لاتعداد حقیقتیں ایک دوسرے سے جڑی نظر آتی ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ جو ملک اقتصادی طور پر مضبوط نہیں ہوتے۔ وہ دفاعی طور پر کمزور ہوتے ہیں، کمزور ملک لاکھ راگ الاپتے رہیں، وہ ایک خودمختار ملک ہیں، کوئی ان کی بات پر یقین نہیں رکھتا۔ بعض ملک ایسے بھی ہیں جو اقتصادی طور پر اتنے مضبوط ہیں کہ خطے کے درجنوں ممالک کو تسلسل سے امداد فراہم کرتے ہیں لیکن اپنے دفاع کیلئے دوسروں پر انحصار کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں اپنے دفاع پر خرچ کرنا فضول خرچی ہے، وہ بڑی فوج رکھتے ہیں، نہ جدید اسلحہ، طاقتور ملک ان کمزوریوں کو ہمیشہ نظر میں رکھتے ہیں اور ان سے ضرورت پڑنے پر فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ماضی قریب میں ایسے ہی ایک ملک کو دھمکی دی گئی کہ ہم تمہاری حفاظت نہ کریں تو تمہاری حکومت پندرہ دن بھی نہیں چل سکتی۔ دوسری طرف سے اس کا جواب نہ آیا بلکہ خاموشی میں بہتری سمجھی گئی جواب کیا دیتے للکارنے کی قیمت چکانا پڑ سکتی تھی۔
طاقتور ملک ہر زمانے میں کمزور ملکوں کے معاملات میں مداخلت کرتے ہیں، کبھی چپکے چپکے کبھی اعلانیہ، اس کا اقرار تیس چالیس برس بعد کرتے ہیں۔ امریکہ کی پالیسی یہی رہی ہے، امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب جیتنے کے بعد کئی امیدیں ٹوٹ گئی ہیں لیکن امیدوں کا ایک سیل رواں ہے جو ان کی طرف بڑھتا چلا آ رہا ہے۔ یہ کہاں رکتا ہے یا کس نالے میں گرتا ہے آئندہ ایک برس کے اندر سب کچھ واضح ہو جائے گا۔ امریکی مداخلت کے کوئی طے شدہ اصول نہیں ہیں۔ وہ جب چاہے محسوس کرے کہ فلاں ملک یا اس کی حکومت اس کے مفادات کے تحت کام نہیں کر رہی یا مستقبل کے ایجنڈے میں اس کی پالیسیوں کو کامیابیوں سے ہمکنار نہیں کر سکتی، وہ اسے اس انداز سے منظر سے ہٹانے کی منصوبہ بندی کرتا ہے کہ سازش کا گمان نہیں ہوتا بلکہ یوں لگتا ہے سب کچھ جمہوریت کو مضبوط کرنے کیلئے کیا گیا ہے اور سب کچھ مقامی طور پر ہوا ہے، ملک میں پہلا مارشل لاء آیا تو انکل سام کی خوشنودی حاصل ہوگی، اس کی منصوبہ بندی شاید امریکہ نے نہ کی ہو لیکن بعد ازاں یہی نظر آیا۔ امریکہ اور مارشل لاء بھائی بھائی ہیں۔ یہ رشتہ قریباً دس برس قائم رہا، امریکی امداد ملتی رہی، ملک میں صنعتی ترقی جاری رہی جونہی ایک بھائی نے خود کفالت کا تاثر دیا اور کہا ’’ہم دوست چاہتے ہیں آقا نہیں‘‘ تو آقا انکل مداخلت پر تل گئے۔ انہوں نے متبادل تیار کر رکھا تھا وہ اسے اقتدار میں لے آئے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے جب اپنی اہمیت جتائی تو امریکہ کو ایک آنکھ نہ بھائی، انہیں اس لئے رخصت کیا گیا کہ وہ روس کے افغانستان میں آنے پر امریکی جنگ لڑنے کے حوالے سے سوال اٹھا سکتے تھے۔ عین ممکن ہے وہ یہ فیصلہ کرتے کہ ہم روس سے تعلقات بہتر کرتے ہیں۔ اس وقت روس کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب نہ تھے۔ روس کے تعاون سے کراچی میں ایشیا کی سب سے بڑی سٹیل ملز لگ رہی تھی یہ تعاون مزید آگے بڑھ سکتا تھا لیکن امریکہ کو بڑھتے ہوئے تعلقات نہ بھائے وہ پاکستان کو زیر نگین رکھ کر خطے میں اپنا اثر قائم رکھنا چاہتا تھا کیونکہ اپنی آزاد خارجہ پالیسی اور حکمت عملی کے اعتبار سے بھارت امریکہ اور روس دونوں سے تعلقات رکھے ہوئے تھا جبکہ اس نے چین کے ساتھ بگڑتے ہوئے تعلقات کو بہتر بنانے پر کام شروع کر دیا تھا یوں امریکہ کیلئے پاکستان کی اہمیت بڑھ چکی تھی۔
