عرب اسلامک کانفرنس ہو گئی ہے جس میں کئی مسلم سربراہان نے بڑی اعلیٰ تقاریر کی ہیں۔ جذبات کے دریا نہیں سمندر بہا دیئے ہیں۔ مسلم سربراہان نے خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔ ایران کی سالمیت و خودمختاری کے احترام کے لئے اسرائیل کو پابند کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ غزہ میں بھوک، افلاس اور قحط کے باعث محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ ہمارے وزیراعظم محمد شہبازشریف نے تو القدس کے فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہونے کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ کانفرنس کا انعقاد اور اس میں اسرائیل کیخلاف تقاریر یقینا اہم اور کامیابی کی دلیل ہیں لیکن عملاً نتائج کے لحاظ سے یہ سب کچھ ٹائیں ٹائیں فش ہے کیونکہ اسرائیل 7اکتوبر 2023ء سے فلسطینیوں کے ساتھ جو کچھ کر رہا ہے وہ جاری ہے اور جاری رہے گا۔ اس کے حواری دواری جہاز بھر بھر کر اسے اسلحہ و گولہ بارود سپلائی کر رہے ہیں، وہ کرتے رہیں گے۔ فلسطینی مرتے جا رہے ہیں، وہ مرتے رہیں گے، قتل و غارت گری کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک اسرائیل کی صہیونی قیادت چاہے گی۔ جب تک وہ طے شدہ مقاصد پورے نہیں کر لیتے اور جب تک مطلوبہ اہداف حاصل نہیں ہو جاتے باقی جہاں تک نئی امریکی انتظامیہ کا تعلق ہے ٹرمپ کے جنگ بندی کے بارے میں بیانات کا تعلق ہے تو اسے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لینا چاہئے کیونکہ وہ انتخابی وعدے تھے، زمینی حقائق ممکن ہے ان وعدوں کے ایفا کی راہ میں رکاوٹ بن جائیں۔
امریکہ، برطانیہ، یورپ اور عیسائی دنیا پر یہودیت صہیونیت کا کس قدر غلبہ ہے، یہودیوں نے عیسائی دنیا کے اذہان پر کس قدر گرفت کر رکھی اسے جاننے کے لیے گزشتہ صدی کے آغاز میں لکھی گئی تحقیقاتی کتاب ’’بین الاقوامی یہودی: ایک اہم مسئلہ‘‘ کا مطالعہ دلچسپی کا حامل ہوگا۔ امریکہ میں قائم کردہ اولین موٹر مینوفیکچرنگ پلانٹ ہنری فورڈ نے لگایا تھا، فورڈ گاڑی اسی پلانٹ میں تیار کی جاتی تھیں۔ یہ اس دور کی جدید ترین پراڈکٹ تھی۔ گیسولین سے چلنے والی یہ پہلی گاڑی تھی جسے کمرشل بنیادوں پر مارکیٹ میں بیچنے کیلئے تیار کیا گیا تھا۔ ہنری فورڈ ایک پکے و سچے مذہبی عیسائی تھے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ امریکہ میں ان کا مذہب، حقیقی تعلیمات عیسوی خطرات کا شکار ہیں۔ انہوں نے مخصوص فنڈ قائم کیا تاکہ امریکی عیسائیوں کو خبردار کیا جا سکے، انہیں آگہی دی جائے اور ان کے مذہب دشمنوں کا چہرہ دکھایا جا سکے۔ انہوں نے ایک معمولی اخبار خریدار پھر اس دور کے بہترین تحقیقاتی صحافت سے وابستہ افراد اکٹھے کئے اور حق سچ کی آواز بلند کرنے کے مشن میں لگ گئے۔ اس طرح وقت کے ساتھ ساتھ یہودیوں کی پراسرار سرگرمیوں کا پردہ چاک ہونے لگا۔ یہودی بڑے منظم انداز میں نہ صرف امریکی معاشرے میں گھن لگا چکے تھے بلکہ دیگر یورپی ممالک بھی ان کی دسترس میں تھے۔ یہودی نہ صرف خالص دین عیسوی کو فکری فکری طور پر برباد کر رہے تھے بلکہ اس میں عملاً خرابیاں پیدا کر رہے تھے۔ اپنی کاروباری صلاحیتوں کے بل بوتے پر معاشی مراکز پر ہی نہیں بلکہ ثقافتی، صحافتی اور دیگر اہم شعبہ ہائے زندگی پر قابض ہوتے چلے جا رہے تھے۔ ہنری فورڈ سکیم کے تحت ان کی مذموم کارروائیوں سے امریکیوں کو آگاہ کیا گیا۔ دس سال تک یہ تحقیقاتی مشن جاری رہا پھر ان حقائق کو یکجا کرنے کا پروگرام شروع کیا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ صحافتی تحقیقاتی مواد کتابی شکل میں محفوظ ہو جائے۔ ہنری فورڈ نے قومی اور دینی جذبے کے تحت خطیر رقوم مختص کیں بالآخر ’’بین الاقوامی یہودی: ایک اہم مسئلہ‘‘ کی چار جلدوں کی شکل میں ایک دستاویز معرض وجود میں آئی۔ یہ جنگ عظیم اول کے دور کا زمانہ تھا۔ یہودی سوال امریکہ و یورپ میں انتہائی اہمیت اختیار کر چکا تھا۔ تھیوڈور ہرزل کی صہیونی تحریک نے بھی یہودی مسئلے کو خوب اجاگر کیا تھا۔ سونے پر سہاگہ ’’پروٹوکولز‘‘ نامی دستاویز بھی منظرعام پر آ چکی تھی جس میں زعماء صہیونی کے خفیہ منصوبوں کا راز فاش ہو گیا تھا۔ کئی باتیں پروٹوکولز میں درج منصوبوں کے مطابق ظہور پذیر ہو بھی رہی تھیں۔ اس وقت یہودی بکھرے ہوئے تھے۔ دو ہزار اور اس سے کچھ اوپر سال پہلے ان کی ریاست ختم کر دی گئی تھی ان کا کعبہ ھیکل سلیمانی مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا تھا، انہیں جلاوطن کر دیا گیا تھا۔ یہودی گلی گلی نگر نگر پھیل کر بکھرے ہوئے تھے لیکن ان کا اللہ کی پسندیدہ قوم ہونے کا زعم برقرار تھا۔ وہ عہد نامہ قدیم میں کئے گئے خدائی وعدوں کے ایفا اور عظیم ریاست اسرائیل کے دوبارہ قیام کے بارے میں پرامید تھے۔ حیران کن بات ہے جنگ عظیم اول و دوم میں جو عیسائی دنیا ان کے خلاف تھی انہیں ناپاک، پلید اور یسوع مسیح کا قاتل تصور کرتی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ ان کے علیحدہ وطن کے قیام میں ممدومعاون بن گئی۔ لارڈ بالفور کا 700/800الفاظ پر مشتمل خط، بالفور ڈیکلیئریشن ریاست اسرائیل کے 1948ء میں قیام کی بنیاد بنا۔ یاد رہے لارڈ بالفور برطانوی وزیر خارجہ تھے، یہودی تھے۔ ریاست اسرائیل کے قیام کے بعد امریکہ نے اس کی تعمیر و ترقی اور حفاظت کا ذمہ لے رکھا ہے۔ صہیونی تحریک کے زیر اثر عیسائیوں میں ایک طبقہ ’’صہیونی عیسائیوں‘‘ کے نام سے وقوع پذیر ہو چکا ہے جو ریاست اسرائیل کے قیام، تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر اور عالمی یہودی ریاست کے اجراء کا حامی ہے۔ صہیونی امریکی اعصابی مراکز پر چھائے ہوئے ہیں۔ امریکی انتظامیہ ان کی گرفت میں ہے۔ ورلڈ ڈیپ سٹیٹ بھی ان کی آہنی گرفت میں ہے۔ عالمی زری و مالیاتی مراکز پر صہیونیوں کا قبضہ ہے۔ امریکہ ہو یا برطانیہ کوئی ملک بھی صہیونی یہودی اسرائیل مفادات کے خلاف فیصلہ نہیں کر سکتا ہے۔ یہودی دنیا میں قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود موثر ترین گروہ کی شکل میں دنیا پر راج کر رہے ہیں۔ ریاست اسرائیل ننھی منی ہونے کے باوجود نہ صرف عربوں کے سینے پر بلکہ ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے سینوں پر خنجر کی طرح پیوست ہیں۔ تاریخی اعتبار سے یہودیوں کی دشمنی عیسائیوں کے ساتھ ہے۔ عیسیٰ ابن مریمؑ یہودیوں کی طرف بھیجے جانے والے آخری نبی تھے۔ یہودیوں نے ان کی تکذیب کی، انہیں اپنے تئیں سولی پر چڑھا دیا۔ جب عیسائیوں کو عروج ملا تو انہوں نے یہودیوں کا ناطقہ بند کر دیا، انہیں جبر کا نشانہ بنایا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہودیوں نے خالص دین عیسوی کو تثلیسی مذہب بنا کر عیسائیوں سے بدلہ لے لیا اور اب وہ عیسائیوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کا تیہ پانچا کرنے میں مصروف ہیں۔ ریاست اسرائیل کا قیام ان کے نزدیک عہد نامہ قدیم کے وعدہ خداوندی کی تکمیل ہے۔ عہد نامہ کے مطابق یہودیوں کا نجات دھندہ آنے والا ہے جو عہد دائودی و سلمانی کا احیا کرے گا۔ یہودیوں کو اللہ کی چنیدہ قوم کے طور پر عالمی غلبہ حاصل ہوگا۔ اس مسیحا کے استقبال کے لئے ھیکل سلیمانی کی تیسری مرتبہ تعمیر ضروری ہے۔ یہودی اس کے لئے یکسو ہیں۔ ریاست اسرائیل قائم ہو چکی۔ یروشلم اس کا دارالحکومت بن چکا۔ ھیکل کی تعمیر کے بعد نجات دہندہ کی آمد ہوگی اور یہودیوں کو عالمی غلبہ حاصل ہو جائیگا۔ یہودی اس تناظر میں فلسطینیوں کا قتل عام کر رہے ہیں کہ وہ انہیں اپنے عزائم کی تکمیل کی راہ میں مزاحم پاتے ہیں۔ عرب و عجم کے مسلمان ذلیل و خوار ہیں۔ ان میں اتحاد نہیں، طاقت نہیں۔ عرب اسلامک کانفرنس اعلانات کی کوئی وقعت نہیں ہے۔