گرین پاسپورٹ کی بے قدری،ذمہ دار کون؟

بدقسمتی کہہ لیں یا مختلف حکومتوں کی عاقبت نا اندیشی ، پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جس کے شہریوں کی دنیا بھر میں سب سے زیادہ بے توقیری کی جاتی ہے اور انہیں بھاری سفری اخراجات برداشت کرنے کے باوجود شدید ذہنی اذیت، ذلت اور توہین آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔سفری سہولیات کے حوالے سے عالمی شہرت یافتہ ہینلی اینڈ پارٹنرز کے پاسپورٹس انڈیکس کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق برطانیہ، فن لینڈ اور سویڈن کے پاسپورٹ حامل افراد کی دنیا بھر میں سب سے زیادہ عزت کی جاتی ہے اس ملک کے شہری دنیا کے 173 ملکوں میں بغیر ویزہ کے داخل ہوسکتے ہیں،دوسری جانب پاکستان کا شمار دنیا کے ان دس ملکوںمیں ہوتا ہے جہاں کے شہریوں کو کسی بھی ملک میں داخل ہونے سے قبل سالوں ویزا کے حصول کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔پاکستان کے شہریوں کو صرف 33ممالک میں بغیر ویزا داخلے کی اجازت ہے ان میں کوئی بھی ملک پاکستان کا پڑوسی نہیں، پاکستان کے علاوہ جن 9 ممالک کے شہریوں کی آمدورفت کو سب سے زیادہ ناپسند کیا جاتا ہے ان میں افغانستان، عراق، صومالیہ، فلسطین، اریٹیریا، سوڈان، لبنان اور سری لنکا شامل ہیں۔

ہینلی اینڈ پارٹنرزکی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق گرین پاسپورٹ مزید گراوٹ کا شکار ہو کر103ویں پوزیشن پرآگیا ہے،اس رپورٹ کے مطابق صومالیہ ،نیپال،یمن،بنگلہ دیش،فلسطین اتھارٹی،ایتھوپیا اور لیبیا جیسے ممالک کا پاسپورٹ بھی گرین پاسپورٹ سے بہتر قرارپایا ہے، ان ممالک کے شہری دنیا کے38ممالک کا سفر بغیر ویزا کے کر سکتے ہیں،جبکہ گرین پاسپورٹ کو یہ سہولت صرف33 ممالک میں حاصل ہے۔اس صورتحال کی ذمہ داری صرف حکومت،سفارتخانوں ،بیرون ملک سفر کرنے والے پاکستانیوں میں سے کسی ایک پر نہیں ڈالی جا سکتی،مگر سب نے گرین پاسپورٹ کی بے قدری میں کچھ نہ کچھ کردار ضرور ادا کیاہے،بیرون ملک حکومتی سطح پر کسی بھی ملک کی نمائندگی اس ملک کا متعین سفیر اور سفارتخانہ کرتے ہیں مگر کسی بھی ملک کے شہری جو کسی ملک میں عارضی یا مستقل سکونت اختیار کرتے ہیں وہ بھی اپنے ملک کے وہاں غیر سرکاری سفیر ہوتے ہیں،انہی کے روئیے،گفتگو،لین دین،کردار اور اخلاق کی بنیاد پر ان کے ملک بارے رائے قائم کی جاتی ہے،مگر اس حوالے سے فریقین کا رویہ خاصا قابل اصلاح ہے، اس پر تنقید بھی ہوتی رہتی ہے مگر کبھی اصلاح احوال کی کوشش نہیں کی گئی۔ایک بہت بڑی سچائی جس سے وقت کے حکمران بھی آگاہ رہے اور وزارت خارجہ کے حکام بھی گہری واقفیت رکھتے ہیں کہ بیرون ملک ہمارے سفارتی عملہ کا بیشتر حصہ ملک کا امیج بہتر بنانے کی بجائے اپنی حالت کو بہتر بنانے کی تگ و دو میں رہتا ہے،ان حالات میں گرین پاسپورٹ کی قدر اور اہمیت کیسے بہتر اور بلند ہو سکتی ہے؟
ہمارے پاکستانی بھائی جو بیرون ملک عارضی یا مستقل منتقل ہوتے ہیں ان میں سب سے بڑا نقص وہاں کے قوانین پر عمل نہ کرنا،وہاں کے کلچر کو نہ اپنانا،اس ملک کی اچھی روایات سے اجنبی بن کر رہنا ہے،اگر چہ بعض ممالک کی ثقافت پاکستانیوں کیلئے اپنانا ایک مشکل بلکہ نا ممکن امر ہے مگر اچھی باتیں تو اپنائی جا سکتی ہیں،مثال کے طور پر وقت اور عہد کی پابندی،جھوٹ سے گریز،خیانت ،چوری سے پرہیز ،خوش اخلاقی،خوش گفتاری اپنا کر ملک کا نام روشن کیا جا سکتا ہے،سچ یہ ہے کہ بعض ممالک کے شہری ہمیں غیر مہذب،اجڈ تصور کرتے ہیں،منشیات کی سمگلنگ میں ملوث ہونا بھی ہماری بے توقیری کا باعث ہے،کبھی امریکہ،کینیڈا اور یوروپی ممالک کی جیلیں کالے نیگرو لوگوں سے بھری رہتی تھیں مگرآج ان جیلوں میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد اپنے کئے کی سزا بھگت رہی ہے،ان حالات کی روشنی میں پاکستان اور پاکستانی پاسپورٹ کی کیا اہمیت ہو گی،جب پاسپورٹ کا حامل ہی قابل اعتبار نہ ہو تو پاسپورٹ تو محض سفری اجازت نامہ ہوتا ہے۔