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ختم کرانے کیلئے نصف درجن ممالک نے پاکستان سے رابطہ کیا لیکن امریکہ انہیں زندہ نہیں دیکھنا چاہتا تھا، سزا پر عملدرآمد ہو گیا۔ جنرل پرویز مشرف اور دوسری مرتبہ منتخب ہونے والے وزیراعظم نوازشریف کے مابین چپقلش عروج پر پہنچی۔ امریکی صدر کلنٹن نے بھارتی درخواست پر کارگل کے معاملے میں پاکستان پر دبائو ڈالا۔ نوازشریف نے کلنٹن کو واضح طور پر بتایا کہ پاکستان میں ان کی حکومت کا تختہ الٹا جا سکتا ہے جس پر کلنٹن نے انہیں یقین دلایا کہ اگر ایسا ہوا تو ان کا خیال رکھا جائیگا۔
نوازشریف واپس ملک پہنچے تو جلد ہی معزول ہو گئے اور قید میں ڈال دیئے گئے۔ مشرف حکومت نے مقدمات تیار کئے اور انہیں سزائے موت سنا دی۔ کلنٹن حکومت نے مداخلت کی، سعودی حکومت درمیان میں آئی اور نوازشریف دس برس کیلئے ملک چھوڑ گئے۔ پاکستان کے ایک وزیراعظم کو پھانسی دی گئی۔ دوسرے کو پھانسی سے بچا لیا گیا۔ دنیا جانتی ہے سب امریکہ کی مرضی سے ہوا وہ مداخلت نہ کرتا تو پہلے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی نہ ہوتی وہ مداخلت نہ کرتا تو جناب نوازشریف کو پھانسی ہو جاتی۔ دو برس قبل عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیجی جانے والی حکومت کے سربراہ جیل میں ہیں۔ ان پر سو سے زائد مقدمات قائم کئے گئے۔ متعدد مقدمات میں انہیں سزائیں سنائی گئیں جو بعد ازاں اعلیٰ عدالتوں نے ختم کر دیں۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ انہیں ملک چھوڑنے چند برس سیاست سے کنارہ کش ہونے کی شرط پر رہائی کی پیشکش موجود ہے لیکن قیدی کا خیال ہے یہ پیشکش قبول کر لی تو اس کی سیاست ہمیشہ کیلئے ختم کیونکہ گزشتہ دو سال میں وہ مسلسل ’’ڈیل‘‘ کرنے والوں اور ملک چھوڑ جانے والوں کو ہدف تنقید بناتا رہا ہے۔ تحریک انصاف نے امریکی انتخابات سے اپنی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں۔ انتخابات کا نتیجہ تو ان کی توقعات کے مطابق آ گیا ہے۔ تحریک انصاف کے کچھ فعال کردار امریکہ اور برطانیہ میں ’’ان کی‘‘ رہائی کیلئے لابی کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ اپنے مشن میں کس قدر کامیاب رہتے ہیں یا ناکام رہتے ہیں، زیادہ سے زیادہ ماہ جنوری تک منظر واضح ہو جائیگا۔ ایک ہی جیسے معاملے میں تیسری مرتبہ مداخلت بعید از قیاس نہیں ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کیا سوچتے ہیں کوئی ان کا ذہن نہیں پڑھ سکتا۔ ان کا فیصلہ ان کا فیصلہ ہوتا ہے۔ ضروری نہیں یہ فیصلہ حکومت امریکہ کا ہو کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ مزاج اور سوچ کے اعتبار سے روایتی سیاست دان یا روایتی امریکی صدر نہیں ہیں۔ بچپن سے لے کر صدر بننے تک ان کی تربیت ایسے ماحول میں ہوئی ہے جس میں وہی درست ہوتا ہے جو ٹرمپ چاہتا ہے اور جو ٹرمپ چاہتا ہے وہ اسے ہر قیمت پر حاصل کر لیتا ہے۔ وہ دوسروں کی مرضی سے لے کر اقتدار تک سب کچھ خرید سکتا ہے، خریدا نہ جا سکے تو چھین لینا بھی اس کی ڈکشنری میں کہیں موجود ہے۔ پاکستان کے معاملے میں تیسری مداخلت ہوئی تو قانون اس تیزی سے حرکت میں آئے گا کہ دنیا حیران رہ جائے گی۔ یوں لگے گا جیسے قانون کو چکر چڑھ گئے ہیں، سنگین ترین مقدمات سنگین ترین بغاوت کے الزام ختم، سب کچھ ڈرائی کلین اور چٹا جوڑا باہر۔