تصوف میں مخفی اصلاحِ معاشرہ کے امکانات

تصوف کیا ہے؟ تصوف کا اصل مادہ صوف ہے ،جس کا معنی ہے اون۔ اور تصوف کا لغوی معنی ہے اون کا لباس پہننا ،جیسے تقمص کامعنی ہے قمیص پہننا۔ لیکن صوفیا کرام کی اصطلاح میں اس کے معنی ہیں اپنے اندر کا تزکیہ اور تصفیہ کرنا، یعنی اپنے نفس کو نفسانی کدورتوں اور رذائلِ اخلاق سے پاک وصاف کرنا اور فضائلِ اخلاق سے مزین کرنا۔تصوف کی مضبوط روایت سے انکار نہیں کیا جا سکتا دنیا کے کم و بیش تمام ممالک میں صوفیا کے بہت سے سلسلے چلے آ رہے ہیں جن میں مخصوص علاقائی، ثقافتی اور تہذیبی رنگ بھی نظر آتا ہے۔ جیسے رفاعی سلاسل تصوف میں سے ایک سلسلے کا نام ہے۔ اس سلسلے کے پیروکار نہ صرف عرب اورمشرق وسطیٰ بلکہ ترکی، بلقان اور جنوبی ایشیا میں بھی پائے جاتے ہیں۔ اس سلسلے کے بانی شیخ احمد الرفاعی ہیں۔سلسلہ شاذلیہ بھی تصوف کا ایک سلسلہ ہے جس کے بانی ابوالحسن شاذلی بن عبد اللہ شریف حسینی المغربی (پیدائش591 ہجری۔ وفات 656ہجری) سید ابو الحسن کا نام علی بن عبد اللہ شاذلی ہے جو قریہ غمارہ(اسکندریہ ) میں پیدا ہوئے۔سہروردیہ مشہور روحانی سلاسل میں سے ہے اس سلسلے کے پیروکار سہروردی کہلاتے ہیں، جو زیادہ تر ایران، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں ہیں۔ اس سلسلے کے بانی شہاب الدین سہروردی تھے۔چشتیہ سلسلے کے بعد ہندوستان میں سہروردیہ سلسلہ آیا۔ اس سلسلے کی بنیاد شیخ ضیاء الدین ابو النجیب سہروردی (المتوفی 1097ھ/ 1118ئ) نے بغداد میں ر کھی تھی۔شیخ محمد ابن علی سنوسی کے حوالے سے معروف سنوسیہ سلسلہ بھی بہت سے علاقوں میں پایا جاتا ہے۔

