وہ دونوں رات کے کھانے سے فارغ ہو کر موبائل کی سکرین پہ نظریں گاڑھ کے سر جوڑے بیٹھے تھے، گہری سوچوں میں متغرق جوڑا اپنی ہی ایک جاننے والی کی ویڈیو پہ بے انتہا لائکس اور کمنٹس پڑھ کر نالاں ہو رہا تھا کہ یکا یک اس کے ذہن میں جھماکا ہوا، وہ اپنی جگہ سے تقریباً اچھل پڑا "کیوں نا میری موت کی خبر پھیلا دیں؟” اور دونوں ایک شیطانی ہنسی ہنس دیئے۔
اگلے روز بیگم نے شوہر کی موت کی جھوٹی خبر دینے کی ویڈیو بنا کر لگا چھوڑی اور چند ہی گھنٹوں میں ان کی پروفائل سب سے زیادہ دیکھی گئی، ان کے فالوورز بڑھ گئے، اب رائتہ پھیل چکا تھا، بعد ازاں انہوں نے اسے ایکسیڈنٹ کا روپ دیا، چار لوگوں نے گالیاں دی، اور بات آئی گئی ہو گئی۔
دوسری جانب ایک شادی پہ ایک دوشیزہ نے ایک گانے پہ رقص پیش کیا جو دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا۔
پھر ایک خاتون نے رو رو کر آسمان سر پہ اٹھا لیا کہ ان کا شوہر انہیں چھوڑ کر کسی اور عورت کے سحر میں گرفتار ہو گیا ہے، اور بجائے اپنے شوہر کو کال یا میسج کرنے کے ویڈیو پیغام بنا کر اپلوڈ کرنے بیٹھ گئی، اور چند ہی دنوں بعد دونوں خوش و خرم ویڈیوز لگانے لگے۔ پھر کوئی نوجوان لڑکا چہرے پہ بھوتیا ماسک پہن کر چار دوست ساتھ لے کر سوئی بہن کے کمرے میں ڈرانے جا پہنچا۔
تو کہیں کسی نے اپنے ہی فون سے اپنے ہی کمرے کے شیشے میں اپنی ہی نازیبا تصاویر بنا کر پھیلا چھوڑیں اور پھر فون چوری ہو جانے کا جواز پیش کر دیا۔ نازیبا ویڈیوز وائرل ہونا اب تو بالکل ایک عام سی بات ہی سمجھی جانے لگی ہے، اخلاقیات اور اقدار کو پسِ پشت ڈال کر پوری قوم بس مشہور ہونے کے چکر میں ہے۔
یہاں قابلِ غور بات یہ ہے کہ ان تمام واقعات میں خود خواتین نے ہی شہرت اور بدنامی کی تفریق کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا۔
وہیں ایک عورت پورے دن رکشہ چلا کر روزی کما کر لائی، بستر مرگ پہ پڑے شوہر کو دوا دی اور اولاد کو پال پوس کر جوان کیا، تو دوسری عورت نے گھر کے حالات بہتر کرنے کی خاطر دال چاول کا ایک چھوٹا سا سٹال لگا لیا تو کسی عورت نے انگنت کتابیں لکھ چھوڑیں، لیکن یہ تمام عورتیں ہماری نوجوان نسل کی آئیڈیل بننے میں ناکام رہیں، آئیڈیل بنیں تو فقط وہ جنہوں نے اپنی، اپنے لباس اور اپنے جسم کی تشہیر کی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ساری صورتحال اور انٹرنیٹ کے بے دریغ استعمال کو قابو کرنے کے لیے حکومت کیا کر سکتی ہے؟ حکومت فائر وال کا استعمال کرتے ہوئے فحش مواد اور سائٹس پہ پابندی لگا سکتی ہے۔ لیکن ہمارے عوام ایسے فنکار ہیں کہ وی پی این کا استعمال کرتے ہوئے بین کردہ سائٹس بھی کھول لیتے ہیں۔ حال ہی میں اسلامی نظریاتی کونسل نے وی پی این کے استعمال کو غیر شرعی قرار دیا ہے۔
چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل علامہ ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے کہا کہ
حکومت کو شرعی لحاظ سے اختیار ہے کہ وہ برائی اور برائی تک رسائی کا سدباب کرے
