ویسے تو بہت ہی کم عرصہ میںایک ٹانگہ پارٹی سے ایک بڑی سیاسی جماعت بننے والی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ایک ایسی سیاسی پارٹی ہے جس کے اندر وقت کے ساتھ سیاسی پختگی نہیں آ سکی اور وہ آج بھی بے شمار تضادات اور یو ٹرن کا شکار ہے۔ انصاف اور احتساب جیسے وعدوں،کہ جن کی بنیاد پر اس نے لاکھوں لوگوں کو جوش دلایا تھا اور اکٹھا کیا تھا سے مکمل طور پر پھر جانا اور اپنے ہی ملک کے اداروں پر براہ راست اس طریقے سے حملہ آور ہونا کہ جس کا دشمن بھی تصور نہ کر سکے اس پارٹی کا خاصہ رہا ہے۔
یو ٹرن در یو ٹرن لیتے لیتے نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کی اس پارٹی کے اندر اور صوبہ خیبر پختوتخواہ جہاں اس کی حکومت قائم ہے میں احتساب کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے ، پارٹی کے بانی چیئرمین اور ان کی اہلیہ سے لے کر پارٹی کی اعلیٰ قیادت تک تقریبا ً سبھی کو کرپشن کے مقدمات کا سامنا ہے۔ اس نے نو مئی جیسے غلط سیاسی فیصلوں اور پے در پے احتجاج کی کالیں دے دے کر پارٹی قیادت نے اپنے کارکنوں کو تھکا بھی دیا ہے اور غیر یقینی کے فیصلوں اور رویوں کی وجہ سے انہیں متنفر بھی کر دیا ہے ۔شائد یہی وجہ ہے کہ وہ اب وہ احتجاج کی تازہ ترین کال پر جذباتی ہونے کے بجائے مایوسی کا شکار نظر آتے ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی قیادت باقاعدگی سے اپنے بانی چیئرمین سے ملاقاتیں کرتی رہتی ہے لیکن احتجاج کے لیے دی جانے والی اس کال میں دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ یہ کال پی ٹی آئی کے کسی بھی سیاسی راہنما کی طرف سے نہیں دی گئی بلکہ بانی چیئرمین کی ہمشیرہ کی جانب سے دی گئی ہے۔ اس صورتحال کی توضیع یہ پیش کی جاتی ہے کہ بانی چیئرمین کی ہمشیرہ نے تو صرف ان کا پیغام کارکنوں تک پہنچایا ہے ۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ کیا بانی چیئرمین اور ان کی ہمشیرہ کو اپنی ہی پارٹی کی قیادت پر اتنا اعتماد تک نہ تھا کہ اگر جیل سے کوئی پیغام آیا ہے تو وہ پارٹی قیادت کو پہنچایا جاتا اور پھر وہ کارکنوں اور میڈیا کو اس فیصلہ سے آ گاہ کردیتے۔ بہر کیف پی ٹی آئی کی جانب سے 24 نومبر کو ’حتمی‘ احتجاج کا اعلان کر دیا گیا ہے (اب اس حتمی احتجاج کا مفہوم پی ٹی آئی کے مطابق کیا ہے یہ تو وہ ہی بہتر بتا سکتے ہیں)۔
معلوم نہیں کہ احتجاج کی اس کال نے حکومت کو پریشان کیا ہے یا نہیں لیکن اس بات کی کنفرم اطلاعات ہیں اس کال کی وجہ سے پی ٹی آئی کی اپنی صفوں میں موجود قیادت کی اکثریت اور کارکن بہت زیادہ پریشانی کا شکار ہیں۔خبروں کے مطابق ایک میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے بانی چیئرمین عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بیگم نے پارٹی قیادت پر واضح کیا ہے کہ ہر ایم این اے اپنے حلقہ سے دس ہزار اور ایم پی اے اپنے حلقہ سے پانچ ہزار کارکن ہر صورت میں احتجاج میں لائیں گے اور ان کی ٹرانسپورٹ اور خوراک کے علاوہ دیگر اخراجات کا بھی بندوبست کریں گے۔ ایسا نہ کر سکنے کی صورت میں انہیں پارٹی سے خارج کرنے کی دھمکی بھی دی گئی ہے۔ اس پر مزید ظلم یہ ہے کہ اعلیٰ قیادت نے اراکین اسمبلی کے پاس گرفتار ہو جانے کی آپشن بھی نہیں چھوڑی اور اعلان کر دیا ہے کہ گرفتار ہو جانے والے لیڈرز بھی اپنے آپ کو پارٹی سے خارج ہی سمجھیں۔ ویسے اگر حقیقت پسندی سے جائزہ لیا جائے تو موجودہ حالات میں اگر ہر ایم این اے ایک سو اور ایم پی اے ایسے پچاس ایسے کمٹڈکارکنوں کو بھی نکالنے میں کامیاب ہو گیا جو اسلام آباد جا کر ہلڑ بازی اور شور غوغا کرنے کے لیے تیار ہوں تو بڑی بات ہو گی۔