ہینلی اینڈ پارٹنرز کی فہرست میں سب سے کمزور پاسپورٹ افغانستان کا ہے جس کے شہری 28 ممالک کا سفر بغیر ویزا کرسکتے ہیں جبکہ سنگاپور کے پاسپورٹ کو دنیا کا طاقتور ترین پاسپورٹ قرار دیا گیا ہے جس کے شہری 195ممالک کا سفر بغیر ویزا کرسکتے ہیں، دوسرے نمبر پر فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان اور سپین ہیں جن کے شہریوں کو 192ممالک میں بغیر ویزا رسائی حاصل ہے،پاسپورٹ انڈیکس میں تیسرے نمبر پر 7 ممالک ہیں جن میںآسٹریا، فن لینڈ،آئرلینڈ، لکسمبرگ، نیدرلینڈز، جنوبی کوریا اور سویڈن شامل ہیں جنکے شہری 191ممالک کا سفر بغیر ویزا کرسکتے ہیں، اس رینکنگ میں برطانیہ، بلجیم، ڈنمارک، نیوزی لینڈ، ناروے اور سوئٹزرلینڈ چوتھے نمبر پر ہیں اور ان ممالک کے شہری 190ممالک کا سفر بغیر ویزا کرسکتے ہیں،پانچویں نمبر پرآسٹریلیا اور پرتگال ہیں جنکے پاسپورٹ کے حامل شہری 188 ممالک کا سفر بغیر ویزا کرسکتے ہیں،چھٹے نمبر پر یونان اور پولینڈ جبکہ ساتویں نمبر پر کینیڈا، ہنگری اور مالٹا ہیں جنکے شہری بالترتیب 184 اور 182 ممالک کا سفر بغیر ویزا کرسکتے ہیں، انڈیکس میں امریکی پاسپورٹ آٹھویں پوزیشن پر ہے اور امریکی شہری 180 ممالک کا سفر بغیر ویزا کرسکتے ہیں۔

ایسے میں جب ہم سے بہتر ممالک کے باشندوں کو ای ویزا اور ویزاآن ارائیول کی سہولتیں حاصل ہیں، پاکستانی باشندوں پر دنیا تنگ ہوتی جارہی ہے جس کی حالیہ مثال یو اے ای ہے جس نے پاکستانیوں کیلئے ویزوں پر کافی حد تک پابندی عائد کر رکھی ہے جبکہ سعودی عرب نے پاکستانیوں کے ویزوں پر سختی کردی ہے، گرین پاسپورٹ کی مسلسل گراوٹ کی ایک وجہ بیرون ملک جانے والے وہ پاکستانی ہیں جو ملک کی موجودہ غیر یقینی سیاسی اور معاشی صورتحال کے باعث غیر قانونی طور پر یورپی ممالک کا رخ کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ خلیجی ممالک میں بھی پاکستانیوں کی بڑی تعداد غیر قانونی طور پر مقیم ہے جن میں سے بیشتر افراد نے گداگری کا پیشہ اختیار کر رکھا ہے۔
گرین پاسپورٹ کی اس بے توقیری کے بعد اندرون ملک پاکستانی حکام کو سر پکڑ لینا چاہئے تھا،مگر کسی کے کانوں پر جوں نہیں رینگی بلکہ ہمارے وزیر داخلہ محسن نقوی بیرون ملک عرصہ دراز سے مقیم اوور سیز پاکستانیز جو مشقت کر کے زر مبادلہ پاکستا ن بھجواتے ہیں اور ملکی معیشت کوآکسیجن دیتے ہیں ان کے پاسپورٹ منسوخ کرنے کے اعلانات کر رہے ہیں اگر چہ یہ اعلان عمران خان دشمنی میں کیا گیا اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اس کی نفی بھی کر دی ہے،مگر ان کے اعلان سے نہ صرف اوورسیز پاکستانیوں میں بے دلی پھیلی اور وطن سے نسبت میں کمی آئی بلکہ بیرونی دنیا میں بھی پاکستانیوں کی بے قدری ہوئی،وزیر داخلہ خود صحافی ہیں اور صورتحال کا ادراک رکھتے ہیں ان کو معلوم ہونا چاہئے نواز شریف یا پاکستانی حکمرانوں کی وہاںآمد پر احتجاج سے زیادہ ،ملک، اوورسیز پاکستانیوں اور گرین پاسپورٹ کی ہتک،رسوائی،بے قدری اس وقت ہوتی ہے جب لائو لشکر کیساتھ ہمارے حکمران قرض یا امداد کی بھیک مانگنے ان ممالک میں جاتے ہیں،اس لئے کہ بھکاریوں کی کوئی عزت نہیںہوتی،نہ اس ملک کے شہریوں کی نہ اس ملک کے پاسپورٹ کی کوئی قدر ہوتی ہے جس کے حکمران گلے میں کشکول ڈالے ملک ملک پھرتے ہوں۔