گزشتہ دنوں خانقاہ عالیہ کلی شریف میں ایک تصوف سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ یہ تصوف سیمینار ہر سال منعقد کیا جاتا ہے۔ اس کی جدید وضع اور علمی و فکری فضا اسے روایتی سیمیناروں سے مختلف بنا دیتی ہے۔ پیر سید اظہر الحسن گیلانی صاحب کی سرپرستی میں ملک بھر سے شعبہ علومِ اسلامیہ کے محققین کو مدعو کیا جاتا ہے جو جدید علوم اور نئی تحقیق کی روشنی میں اپنے مقالے پیش کرتے ہیں۔ پیر سید اظہر الحسن گیلانی صاحب نے اپنی درس گاہ میں دینی تعلیم و تربیت کے ساتھ سماجی خدمات کا جو سلسلہ شروع کیا ہے وہ خانقاہ کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرتا ہے۔ ان کے کمیونٹی سینٹر میں سعید الحق ملک صاحب جیسی علمی و ادبی شخصیت کی معاونت بھی قابل ذکر ہے۔
اس سال تصوف سیمینار میں مخدوم ڈاکٹر محمد حبیب عرفانی، ڈاکٹر علی وقار قادری (ڈائریکٹر منہاج ایجوکیشن سوسائٹی)، پروفیسر ڈاکٹر ارشد نقش بندی اور پروفیسر ڈاکٹر سعید احمد سعیدی( شعبہ علومِ اسلامیہ، جامعہ پنجاب) نے اپنے تحقیقی مقالے پیش کیے۔ ڈاکٹر سعید احمد سعیدی نے” پر امن بقائے باہمی کا فروغ اور صوفیا کا کردار ” کے عنوان سے اپنا تحقیقی مقالہ پیش کیا۔ انھوں نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بقائے باہمی کی اہمیت کو اجاگر کیا اور اس ضمن میں صوفیا کرام کے کردار پر روشنی ڈالتے متصوفانہ سلسلوں کی موجودہ ذمہ داریوں کی وضاحت کی۔ ڈاکٹر علی وقار نے بڑی تفصیل کے ساتھ تصوف پر ہونے والے اعتراضات کے علمی جوابات مدلل انداز میں پیش کیے۔ وہ بنیادی مصادر کی مدد سے اپنا مقدمہ پیش کرکے علمِ حدیث، علمِ تفسیر اور تاریخ کے تقابلی جائزے کے ساتھ اپنی بات پر منطق کرتے رہے۔ ان کے مقالے کا سب سے اہم حصہ وہ تھا جہاں انھوں نے نہایت اہم اصلاحی پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا اور تصوف کے نام پر پیش کی جانے والی تخریبی سرگرمیوں پر بڑی بے باک تنقید کی۔ انھوں نے اپنی ناقدانہ بصیرت سے کھرے اور کھوٹے کی شناخت کے لیے کچھ اصولی نکات پیش کیے جو قرآن و حدیث کی کسوٹی پر پورا اترتے ہیں۔ تصوف جہاں انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی ذات سے محبت اور رسولؐ اللہ کی اطاعت کا جذبہ پیدا کرتاہے وہیں حسنِ اخلاق ، تحمل ،برداشت ،رواداری اور خدمت خلق کی طرف بھی انسان کو مائل کرتا ہے۔تصوف کے کئی نام ہیں جیسے "علم القلب” ، "علم الاخلاق” ، ” احسان وسلوک”، "تزکیہ و طریقت” وغیرہ۔تصوف اصل میں اخلاق کی پاکیزگی، باطن کی شفافیت،حشر کی فکر ، دل کی صفائی اور دنیاسے بے رغبتی کا نام ہے۔ ہمارے سماج میں تصوف کے معاشرتی کردار کو نظر انداز کیا جا رہا ہے اور اس کی فکر کی فقط عمودی صورتوں پر بحث کی جا رہی ہے۔ تصوف انسانی فکر کا حصہ ہے اور اس کا عملی مظاہرہ افراد کے افعال و کردار سے ہوتا ہے۔ یہ معاملات زندگی پر بھی اتنا ہی اثر انداز ہونا چاہیے جتنا خلوت میں کسی فردِ واحد کے دل پر اثر کرتا ہے۔ تصوف کی عملی صورتوں کی بدولت دنیا سے لالچ، حرص، ہوس کا خاتمہ ہونا چاہیے۔یہ وہ نعمت ہے جس کی بدولت معاشرے سے طبقاتی تقسیم کا خاتمہ ممکن ہے۔ یہ دنیا کی مادی ترقی کے بوسیدہ معیارات کو چیلنج کرتا ہے اور وہ ساری رسوم پاؤں تلے روند دیتا ہے جو دنیا میں امیری کا معیار سمجھی جاتی ہوں۔

میں بات کو سادہ اور مختصر کر دیتا ہوں۔ تصوف سادگی کا درس دیتا ہے اور سادگی میں سادہ سواری، سادہ رہائش، سادہ لباس سے لے کر سادہ غذا تک شامل ہے۔ تصوف مساوات کا درس دیتا ہے۔ معاشی مساوات جس میں کوئی قدرتی وسائل کو اپنی ملکیت میں دبا کر نہیں بیٹھ سکتا بلکہ انھیں خلقِ خدا میں تقسیم کرتا ہے۔ ارتکاز دولت کو ترک کر کے تقسیمِ دولت کا رستہ اپنا لیتا ہے۔ امیری اور غریبی کے کھوکھلے معیارات کو اپنے رہن سہن اور عمل سے مسلسل چیلنج کرتا ہے۔اور اگر ہم تصوف کے رستے پر چلنے کے باوجود ان مقاصد کو حاصل نہیں کر پا رہے اور ان کی خصوصیات کو عملی طور پر نہیں دیکھ پا رہے تو ہمیں ذرا رک کر غور کرنا چاہیے۔ ہم سے شاید کہیں کوئی بھول ہو گئی ہے۔