تہذیبِ نفس

تہذیبِ نفس نہ ہو تو تہذیبِ فکر پیدا نہیں ہوتی۔ تہذیبِ فکر نہ ہو تو ترتیبِ عمل قائم نہیں رہتی۔ ترتیبِ عمل میں استقامت، کسی کو صاحبِ مقام بناتی ہے۔ عمل میں ترتیب اور تسلسل سے کردار تشکیل پاتا ہے۔

تہذیبِ نفس نہ ہو تو انسان بڑی سہولت سے جھوٹ بول لیتا ہے۔ اسے ضمیر میں کوئی قلق نہیں ہوتا، ضمیر میں ملامت کا اندیشہ بھی دور دور تک موجود نہیں ہوتا۔ وہ بڑی آسانی سے اپنے جھوٹ کو سچ اور دوسروں کے سچ کو جھوٹ قرار دے دیتا ہے۔ تہذیبِ نفس نہ ہو تو انسان غیبت کرنے کو اپنا حق سمجھتا ہے، دوسروں کی عزتِ نفس کو پامال کرنا اس کے نزدیک کسی مکھی مچھر کو چٹکی میں مسل دینے سے زیادہ مشکل کام نہیں ہوتا۔ تہذیبِ نفس کے فقدان کا سب سے بڑا سانحہ یہ ہوتا ہے کہ انسان بلاوجہ حسد میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی صلاحیت اور استعداد دیکھے بغیر اس نام اور مقام کی تمنا میں مبتلا ہو جاتا ہے جو کسی دوسرے کا نصیب ہوتی ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں کہ نصیب میں تقابلی جائزہ، ناجائز ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حسد رب کی تقسیم پر اعتراض کا نام ہے۔

سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنا فقط علم پر موقوف نہیں۔ علم اور تعلیم میں فرق ملحوظ رہے۔ علم اور تعلیم کا فرق مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ نے خوب سمجھا رکھا ہے۔ آپؒ فرماتے ہیں: تعلیم ضرورت کا علم ہے۔ علم کی ضرورت اور چیز ہے، ضرورت کا علم اور چیز‘‘۔ علم ایک طاقت ہے۔ اگر تہذیبِ نفس نہ ہو تو انسان اسی طاقت کا استعمال غلط سمت میں کر لے گا، وہ سچ کو جھوٹ سمجھ کر اُسی پر یہ ہتھیار تان لے گا۔ دراصل علم کا لازمہ حلم ہے۔ حلم سے محروم علم سے محروم ہے۔ علمِ حقیقی نور ہے، اور یہ نور سب سے پہلے انسان کے اپنے قلب و روح کے در و بام روشن کرتا ہے۔ علم انسان کے اندر خود شناسی کی شمع روشن کرتا ہے۔ سچ اور جھوٹ میں فرق کرنے کے لیے علم سے بھی پہلے تزکیہِ نفس اور تصفیہِ قلب درکار ہوتا ہے۔ تزکیہِ نفس، تہذیبِ نفس ہی کی ایک روحانی اصطلاح ہے۔ تزکیہ نفس سے محروم انسان صاحبانِ علم و معرفت کے قریب رہ کر بھی ان سے دور ہوتا ہے۔ محاورے صدیوں کی دانش کا بوجھ اٹھائے ہوئے آج بھی ہمارے شعور کی گلیوں بازاروں میں چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ محاورہ ہے: جنس با ہم جنس پرواز، کبوتر با کبوتر باز با باز۔ (ایک جیسے لوگ ہی ایک دوسرے کے ساتھ ہم سفر ہوتے ہیں، کبوتر ہمیشہ کبوتروں کے ساتھ اور شہباز شہبازوں کے ساتھ اڑتے ہیں۔) اسی معنی کی ایک اور پرت کھولنے کے لیے ایک اور محاورہ بھی ملاحظہ فرمائیں: شیخ سعدی سے نے ’’گلستان ِ سعدی‘‘ میں ایک باب بعنوان ’’دَر تاثیرِ تربیت‘‘ باندھا ہے۔ اس میں ایک شعر محاورے کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ ترجمہ: حضرت عیسیٰؑ اگر گدھے کو مکہ بھی لے جائیں تو جب وہ واپس آئے گا تو تب بھی وہ گدھا ہی رہے گا۔

تزکیہ شدہ نفوس کی محفل میں غیر تزکیہ شدہ شخص ایک ناجنس کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ ناجنسوں کو اَز راہِ اخلاق و مروت برداشت تو کرتے ہیں، انہیں اپنے فکری پالنے میں نہیں پالتے۔ فکر ایک تیز دھار شمشیر ہے۔ وہ بخوبی آگاہ ہے کہ احمق کے ہاتھ میں شمشیر دینا خطرے سے خالی نہیں۔ وہ کھیل ہی کھیل خود کو بھی زخمی کرے گا اور اپنے ارد گرد بھی کشت و خون کی بازی کھیلے گا۔ جب کوئی شخص کسی صاحبِ علم و عرفان کی محفل میں بیٹھتا ہے تو وہ محفل اسے علم نہیں، تعلیم دیتی ہے۔ تعلیم کو علم ابھی اس نے بنانا ہے۔ اگر وہ مائل بہ اصلاحِ نفس ہو، اگر وہ حیطہِ تسلیم میں پورے کا پورے کا داخل ہو اور اس کے نفس کے تزکیے کا کچھ سامان ہو جائے، تو عین ممکن ہے، سنی ہوئی تعلیم اس کا مشاہدہ بن جائے اور اس طریق سے اس تک علم کی ترسیل ہو جائے۔ بصورتِ دیگر صاحبِ ارشاد کی تعلیم اس کے لیے محض ’’ضرورت کا علم‘‘ ہے۔ دلائل اور حوالہ جات اس کے نزدیک وہ تیر و تفنگ ہیں جن کی ضرورت اسے اپنے مخالفین سے جنگ و جدل میں پیش آتی رہتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ امن اگر اندر نہیں تو باہر بھی نہیں۔

