لگتا ہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے کامیابیوں کی طرف رخ موڑ لیا ہے۔ اس کو خوشگوار لمحہ لکھوں، بارش کا پہلا قطرہ کہوں کہ آسٹریلیا کو آسٹریلیا میں ایک روزہ میچوں میں جس طرح دھویا اور 22سال کے بعد اس کو اس کے گھر کے اندر شکست دے کر جہاں ہمارا مان رکھا وہاں یہ بات ثابت کر دی کہ ہم اگر جیتنا چاہیں تو جیت سکتے ہیں۔ انگلینڈ کے بعد آسٹریلیا دنیائے کرکٹ کے دونوں شیروں کو دبو چکا۔ کوئی آسان کام نہیں بہرحال خدا کرے کہ یہ سلسلہ جاری و ساری رہے۔ دوسری طرف دنیائے کرکٹ کے اہم بین الاقوامی ایونٹ جو پاکستان میں فروری مارچ 2025ء کو پاکستان میں کھیلا جانے والا ہے۔ بھارت نے انکار تو پاکستان نے بھی سخت مؤقف کا اعلان کرکے کہ اگر بھارت ہمارے ہاں نہ آیا تو آئندہ ورلڈ کپ سمیت پاکستان کبھی بھی بھارت کے ساتھ نہیں کھیلے گا اور یہی نہیں کھیلوں کے ہر فورم پر اس کی مخالفت کی جائے گی۔
کرکٹ کے میدان سے جہاں پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے کئی سالوں کی شکست در شکست کے بعد فتوحات کی طرف بڑھنا شروع کیا۔ اس شاندار کامیابی پر پاکستان بھر میں خوشیاں منائی جا رہی تھیں تو دوسری طرف بھارت نے اپنی روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ٹیم پاکستان بھیجنے سے انکار کر دیا۔ اب بھارتی ٹیم کا پاکستان نہ آنا اور اپنے مطالبات پر کسی اور ملک میں کھیلنا یہ بھارت کی کھیل دشمنی کی عکاسی کرتا ہے۔ آپ دور نہ جائیں۔ گزشتہ سال بھارت میں کرکٹ کے دو بڑے ایونٹ ہوئے۔ ورلڈ کپ اور آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی میں شرکت سے پاکستان نے پہلے تو انکار کیا پھر کھیل کے مفاد میں ہاں کر دی اور ایسا کئی بار ہوا۔ جب بھارت نے بھرپور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دنیائے کرکٹ میں چار ممالک کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان ہونے والے مقابلوں کو جنگی کیفیات میں دیکھا جاتا ہے۔ پاک بھارت ٹاکرا اور دوسرا انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان کھیلی جانے والی ایشینز ٹرافی۔ ہم اگر صرف پاک بھارت ٹاکرے کی بات کریں تو ان مقابلوں کو پاکستان ہی میں نہیں دنیا بھر میں بڑی دلچسپی کے ساتھ دیکھا جاتا ہے اور دونوں ممالک کے عوام کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ ان کے اپنے اپنے میدانوں میں یہ کرکٹ جنگ کھیلی جائے۔ بھارت کی کھیل دشمنی کا عالم یہ ہے کہ جب بھی پاکستان میں کرکٹ کے مقابلے آرگنائزڈ کئے جاتے ہیں بھارت نے کبھی فراخ دلی کا مظاہرہ نہیں کیا اور پاکستان نہ آنے کی ضد نے دونوں ممالک کے عوام کو مایوس کیا اور کھیل کے مفادات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی دشمن پالیسی کو زیادہ ترجیح دیتے ہوئے دھمکایا اور اس کی یہ ہٹ دھرمیاں عشروں سے چلی آ رہی ہیں۔
نائن الیون کے واقعات کے بعد جب پاکستان پر زبردستی دہشت گردی کی جنگ مسلط کی گئی تو تقریباً دس سال تک ہماری کھیلوں کے میدان ویرانی کے ڈیرے بن گئے پھر خدا خدا کرکے پاکستان میں دہشت گردی کا تقریباً خاتمہ ہوا اور پاکستان میں غیر ملکی ٹیموں نے آنا شروع کیا۔ ایوان میدان آباد ہو گئے اور آج الحمد للہ دنیا کی ہر ٹیم نہ صرف یہاں آئی بلکہ ہم نے یہ ثابت کیا کہ پاکستان امن کی دھرتی ہے۔ بھارت کا پاکستان نہ آنا یہ عذر پیش کرتا ہے کہ وہ پاکستان میں نہیں کھیلنا چاہتا۔ اس کی بنیادی وجہ پاکستان کے شاہینوں کی وہ پرفارمنس جس کے بارے میں دنیائے کرکٹ بھی کہتی ہے کہ یہ واحد ٹیم جس کا جادو کسی بھی وقت چل سکتا ہے۔
بھارت کو پاکستانی پچوں پر کھیلتے ہوئے بڑی گھبراہٹ ہوتی ہے۔ جب کسی ملک میں سیریز ہوتی ہے تو وہ اپنے بالرز کی طاقت کو سامنے رکھتے ہوئے وکٹیں تیار کراتا ہے جبکہ پاک بھارت وکٹیں ہمیشہ سپنرز کو سامنے رکھ کر تیار کی جاتی ہیں۔ اسی صورتحال کے مدنظر فروری مارچ میں پاکستان میں کھیلی جانے والی چیمپئنز ٹرافی میں بھارت کا شرکت نہ کرنا ایک خوف بھی ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ ہار کو قبول نہیں کرنا چاہتا۔
گزشتہ دنوں بھارتی کرکٹ بورڈ نے آئی سی سی کو باقاعدہ آگاہ کیا کہ بھارتی ٹیم چیمپئنز ٹرافی کے لئے نہیں جائے گی اور اس نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ بھارت دبئی کے مقام پر میچ کھیلنے کو تیار ہے۔ پھر جیسے ہی یہ خبر ہمارے میڈیا میں رپورٹ ہوئی تو اس کو ہمار ے ہاں بڑے دکھ کے ساتھ لیا گیا۔ بھارت کے اس انکار پر کرکٹ بورڈ کے سربراہ محسن نقوی نے کہا ابھی یہ خواہش کی ہے کہ بھارت یہاں آئے اور اس کو آنا بھی چاہئے کہ آج جتنا سازگار وقت پاکستان میں کرکٹ کھیلنے کا ہے شاید ہی دنیا کے کسی اور ملک میں ہو اگر بھارت نے ایک ہی بہانہ تراشا ہے کہ ہمیں سکیورٹی خدشات ہیں اور ہم دبئی میں کھیلنے کو تیار ہیں تو پاکستان بھارتی ٹیم کو صدارتی سکیورٹی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ یہ آفر بھی دے رہا ہے کہ اگر بھارتی ٹیم چاہے تو وہ پاکستان میں اپنا میچ کھیلنے کے بعد امرتسر جا سکتی ہے۔ ہمیں محسن نقوی کی اس بات کی سب کو تائید کرنا ہوگی کہ کھیل میں سیاست کے رنگ نہیں ہونے چاہئیں اور پوری دنیا میں دیکھا گیا کہ کھیل اور فن یہ دو شعبے ایسے ہیں جن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور ایسی ایک نہیں کئی مثالیں ہیں۔ (جاری ہے)