خیبر پختونخواہ حکومت نے تو ایک چالاک پلاننگ کے تحت صوبے میں اپنے حقوق اور مراعات کے لیے احتجاج کرنے والے سرکاری ملازمین کوپیغام دے دیا ہے کہ اگر وہ 24نومبر کو اسلام آباد میں ہونے والے احتجاج میں شرکت کریں گے تب ہی ان کے مطالبات پر غور کیا جائے گا۔ اب ان سرکاری ملازمین کو بھی یقینا اچھی طرح سے یاد ہو گا کہ پچھلی مرتبہ علی امین گنڈاپور کے جلوس کے ساتھ اسلام آبادجانے والے سرکاری ملازمین کا کیا حال ہوا تھا اس لیے اس خانے کو بھی خالی ہی سمجھیں۔
کرائے پر آنے والے لوگ بھی پی ٹی آئی قیادت کے ماضی کے رویوں کی وجہ سے خاصے نالاں اور متنفر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں انہیں پانچ ہزار روپے روزانہ پر لایا جاتا تھا لیکن بعد میں صرف ایک ہزار پر ہی ٹرخا دیا جاتا تھا۔ اس کاروباری بددیانتی کی وجہ سے عین ممکن ہے کہ اس قسم کے کریکٹر بھی ان کے احتجاج میں شرکت سے اجتناب ہی کریں۔
ممکن ہے پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے دھمکی آمیز اعلانات اور احکامات کا مقصد پارٹی کو درپیش چیلنجوں، اندرونی تقسیم اور کم ہوتی عوامی حمایت سے نمنٹنا اور عوامی سطح پر دوبارہ اپنے قدم جمانے کی کوشش کرنا ہو۔ لیکن جا بجا اس قسم کی کالیں دینے سے صرف پیسے لے کر اس قسم کی ہلڑ بازی میں شرکت کرنے والے ہی خوش اور راضی رہ سکتے ہیں جبکہ کمٹڈ کارکن اور حقیقی لیڈر شپ اس فضول قسم کی ایکسرسائز اور خرچوں سے عاجز آ چکی ہے۔
بہت سے لوگوں کو تو اس قسم کے احتجاج کی افادیت اور مقصد کے بارے میں بھی کنفیوژن ہے کہ ایک طرف قیادت کہتی ہے کہ عمران خان کو جیل سے نکلوانے کے لیے ہمیں اعلیٰ عدلیہ پر مکمل اعتماد ہے، اسی لمحے یہ بھی کہتے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ ہماری مدد کرے گی اور عمران خان کو جیل سے باہر نکلوائے گی ، تیسری طرف اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کرنے اور ان کے ساتھ معاملات طے ہو جانے کی بات کرتے ہیں اور اس کے علاوہ بار بار ناکامیوں کا منہ دیکھنے کے باوجود احتجاج کی کالیں دینے سے بھی باز نہیں آتے ۔
یقینا 24 نومبر کی احتجاجی کال میں ایک مربوط ایجنڈے کا فقدان ہے، جو پی ٹی آئی کے بیانیے کو مزید پیچیدہ بنا رہا ہے اور اس کے کارکنوں کو کنفیوژ کر رہا ہے۔ احتجاج کے لیے ایک واضح روڈ میپ کی عدم موجودگی اس بارے میں سوالات کو جنم د ے رہی ہے کہ اگر پارٹی اندرونی کمزوریوں کو دور کیے بغیر اس قسم کی حرکات کرتی رہی تو اس کے نتیجہ میں پارٹی کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ احتجاجی کال کچھ وفاداروں کو تو جوش دے سکتی ہے، لیکن اس سے عوام میں پارٹی کی موجودہ حیثیت اور اسکی کارکنان کو متحرک کرنے کی صلاحیت کا بھی پول کھل جانے کا بھی خطرہ ہے۔
ایک زمانے میں تبدیلی اور اصلاحات کی علامت نظر آنے والی پارٹی اب رد عمل کی سیاست کے چکر میں پھنسی ہوئی نظر آتی ہے اور مستقبل کے لیے کوئی وژن بیان کرنے سے قاصر ہے۔پی ٹی آئی کو اب یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنے،اپنی صفوں میں موجود عدم اطمینان کو دور کرنے اور قومی اداروں کے خلاف براہ راست یا بالواستہ صف آرا ہونے سے باز آنے تک قومی سیاست پر اثر انداز ہونے کی ان کی خواہش نا مکمل ہی رہے گی۔
24 نومبر کو احتجاج کی کال دینے کے بعد پی ٹی آئی کو اپنی تنظیمی طاقت اور عوامی ردعمل کے ایک نازک امتحان کا سامنا ہے۔ یہ احتجاج ایسے سیاسی ماحول میں پارٹی کی مقبولیت جانچنے کیلئے ایک لٹمس ٹیسٹ کا کام کرے گا جو بظاہر ان کیلئے خاصہ غیر موزوں ہے۔