تزکیہ نفس کے باب میں کسی مقدس مقام کی زیارت کر لینا کافی نہیں۔ کسی صاحبِ مقام کے پڑوس میں رہنا کوئی مقام نہیں۔ کسی روحانی بزرگ کے پاس حاضری فقط ایک ظاہری عمل بھی ہو سکتا ہے … مشرکین مکہ حرم کعبہ میں طواف کیا کرتے تھے، ابوجہل، شہرِ علمؐ کے پڑوس میں تھا … منافقین، شہرِ نبیؐ میں پائے جاتے تھے۔ لازم نہیں کہ ہر حاجی تزکیہ نفس کے ساتھ لوٹے، ممکن نہیں کہ جغرافیائی قرب، قربِ حقیقی بھی ہو، ناممکن ہے کہ کاملین کی محفل میں ہر شخص درجہِ کمال کو پہنچے۔ جب تک تہذیبِ نفس کا سامان نہیں، انسان محرومِ تماشا رہتا ہے۔ ذوقِ تماشا کے لیے اندر کانٹ چھانٹ کرنا ہوتی ہے۔ اسی کانٹ چھانٹ کے لیے لوگ خود کو کسی کے حوالے کرتے ہیں۔ صمیمِ قلب سے خود کو کسی کامل کے حوالے کرنے کا نام تسلیم ہے۔ تسلیم کامل ہو گی تو تربیت بھی کامل ہو گی، نہیں تو نہیں۔

وہ نفس جو مائل بہ تزکیہ نہیں، وہ محرومِ عرفانِ نفس ہے … اور یہ بات صدیوں سے طے ہے: من عرف نفسہ فقد عرف ربہ … جس نے اپنے نفس کو پہچانا، اسی نے اپنے رب کو پہچانا۔ عرفانِ نفس تزکیہ شدہ نفوس کا نصیبہ ہوتا ہے۔ جسے اپنا تزکیہ مطلوب ہوتا ہے، وہ سب سے پہلے اپنی خواہشات کی نفی کرتا ہے۔ وہ خود سے خود کو نکالنے کی مہم میں مصروف ہوتا ہے … تا آن کہ اسے خدا ملے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ خدا اندر ملتا ہے، باہر نہیں … باہر خانہِ خدا ہے، اندر خدا ہے۔ باہر کی دنیا میں کسی مجادلے کی شمشیر زنی کچھ فائدہ نہیں دیتی۔ اگر ہم کسی کو جھوٹا ثابت کر دیں، تو اس سے ہم سچے ثابت نہیں ہوتے۔

 

تہذیبِ نفس کی راہ میں حائل رکاوٹیں سب کی سب اندر کی دنیا، اندر کے احساسات اور اندر کے جذبات سے تعلق رکھتی ہیں۔ غصہ اور غرور … نفس کو مائل بہ تہذیب نہیں ہونے دیتے۔ نفرت اور حسد میں مبتلا شخص تزکیہ نفس کے امکان سے بہت دور ہو تا ہے۔ لذتِ وجود اور حصولِ زر ایسی رکاوٹیں تہذیبِ نفس کا نصاب مکمل نہیں ہوتے دیتیں۔ تہذیبِ نفس نہ ہو تو انسان ظاہر پرستی کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ طاقت، دولت اور حکومت کی تثلیث اسے وحدتِ فکر سے متعارف نہیں ہونے دیتی۔ گرفتارِ زنّار زر، سچ پر سمجھوتا کر لیتا ہے۔ جہاں کوئی بلند منصب دیکھتا ہے، خوشامد پر اتر آتا ہے۔ طاقت دیکھ کر اس کی گویائی گنگ ہو جاتی ہے۔

اندر کی دنیا ہو یا باہر کی، تہذیبِ نفس کے بغیر کوئی سفر خوشگوار نہیں ہوتا۔ قدم قدم پر لوگوں سے الجھنا، اپنی رائے کو مقدم و مقدس جاننا، جاننے والوں کو لاعلم جاننا، خود کو کسی خود ساختہ منصب پر فائز جاننا، محسنوں سے بے وفائی کرنا، اپنے زیردستوں پر جبر کا پہرہ بٹھانا، اپنے اہل و عیال کے لیے ناقابلِ برداشت ہو جانا، خلقِ خدا کے دل زخمی کرنا، بخل کو خرچ کی حکمتِ عملی سمجھنا … تہذیبِ نفس سے بہت دور ہونے کی علامات ہیں۔

تہذیبِ نفس میں حائل رکاوٹیں چونکہ اندر کی دنیا سے، دل کی دنیا سے تعلق رکھتی ہیں، اس لیے خدا طلبی سے پہلے تہذیبِ نفس کی طلب ہونی چاہیے۔
پہلے تو اپنے آپ کو اک آئینہ بنا
وہ خود نکل کے آئیں گے اپنے نقاب سے