لاہور پاکستان کا تاریخی اور ثقافتی شہر ہے جو اپنی خوبصورتی، روایات اور زندہ دلی کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہاں ایک طرف مغلیہ دور کے عظیم الشان آثار جیسے بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ دل موہ لیتے ہیں اور دوسری طرف جدید عمارتیں اور شاپنگ مالز جدید تہذیب کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں۔ لاہور کی گلیوں اور بازاروں میں تاریخ کے رنگ اور ماضی کی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ یہاںکے کھانے جیسے نہاری، پائے اور چرغہ دنیا بھر میں پسند کیے جاتے ہیں۔ یہاں کے لوگ مہمان نواز اور خوش مزاج ہیں۔ لاہور پاکستان کا دل ہے اور یہ ثقافت، تاریخ اور جدیدیت کا حسین امتزاج ہے۔ پچھلی دو دہائیوں میں اس شہر میں بیسیوں نئے شاپنگ مالز تعمیر ہوئے ہیں جو نہ صرف خریداری کے مراکز ہیں بلکہ لوگوں کی تفریح کے بھی اہم مقامات ہیں۔ ان میں سے ایک نمایاں شاپنگ مال ’’ایمپوریم مال‘‘ ہے جو اپنی شاندار عمارت، وسیع دکانوں اور جدید سہولیات کے لیے جانا جاتا ہے۔ اس شاپنگ مال میں 200 سے زائد ملکی و بین الاقوامی برانڈز موجود ہیں۔ اس کے ساتھ یہاں سینما، فوڈ کورٹ، بچوں کے لیے تفریحی مقامات اور دیگر بے شمار سہولیات بھی دستیاب ہیں جو روزانہ ہزاروں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ایمپوریم مال میں سالانہ تقریباً 2 کروڑ لوگ آتے ہیں یعنی روزانہ 50 ہزار سے زائد افراد یہاں شاپنگ، تفریح اور کھانے پینے کے لیے آتے ہیں۔ اس شاپنگ مال کی تعمیر پر تقریباً 25 ارب روپے خرچ کیے گئے تھے۔ ایمپوریم مال میں موجود ریسٹورنٹس کی تعداد بھی قابل ذکر ہے اور یہاں تیس سے زائد ریسٹورنٹس موجود ہیں جو مختلف اقسام کے کھانے پیش کرتے ہیں۔ پاکستانی، چینی، اطالوی اور میکسیکن کھانوں کے ساتھ ساتھ یہاں کافی شاپس اور برگر جوائنٹس بھی موجود ہیں جو صارفین کو مختلف ذائقوں کا لطف اٹھانے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔
اس شاپنگ مال کا ایک اہم پہلو یہاں کی مسجد ہے جس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا شاپنگ مال جہاں باقی سہولیات کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنایا گیا ہے وہاں مسجد کی صورتحال کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ مجھے پچھلے دنوں ایمپوریم مال جانے کا اتفاق ہوا، میں عصر کی نماز کے لیے مسجد گیا تو مجھے مسجد کی صورتحال دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔ مسجد کی جگہ محدود اور ناکافی ہے جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں نمازیوں کو باجماعت نماز کے دوران جگہ کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مجھے یہ منظر دیکھنے کو ملا کہ کچھ نمازیوں کو نماز کے دوران دوسروں کے سلام پھیرنے کا انتظار کرنا پڑا تاکہ وہ اپنی باری پر نماز ادا کر سکیں۔ مسجد میں صفائی ستھرائی کا فقدان ہے جو ایک بین الاقوامی معیار کے شاپنگ مال کے لیے افسوس ناک بات ہے۔ قالین کے بجائے محض چٹائیاں بچھائی گئی تھی اور وہ بھی چپکی ہوئی۔ مال کی انتظامیہ نے باقی جگہوں پر جس معیار کو برقرار رکھا ہے وہ معیار مسجد میں نظر نہیں آتا۔ واش رومز کو دیکھیں تو ان کا معیار بھی نہایت اعلیٰ اور بین الاقوامی معیار کے مطابق ہے لیکن مسجد جو ایک مقدس اور ضروری جگہ ہے اس کو وہ توجہ نہیں دی گئی۔ یہ حقیقت ہے کہ اس مال میں روزانہ ہزاروں لوگ آتے ہیں اور ان میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو نماز کے پابند ہیں۔ ان کے لیے مناسب اور صاف ستھری جگہ کی دستیابی نہایت ضروری ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اتنے بڑے مال میں جس کی تعمیر پر اربوں روپے خرچ کیے گئے ہیں مسجد کے لیے چند لاکھ خرچ کرنا بھی گوارا نہیں کیا گیا۔ شاپنگ مالز کا مقصد نہ صرف تجارتی فوائد حاصل کرنا ہوتا ہے بلکہ وہ اپنی کمیونٹی کی ضروریات کو بھی پورا کرتے ہیں۔ ایک اسلامی ملک کے شاپنگ مال میں، جہاں اکثریت مسلمانوں کی ہے وہاں عبادت کے لیے مناسب سہولیات فراہم کرنا اخلاقی اور معاشرتی ذمہ داری ہے۔ مسجد ایک ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں انسان سکون حاصل کرتا ہے، اپنے رب سے رجوع کرتا ہے اور دنیا کی پریشانیوں سے دور ہو کر روحانی سکون محسوس کرتا ہے۔ اگر مسجد کی حالت غیر معیاری ہو گی یا وہاں صفائی ستھرائی اور آرام کا فقدان ہو گا ہو تو یہ صورتحال نمازیوں کے لیے نہ صرف پریشانی کا باعث بنے گی بلکہ ان کے روحانی تجربے کو بھی متاثر کرے گی۔
ایمپوریم مال کی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے پر فوری توجہ دے اور اس کے حل کے لیے عملی اقدامات کرے۔ مسجد کی موجودہ جگہ کو وسیع کر کے ایسی مسجد بنائی جائے جہاں بیک وقت بڑی تعداد میں لوگ نماز ادا کر سکیں۔ چٹائیوں کی جگہ نرم اور صاف قالین یا دریاں بچھانے کا انتظام کیا جائے تا کہ نمازیوں کو دوران عبادت سکون اور فرحت کا احساس ہو۔ مسجد میں صفائی کے لیے ایک خادم مقرر کیا جائے جو باقاعدگی سے صفائی کا انتظام کرے۔ وضو کے لیے صاف ستھری اور جدید سہولیات فراہم کی جائیں۔ مسجد میں روشنی، ہوا کی آمدورفت اور خوشبو کا خاص انتظام کیا جائے تاکہ نمازیوں کو روحانی سکون میسر ہو۔ ایمپوریم مال جیسا شاندار مرکز نہ صرف لاہور بلکہ پورے پاکستان کے لوگوں کے لیے شاپنگ اور تفریح کی اہم جگہ ہے۔ لیکن مسجد کی موجودہ صورت حال اس عظیم مال کی شایان شان نہیں ہے۔ ضروری ہے کہ انتظامیہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے اور اس کے حل کے لیے فوری اقدامات کرے۔ ایک بہتر مسجد نہ صرف نمازیوں کے لیے آسانی پیدا کرے گی بلکہ مال کی ساکھ کو بھی بہتر بنائے گی۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری عبادت گاہیں ہماری ثقافت، دین اور اخلاقیات کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان کا معیار بلند رکھنا نہ صرف ہماری مذہبی ذمہ داری ہے بلکہ ہماری اجتماعی و ثقافتی ترقی کا حصہ بھی ہے۔ ایمپوریم مال کی انتظامیہ اگر اس پہلو پر توجہ دے تو یہ مال نہ صرف شاپنگ اور تفریح بلکہ بطور مسجد اور بطور عبادت بھی ایک مثال بن سکتا ہے۔