غیر اخلاقی اور توہین آمیز مواد تک رسائی کو روکنے یا محدود کرنے کیلئے اقدامات کرنا شریعت سے ہم آہنگ ہے،وی پی این کا استعمال اس نیت سے کہ غیر قانونی مواد یا بلاک ویب سائٹ تک رسائی حاصل کی جائے شرعاً ناجائز ہے اسلامی نظریاتی کونسل نے وی پی این کے حوالے سے سفارشات پیش کی تھیں جن پر عملدرآمد احسن اقدام ہے یہاں وی پی این کے حق میں تقاریر جھاڑنے والوں کا جمِ غفیر لگ گیا، ان کا کہنا تھا کہ سبھی ایکس (ٹوئٹر) وی پی این کے ذریعے استعمال کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ وزیرِ اعظم بھی، تو پھر اگر وی پی این حرام ہے تو سب ہی اس گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں، دوسرا مؤقف جو اس حوالے سے سامنے آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ وی پی این کا استعمال آن لائن بزنس اور فری لانسنگ کے لیے کیا جاتا ہے۔
بیشتر انٹرنیشنل فری لانسنگ کمپنیاں پاکستان سے براہِ راست منسلک نہیں ہیں، اس لیے فری لانسرز وی پی این استعمال کرتے ہوئے نہ صرف اپنا پیٹ پالتے ہیں بلکہ ریاست کے لیے ریمٹینس بھی فراہم کرتے ہیں۔ اب یہاں کچھ قابلِ غور باتیں ہیں، جب بھی کوئی شخص وی پی این استعمال کرتا ہے تو وہ اپنی شناخت، آئی پی ایڈریس، اور لوکیشن کو تبدیل کر کے دکھاتا ہے، اس کی وجہ سے بے انتہا غیر قانونی، اور غیر اخلاقی جرائم جنم لیتے ہیں، مثلاً آن لائن چوریاں کی جاتی ہیں، فراڈ کیے جاتے ہیں، نازیبا ویڈیوز اپلوڈ کی جاتی ہیں، پھر وائرل کر دی جاتی ہیں۔ یہ تو رہے انفرادی سطح پر نقصان پہنچانے والے جرائم۔ وی پی این کی مد میں جو سب سے ہولناک اجتماعی نقصان کیا جاتا ہے وہ ہے دہشت گردی۔ علیحدگی پسند اور دہشت گرد تنظیمیں نہ صرف اشتعال انگیز مواد شائع کرتی ہیں بلکہ دھماکوں کی منظم پلاننگ کرتی ہیں، پھر ان دھماکوں کی تشہیر کرتی ہیں، ہمارے عوام کو پراپیگنڈہ کے ذریعے اداروں کے خلاف کرتی ہیں، اور یہ سب کچھ وی پی این کی آڑ میں اس صفائی سے کیا جاتا ہے کہ سکیورٹی فورسز کو اپنے ہدف کی نشاندہی میں ہفتوں لگ جاتے ہیں، یوں ملک دشمن مکروہ چہرے، وی پی این کے نقاب کے پیچھے بیرونی طاقتوں کے بچھائے جال میں معصوم عوام کے جذبات سے کھیلتے ہیں، اور دوسری طرف سرحدوں پہ ، یخ بستہ ہواؤں میں، ٹھٹھرے وجود کے ساتھ وطنِ عزیز کا دفاع کرنے والوں کو بم دھماکوں میں ریزہ ریزہ کر چھوڑتے ہیں ، پھر نازیبا ویڈیوز کو دیکھا جائے تو آئے روز کوئی نئی غیر اخلاقی ویڈیو بذریعہ وی پی این اپلوڈ ہوتی ہے اور پھر جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔ ایسے میں حکومت کا انٹر نیٹ کے بے دریغ استعمال پہ قابو پانے کا یہ اقدام قابلِ ستائش ہے۔ رہ گئی بات فری لانسرز کی تو اس حوالے سے بہر طور کوئی خاطر خواہ حل نکالا جا سکتا ہے اور کچھ مخصوص بزنس سائٹس کے لیے گنجائش نکالی جا سکتی ہے۔ لیکن اخلاقی اقدار پہ درگزر کیا جا سکتا ہے اور نہ ہے ملکی سالمیت پر۔