پی ٹی آئی نے اس دفعہ کہا ہے کہ پورا ’’زور ‘‘لگائیںگے کہ انکا سربراہ جیل سے باہر آجائے ، اسطرح کے زور وہ عرصہ سے لگا رہے ہیں کبھی افواج پاکستان سے بات کرنا چاہتے ہیں پھر حسب عادت بیان تبدیل کرلیتے ہیں ’’میں کسی سے مذاکرات نہیں کرونگا ‘‘شائدوہ اسلئے کہتے ہیںبھاری رقم خرچ کرکے انکا سوشل میڈیا بریگیڈ پلے بوائے زلفی بخاری کی سربراہی میں کام کررہا ہے وہ یقین دلاتا ہے کہ سوشل میڈیا حکومت کو اکھاڑ پھینکے گی اس لئے وہ پاکستان کی سیاسی قیادت کے خلاف ہی نہیں ملک کی سرحدوں کے محافظوں کو بھی منفی انداز میں اپنے پروپگنڈے کا نشانہ بناتے ہیں ساتھ ہی وہ یہ بھول کر کہ ملکوںکے تعلقات ملکوں سے ہوتے ہیں امریکہ ، برطانیہ کے پارلمینٹرین شراب کی ایک گھونٹ پی کر کپتان پر ہونے والے ظلم و ستم کی کہانی پر مبنی بیان بازی سے حکومتوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ بالآخر اعلی عہدیداروں کو کہنا پڑتا ہے کہ پی ٹی آئی کا معاملہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور اسکے بعد ٹائیں ٹائیں فش ہوجاتا ہے ۔ عدلیہ کے معزز جج بھی کہہ چکے ہیںکہ عمران خان ایک مقبول لیڈر ہیں یہ بات کہنا انکے عہدے کو زیب نہیںدیتا تھا مگر کہتے ہیں نہ کہ ’’پاکستان میں سب کچھ چلتاہے ‘‘حالیہ کپتان کی بہنوںاور بیگم عمران خان کی کال جسے وہ کہتے ہیںکہ ماریں گے یا مر جائینگے، دو کشتیوں کے سوار خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ نے تو کفن پہن کر آنے کی تاکید کی ہے ، پیرنی بیگم نے کہا کہ جو پانچ ہزار افراد نہیں لایا اسے پارٹی ٹکٹ نہیں ملے گا اس پر ہمار ے محسن دوست صحافی نوید چوہدری نے ایک لطیفہ بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں ایک شخص ملازمت کے لئے گیا ادارے کے مالک سے کہا کہ میں دس لاکھ تنخواہ لونگا ، مالک نے کہ میں ایک گاڑی بھی دونگا، آپ کے نام پر ایک عالیشان گھر بھی دوں گا سال میں تین ماہ کی چھٹیاں، بمعہ یورپ میں چھٹیاں گزارنے کیلئے اخراجات بھی ہمارے ذمہ۔ ملازمت کیلئے آنے والے شخص جس نے دس لاکھ تنخواہ کا مطالبہ کیا تھا اس نے کہا کہ سر آپ مذاق تو نہیں کررہے میرے ساتھ ۔ ادارے کے مالک نے کہا کہ پہلے تو بتا کہ مذاق کی ابتدا تو نے کی ہے یا میں نے ؟ اسی طرح پیرنی بیگم نے کہا قومی اسمبلی کے ٹکٹ کاخواہش مند دس ہزار اور صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ کا خواہش مند پانچ ہزار افراد لیکر اسلام آباد پہنچے گا موجودہ تعداد کے مطابق اور حکم کے مطابق تقریباً 5کروڑ لوگوں کو اسلام آباد لایا جائے گا ۔ ( کیا خوش فہمی ہے ) انہیںلگتاہے کہ حکومت سو رہی ہے ۔پی ٹی آئی اب تک ایک کامیاب احتجاجی تحریک چلانے میں ناکام رہی اور خان کو’’فائنل کال‘‘دینا پڑی جو نہ صرف اُن کیلئے ایک بڑا ’’رسک‘‘ ہے بلکہ اُنکی جماعت کیلئے بھی بڑا چیلنج ہے۔ بحیثیت اپوزیشن لیڈر کیا وجہ ہے کہ اس تحریک میں پی ٹی آئی ’’تنہا‘‘ کھڑی نظر آتی ہے۔ خود خان ’’تنہائی کا شکار‘‘ نظر آتے ہیں اس مجوزہ فائنل کال جس کے لئے پی ٹی آئی کے وکیل رہنما پریشان گھوم رہے ہیں کہ اسے کیسے واپس لیا جائے اور صورتحال یہ ہے دو ایک دن میں کال واپس بھی ہو جائیگی اور فیس سیونگ کیلئے پھر ٹی وی پر پی ٹی آئی کے رہنما ’’آئیں بائیں شائیں‘‘ کریںگے اس فائنل کال میں سنجیدہ اتحادی آخر محمود خان اچکزئی کہاں ہیں۔ اختر مینگل استعفیٰ دے کر لاپتہ ہو گئے ۔ خان کی تنہائی کی ایک اور وجہ اُن کے بہت سے با اعتماد ساتھیوں کا مشکل وقت میں ساتھ چھوڑ جانا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ اب وہ اُن پر بھی اعتماد نہیں کر رہے جنکو انہوں نے خود نامزد کیا اور بڑے عہدے دیئے، اسی لیے آج خود اُنکی اہلیہ بشریٰ بی بی اور بہن عملی طور پر سیاست میں آگئی ہیں اور پارٹی میں کوئی عہدہ نہ ہوتے ہوئے بھی ’’فائنل کال‘‘ کا اعلان علیمہ خان نے کیا۔ 2014ء میںبات کچھ اور تھی مگر پھر بھی کامیابی نہیںہوئی ۔ ۔ ا س لیے کہ مقتدرہ کی واضح حمایت پی ٹی آئی کو حاصل تھی اورآج معاملہ اُسکے برعکس ہے جس کی ایک بڑی وجہ بادی النظر میں 9مئی کے واقعات ہیں اوراب یہ مجوزہ کال کو9 مئی پارٹ ٹو کہا جارہا ہے ، اگر یہ کہا جائے کہ پی ٹی آئی کی سیاست کو اس نہج پرپہنچانے کیلئے ملک چلانے والوں کا بھی حصہ ہے تو غلط نہ ہوگا اس بات کو 17 ماہ گزر چکے ہیں اور مقدمات چلنے کا نام ہی نہیں لے رہے بلکہ آج بھی اس پر سیاست ہی ہو رہی ہے البتہ خود فوج کے اندر بہت سے افسران کے خلاف کارروائی ضرور ہوئی اور سُنا ہے سابق isiچیف جنرل فیض حمید کیخلاف بھی تادیبی کارروائی ہونے والی ہے۔ ایسے میں عمران اور پی ٹی آئی کے احتجاج کا رخ موجودہ حکومت سے زیادہ مقتدرہ کی طرف نظر آتا ہے اس طرح کی کال کی وجہ عمران خان کی رہائی نہیں بلکہ مقتدرہ حلقوں پر دبائو کی ناکام کوشش نظر آتی ہے کہ ملک کے خلاف بغاوت کے مقدمات فوجی عدالتوںمیںنہ جائیں ، اوراسطرح کی بغاوت کے مقدمات کو فوجی عدالتیںہی بہتر انداز میں دیکھ سکتی ہیں کسی بھی احتجاجی تحریک میں چند باتیں بہت اہم ہوتی ہیں۔ تنظیم، اتحاد، نظریہ، جذبہ، حکمتِ عملی، اپنے مخالف کی طاقت کا اندازہ لگانا، حامیوں اور کارکنوں کو بڑی تعداد میں باہر نکالناجس میں پی ٹی آئی ناکام ہے ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ احتجاج کی کال ایک ایسے وقت دی گئی ہے جب ریاست اور حکومت کی واضح پالیسی ’’احتجاج‘‘ کو ہر طرح سے روکنا اور سختی کرنا بشمول گرفتاری اور اسلام آباد کو مکمل طور پر سیل کرنا ہے۔ اب اگر دھرنا سڑکوں یا ہائی وے پر دیا جاتا ہے تو اس سرد اور اسموگ والے موسم میں رکنا آسان نہ ہو گا۔اور سب سے بڑھ کر 2014ء کے دھرنے کی طرح وہ سہولتیں میسر نہیں ہوں گی۔ البتہ حکومت یا قانون نافذ کرنے والوں کی طرف سے کسی بھی تعداد میں آنے والے معصوم عوام پر طاقت کا ضرورت سے زیادہ استعمال معاملات کو خراب کر سکتا ہے۔ ۔کپتان کو خطرہ تھا کہ انکی جماعت میں دونوںطرف کھیلنے والے بہت ہوچکے ہیں اسلئے انہوں نے موروثیت کے خلاف ہونے کے باوجود یہ مجوزہ کال کسی جماعت کے فرد سے نہیں بلکہ اپنی اہلیہ بشریٰ بی بی اور بہن علیمہ خان پر سیاسی طور پر زیادہ اعتماد کرنا شروع کر دیا ہے اور یہ کال چوہدری فیصل ( فواد چوہدری کے بھائی ) جو جماعت کے ممبر نہیں ہیں ادھر رشتہ داری تو ہے مگر وہاں بھی بشریٰ بی بی اور بہن علیمہ خان بھی ایک دوسرے سے شاکی ہیں نتیجہ یہ کہ سیاست اسمبلیوں میں ہوتی ہے سڑکوں پر نہیں، نہ ہی بغاوتوں کے اعلان سے 2014ء میں بجلی کے بل جلانا ، بینکوںکے ذریعے رقوما ت نہ بھیجنے جیسے اعلانات اور 9مئی ،غیر ممالک کو اندرونی معاملات میںدعوت دینا بغاوت ہی تو ہیں۔