(گزشتہ سے پیوستہ)
مسجد نبوی ﷺمیں عصر کی اذان میں ابھی کچھ وقت باقی تھا کہ ہم ہوٹل سے نیچے آ گئے تا کہ واجد کی رہنمائی میںمسجد نبوی ْﷺ میںجا سکیں۔ ہم کچھ سامنے چلے، پھر بائیں ہاتھ دو ہوٹلوں کے درمیان چھوٹی سی گزرگاہ سے ہو کر ذیلی سڑک پر آ گئے۔ وہاں سے پھر بائیں ایک دو موڑ مڑنے کے بعد آگے کچھ فاصلہ طے کیا تو سامنے دائیں بائیں گزرنے والی ایک کشادہ دو رویہ سڑک کے کنارے پر پہنچ گئے۔ اس کو پار کیا تو اس کے ساتھ ہی ایک طویل اور قدرے اونچی دیوار (بعد میں اندازہ ہوا کہ یہ مدینہ منورہ کے تاریخی قبرستان جنت البقیع کی جنوبی سمت کی دیوار ہے) کے ساتھ بنے فٹ پاتھ نما راستے پر بائیں ہاتھ جدھر سