اس میں خیبر پختون خوا سے اگر پانچ لاکھ تو کیا پچاس ہزار بندے بھی علی امین گنڈا پور اپنے ساتھ لانے میں کامیاب ہو جاتے تو کسی مائی کے لال میں جرات نہیں تھی کہ انھیں اسلام آباد فتح کرنے سے کوئی روک سکتا اور ہم نے فتح کا لفظ روانی میں نہیں کہا بلکہ بڑی سنجیدگی کے ساتھ کہا ہے ۔ اب موجودہ ہدف جو ارکان پارلیمنٹ کو دیئے گئے ہیں ان میں ہمیں تو کم از کم سمجھ نہیں آتی کہ لاہور سے احتجاجی مارچ جس راستے سے بھی اسلام آباد کی جانب سفر کرے گا تو اس کے لئے اسے راوی اور اس کے بعد وزیر آباد سے چناب کا پل ہر حال میں کراس کرنا ہی ہے تو صادق آباد کو رہنے دیں کہ زیادہ دور ہے لیکن ملتان ، فیصل آباد ، لاہور ، گوجرانوالہ ، شیخو پورہ اور سیالکوٹ سے لوگ کس طرح پولیس ناکوں کو توڑتے ہوئے اسلام آباد تک پہنچیں گے۔ سندھ سے کارکنوں کا پہنچنا کیسے ممکن ہو گا ۔ اب خیبر پختون خوا کہ جہاں سے سب سے زیادہ لوگوں کا اسلام آباد پہنچنے کے امکانات ہیں کہ وہاں سے ایک تو کوئی رکاوٹ نہیں بلکہ پورے صوبے کی مشینری مدد کرے گی اور دوسرا عین ممکن ہے کہ بشری بیگم اس احتجاجی جلوس کی خود قیادت کر رہی ہوں لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ پہلے بھی صوبہ کے تمام تر وسائل اور مشینری کو ساتھ لانے کے باوجود بھی احتجاج ناکامی سے دو چار ہوا تھا ۔
خان صاحب نے اپنی طرف سے تو بڑی عقل مندی کا ثبوت دیا ہے کہ پنجاب سے تمام قافلے مختلف راستوں سے آئیں اب انھیں کون سمجھائے کہ جو بھی مختلف راستے ہوں گے لیکن در حقیقت دو ہی راستے ہیں ایک موٹر وے اور دوسرا جی ٹی روڈ تو اگر کوئی تیسرا راستہ ہے تو تحریک انصاف کی قیادت وہ بھی بتا دے ۔ اس کے علاوہ مرکزی قیادت کے حوالے سے بھی یہ خبریںہیں کہ اس میں دو رائے پائی جاتی ہیں ایک نرم احتجاج کی حامی ہے اور دوسرے جو جیل میں ہیں یاروپوش ہیں یا بیرون ملک ہیں وہ مرو یا مارو جیسی تحریک کے حامی ہیں اور وہ اس لئے کہ انھیں اس حوالے سے کچھ نہیں کرنا پڑے گا ۔ آخر میں تحریک انصاف کی قیادت سے ایک گذارش کرنا تھی کہ 2022اپریل جب سے خان صاحب وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹائے گئے ہیں اس وقت سے لے کر آج تک ما سوائے دوبارہ اقتدار میں واپسی کے کیا تحریک انصاف نے کسی اور ایشو پر بھی احتجاج کیا ۔ بانی پی ٹی آئی جیل میں ہیں بلا شبہ یہ تحریک انصاف کا حق ہے کہ وہ ان کی رہائی کے لئے احتجاج کرے لیکن کاش یہ احتجاج عوامی مسائل مہنگائی بیروز گاری اور غربت کے خاتمہ کے لئے بھی ہوتا۔