مسجد نبوی ، باتیں اور یادیں….!

(گزشتہ سے پیوستہ)
مسجد نبوی کے اس قدیم ترین حصے میں عصر کی نماز کی ادائیگی کے بعد ہم پیچھے والی صفوں میں آ گئے۔ ہمیں اندازہ تھا کہ عصرکی نماز کے بعد مغرب کی اذان تک تقریباً تین گھنٹے کا وقت ہے۔ اس دوران ہم اِدھر پیچھے کچھ آرام کر لیں گے اور تلاوتِ قرآن مجید میں بھی کچھ وقت لگا لیں گے۔ مسجد نبوی کے اس حصے میں کئی لوگ قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف تھے تو کئی ایسے بھی تھے جو وہاں ستونوں سے ٹیک لگائے، پاﺅں پسارے نیم دراز آرام کر رہے تھے۔ کچھ قالینوں پر لیٹے ہوئے سو بھی رہے تھے۔ واجد قرآن مجید کی تلاوت کرنے لگا جبکہ میں اور عمران ستونوں کے ساتھ مناسب جگہ دیکھ کر پاﺅں پسار کر آرام کے لیے بیٹھ گئے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بے جا نہیں ہو گا کہ حرمین شریفین (مسجد الحرام مکہ مکرمہ اور مسجد نبوی مدینہ منورہ) میں بہت بڑی تعداد میں قرآن پاک کے نسخے جا بجا لکڑی کے سٹینڈوں اور ان کے شیلفوں میں رکھے نظر آتے ہیں تو ان کے ساتھ برآمدوں کے ان گنت ستونوں کے ساتھ چار پانچ فٹ کی اونچائی پر گولائی میں بنی پلیٹ فارم جیسی جگہوں پر بھی قر آن پاک کے نسخے ترتیب اور اہتمام کے ساتھ رکھے دکھائی دیتے ہیں۔ شاہ فہد قرآن کریم پرنٹنگ کمپلیکس مدینہ منورہ کے اعلیٰ معیار کے انتہائی قیمتی کاغذ پرشائع کردہ یہ نسخے جہاں اپنے گر د پوش (گیٹ اپ) کے لحاظ سے انتہائی خوبصورت اور دیدہِ زیب سمجھے جا سکتے ہیںوہاں اپنی چھپائی ، طباعت اور جلدوں کی مضبوطی کے لحاظ سے بھی اعلیٰ معیار کے حامل گردانے جاسکتے ہیں۔ قرآن پاک کے ان نسخوں اور ہمارے ہاں کے چھپے قرآن پاک کے نسخوں میں ایک فرق یہ پایا جاتا ہے کہ ان پر اس طرح کے اعراب نہیں لگے ہوئے یا پاروں کے نام رکوعوں کے نشان اور نمبر اور پارہ کے ایک چوتھائی پر الربع، نصف پر النصف اور تین چوتھائی پر الثلثلہ کے الفاظ وغیرہ لکھے ہوئے نہیں ہیں جیسے ہمارے ہاں کے چھپے ہوئے قرآن مجید کے نسخوں پر نظر آتے ہیں۔ تاہم ان سے تلاوت کرتے ہوئے کوئی اتنی مشکل پیش نہیں آتی۔ سعودی حکمران تحسین کے مستحق ہیں کہ انہوں نے شاہ فہد قرآن کریم پرنٹنگ کمپلیکس مدینہ منورہ کے زیرِ اہتمام اتنے وسیع پیمانے پر (بلا شبہ لاکھوں کی تعداد میں) قرآن مجید کی اتنی معیاری، خوبصورت، دیدہِ زیب اور اللہ
رب العزت کے پاک کلام کی شایانِ شان طباعت، اشاعت اور ترویج کا انتظام کر رکھا ہے۔ پھر اس سے بڑھ کر یہ بھی قابلِ تحسین پہلو ہے کہ صرف عربی مبین کے متن کے ساتھ ساتھ دنیا کی دوسری بڑی زبانوں جن میں اردو، انگریزی، فارسی، ہندی اور بنگالی وغیرہ شامل ہیں کے ترجموں کے ساتھ بھی قرآن مجید کی اشاعت و طباعت کا اہتمام کر رکھا ہے۔
یہاں میرا دھیان ۱۹۸۵ءمیں اپنے حج کی ادائیگی کے موقع پر حرمین شریفین میں قرآن پاک کے نسخوں کی فراہمی کی طرف جا رہا ہے۔ اس وقت حرمین شریفین (مسجد الحرام مکہ مکرمہ اور مسجد نبوی مدینہ منورہ) میں قرآن پاک کے جو نسخے رکھے تھے ان میں بڑی تعداد میں تاج کمپنی (کراچی) پاکستان کے چھپے ہوئے تھے۔ پاکستانی زائرین حج و عمرہ قرآن پاک کے یہ نسخے اپنے ساتھ لے جاتے تھے تو مکہ مکرمہ میں بھی مسجد الحرام کے نواح میں ایسی دکانیں موجود تھیں جن سے دو اڑھائی سو روپوں یا ان کے برابر سعودی ریالوں کے ہدیے میں تاج کمپنی پاکستان کا چھپا ہوا قرآن پاک کا نسخہ بہ آسانی دستیاب تھا۔ مجھے یا د ہے کہ میری ایک عزیزہ نے پاکستان میں کچھ رقم دی تھی ، میں نے اس سے تاج کمپنی کے چھپے ہوئے قرآن پاک کے نسخے لے کرمسجد الحرام میں رکھے تھے۔ اب شاید اس کی اجازت نہیں ہے یا پھر سعودی حکومت کے شاہ فہد پرنٹنگ کمپلیکس مدینہ منورہ کے چھپے ہوئے قرآن پاک کے نسخے مسجد الحرام مکہ مکرمہ اورمسجد نبوی میں اتنی بڑی تعداد میں رکھے ہوئے ہیں کہ ان سے ہٹ کر اور کہیں سے ضرورت پوری کرنے کی حاجت نہیں رہتی۔ شاہ فہد قرآن کریم پرنٹنگ کمپلیکس مدینہ منورہ کے چھپے ہوئے قرآن پاک کے نسخے ضخامت میں دو سائز کے ہیں۔ ایک بڑے سائز کے ہیںجو موٹے حروف کے ساتھ اور دوسرے مقابلتاً چھوٹے سائز میں کم موٹے حروف میں۔ تلاوت کرنے والے اپنی سہولت اور ضرورت کے مطابق تلاوت کے لیے بڑے یا چھوٹے سائز کے نسخے کا چناﺅ کر لیتے ہیں۔ حرمین شریفین میں صفائی کے لیے جو بڑی تعداد مین عملہ متعین ہے اُس کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ قرآن مجید کے ان نسخوں کی جھاڑ پھونک کرتا رہے اور ان کو صحیح ترتیب اور اہتمام کے ساتھ ستونوں کے گرد بنی جگہ یا اس مقصد کے لیے بنائے گئے جا بجا رکھے گئے سٹینڈوں پر شیلفوں کے اندر رکھے۔ اس طرح قرآن پاک کی بے ادبی کا احتمال بھی کم ہوتا ہے تو اس کے ساتھ مسجد الحرام اور مسجد نبوی جیسے مقدس اور انتہائی با برکت مقامات میں چیزوں کی ترتیب و تنظیم اور آرائش و زیبائش میں کچھ کمی نہیں آتی۔ مسجد الحرام مکہ مکرمہ اور مسجد نبوی مدینہ منورہ میں یہ سب کچھ اتنا بے مثال اور لا جواب ہے کہ اس کی جتنی بھی تعریف و تحسین کی جائے کم ہو گی۔
مسجد نبوی کے اس حصے میں ستون کے ساتھ ٹیک لگائے ، ٹانگیں پسارے نیم دراز کچھ دیر آرام کیا ہو گا کہ ٹھنڈک کچھ زیادہ محسوس ہونے لگی اور دل چاہنے لگا کہ ذرا ہٹ کے دھوپ والی جگہ میں نکلوں یا ایسی جگہ بیٹھوں جہاں ائیر کنڈیشننگ یا سنٹر لائزڈکولنگ کا نظام کچھ کم یا کمزور ہو، تا کہ ٹھنڈک کم محسوس ہو۔ ستون جس سے ٹیک لگا رکھی تھی اس سے اٹھ کھڑا ہوا کہ ستون کے نچلے حصے میں سے مرکزی یا سنٹر لائزڈ ائیر کنڈیشننگ سسٹم کے تحت آنے والی ٹھنڈی ہوا سے ذرا دور ہو جاﺅں۔ تھوڑا ہٹ کر قالین پر جا کر لیٹ گیا۔ مسجد نبوی کے دُور دُور تک دائیں بائیں اورسامنے پھیلے لا تعداد ستون اور ان پر بنی ایک ہی انداز میں ایک ہی طرح کے رنگوں اور شکل والی محرابیں میری نگاہوں کے سامنے تھیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ اللہ کے پاک نبی ﷺ کے نام سے منسوب یہ عبادت گاہ مسجد نبوی کس شان اور کس عظمت کی حامل ہے ۔ اس کا تقدس ، اس کی حرمت، اس کی فضیلت ، اس کی پاکیزگی، اس کا بلند مقام، اس کا حُسن و جمال اور اس کی آرائش و زیبائش ہر چیز ایک سے ایک بڑھ کر ہے ۔ اس کے سنٹر لائزڈ کولنگ سسٹم کو ہی لے لیجیے، جولائی کی 20 تاریخ کو جب باہر درجہ حرارت 42 ڈگری سنٹی گریڈ کے لگ بھگ ہے تو یہاں ائیر کنڈیشننگ کا اتناموثر ، بھر پور اور شاندار نظام ہے اور اتنی ٹھنڈک پھیلی ہوئی ہے کہ سردی محسوس ہو رہی ہے۔ ۱۹۸۳ءمیں حج پر آئے تھے تو صحیح یاد نہیں پڑتا لیکن میرا خیال ہے کہ یہ نظام شاید اتنا جدید ترین نہیں تھا۔ خیر اسی طرح کی سوچوں میں وقت گزرنے کا احساس نہ ہوا اور مغرب کی اذان کا وقت قریب آن پہنچا۔ ہم وضو کرنے کے لیے باہر نکلے اور مسجد نبوی کے بیرونی گیٹ نمبر 365 جس سے ہم مسجد نبوی میں آج داخل ہوئے تھے کے قریب بنے وضو خانوں میں جا پہنچے۔ وہاں وضو کیا اور دوبارہ مسجد نبوی کی قدیم ترین حصے میں مغرب کی نماز کی ادائیگی کے لیے واپس آگئے۔ یہاں ہمیں دوبارہ جگہ حاصل کرنے میں کچھ دقت پیش آئی کہ اب یہاں نماز ادا کرنے والوں کا رَش ہو چکا تھا، ہم نے بڑی مشکل سے آخری صف میں جگہ حاصل کی اور مغرب کی اذان کا انتظار کرنے لگے۔ (جاری ہے)