ہم برطانیہ میں جو جمہوری اقدار ہیں ان کی صدق دل سے قدر کرتے ہیں اور ہر جمہوریت پسند جمہوری اقدار جس میں خاص طور پر آزادی اظہار ہے اس کی قدر کرے گا اور خود ہماری ساری عمر اسی دشت کی سیاحی میں گذری ہے اور جنرل ضیاءکے دور میں طلباءسیاست کے دوران ہماری جدوجہد کا محور و مرکز ہی جمہوری اقدار کی سربلندی اور آزادی اظہار کو یقینی بنانا تھا لیکن ہمیں آزادی اظہار اور دوسروں کو ہراساں کرنے کے عمل میں فرق کرنا ہو گا ۔کہتے ہیں کہ ہر شخص کو ہاتھ ہلانے کی مکمل آزادی ہے لیکن اس حد تک کہ آپ کا ہاتھ کسی کی ناک تک نہ پہنچے ۔ جہاں آپ کا ہاتھ دوسرے کی ناک تک پہنچا وہیں آپ کی آزادی ختم ہو جاتی ہے اور گذشتہ کچھ برسوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ برطانیہ اور خاص طور پر اس کے شہر لندن میں آزادی اظہار کی آڑ میں چند درجن لوگوں کا ہاتھ دوسروں کی ناک تک ہی نہیں پہنچتا بلکہ ناک مروڑنے اور نوبت مکے مارنے تک آ جاتی ہے ۔ کچھ عرصہ سے ایک سیاسی جماعت کے کارکنوں نے یہ وتیرہ بنا رکھا ہے کہ پاکستان سے جو بھی سیاسی یا کوئی ایسی شخصیت کہ جس کے متعلق یہ شبہ بھی ہو کہ وہ عمران خان کے خلاف ہے اس کے خلاف احتجاج کے نام پر اسے ہراساں کرنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور یہ اس عمرانی شعور کا نتیجہ ہے کہ جس میں عمران خان کہتے ہیں کہ ان کا سوشل بائیکاٹ کرو اور آپ کو یاد ہو گا کہ 2022میں عدم اعتماد کی تحریک کے وقت تحریک انصاف کے فارورڈ بلاک کے ارکان کے متعلق بانی پی ٹی آئی کہا کرتے تھے کہ ان کے بچوں کا کسی نے رشتہ نہیں لینا اور نہ ہی ان کے بچوں کی شادیوں میںکوئی شریک ہو گا۔ یہ وہ عمرانی شعور ہے کہ جو اندرون اور بیرون ملک ابل ابل کر نکل رہا ہے اور سوشل میڈیا پر تو اس شعور نے اخلاقیات کی تمام حدوں کو توڑ کر رکھ دیا ہے ۔
ہم نے تسلیم کر لیا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو کسی بھی جماعت کے حق میں اور کسی بھی جماعت کے خلاف احتجاج کرنے کا حق ہے لیکن اس کے لئے یقینا کچھ اصول اور ضوابط ہوں گے اور کیا کسی کے گھر کے سامنے جا کر میگا فون پر بلند آواز میں نام لے لے کر پکارنا اور اس پکار میں انتہائی نا مناسب اور نازیبا الفاظ کا استعمال کیا یہ بھی آزادی اظہار میں آتا ہے ۔کیا کسی کے گھر کے سامنے احتجاج کے نام پر مجمع اکھٹا کر کے اسے زبردستی گھر میں محصور کر دینا کیا یہ بھی آزادی اظہار ہے ۔ کیا کسی کے پیچھے بھاگ کر اسے خوف زدہ کرنا کیا یہ بھی آزادی رائے ہے ۔ کیا ایک شخص اگر اپنے گھر سے باہر نکلتا ہے تو اس کے راستے میں حائل ہو کر اس کے خلاف نعرے بازی کرنا اور اس کا راستہ روک لینا کیا یہ بھی آزادی اظہار کے زمرے میں آئے گا ۔ پاکستان سے جو بھی برطانیہ جاتا ہے وہ ویزہ لے کر جاتا ہے اور پاکستان کے حال ہی میں سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس محترم قاضی فائز عیسیٰ صاحب تو آپ کے ملک کی یونیورسٹی مڈل ٹیمپل کی دعوت پر گئے تھے جہاں انھیں ایک پر وقار تقریب میں بینچر کے ایوارڈ سے نوازا گیا ان کی حفاظت کی ذمہ داری تو آپ کی حکومت کی تھی لیکن کیا ہوا کہ ان کے گھر کے گیٹ کے باہر لوگ کھڑے ہوئے تھے اور صرف کھڑے ہی نہیں تھے بلکہ ان کے گھر کے گیٹ سے جھانک کر اندر دیکھتے تھے کہ ان کی گاڑی باہر آ رہی ہے یا نہیں ۔ کیا اس طرح کسی کی رہائش گاہ کے اندر دیکھنا یہ آزادی رائے ہے یا ایک سنگین جرم ہے اور بات یہیں تک محدود نہیں رہی تھی بلکہ برطانوی پولیس کی مجرمانہ خاموشی سے شہ پا کر ان کی اتنی ہمت بڑھ گئی کہ انھوں نے ان کی گاڑی کے شیشوں کو توڑنے کی کوشش کر کے انھیں ہراساں کیا گیا اور اس دوران برطانوی پولیس خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہی ۔ اس کے علاوہ وہ جہاں بھی گئے انھیں وہاں پر آزادی اظہار کے نام پر ان چند درجن افراد کی غنڈہ گردی کا سامنا کرنا پڑا ۔یہ صرف قاضی صاحب کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ میاں نواز شریف سمیت ہر اس شخص کے ساتھ اسی طرح کا غیر اخلاقی سلوک کیا گیا کہ جو تحریک انصاف کا مخالف ہے ۔ اب خواجہ آصف ایک ٹرین میں سفر کر رہے تھے تو انھیں ایک شخص نے گالیاں دیں ۔ اب کوئی شخص اگر ٹرین میں سفر کر رہا ہے تو اسے گالیاں دینا کون سیاسی آزادی یا آزادی اظہار کا حصہ ہے ۔ کیا ان سب کی حفاظت کا فرض حکومت برطانیہ کا نہیں تھا کیا انھوں نے اپنا یہ فرض ادا کیا ہے ۔
لیکن اس سب میں وہ تمام شخصیات کہ جن کے خلاف یہ سب کچھ کیا گیا وہ بھی اور حکومت پاکستان دونوںبرابر کی قصور وار ہیں اس لئے کہ اپنے خلاف ہونے والی کسی زیادتی کے خلاف آواز بلند کرنا سب سے پہلے خود ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ جن کے خلاف یہ سب کیا جا رہا تھا اور اب بھی کیا جاتا ہے اور دوسرا حکومت پاکستان کا اپنے شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانا بھی ریاست کا کام ہے اور اب شکر ہے کہ قاضی صاحب اور خواجہ آصف کو ٹرین میں جس شخص نے گالیاں نکالی ہیں ان کے خلاف سفیر کو قانونی کارروائی کا کہہ دیا ہے ۔ یقین کریں کہ اگر ان کے خلاف ایک آدھ مرتبہ بھی قانونی کارروائی ہو چکی ہوتی تو دوبارہ کبھی کسی کے خلاف اس طرح کی حرکت کرنے کی نوبت ہی نہیں آنا تھی۔ کالم کے آخر میں ان تمام لوگوں سے کہ جنھیں بیرون ملک بیٹھ کر وطن کی محبت کا درد چین نہیں لینے دے رہا ان سے گذارش ہے کہ اس محبت کا اظہار انھوں نے کبھی وطن آ کر بھی کیا ہے اور چلیں ماضی کو تو چھوڑ دیں اب تو عمران خان نے 24 نومبر اپنی رہائی کی تحریک شروع کرنے کی کال دے دی ہے تو ہمت کریں وطن اور عمران خان کی محبت کو عملی طور پر ثابت کریں اور پاکستان آئیں اور بانی پی ٹی آئی کی رہائی کی تحریک کا حصہ بنیں لیکن آپ نہیں آئیں گے اس لئے یہ بازو ہم سب کے آزمائے ہوئے ہیں ۔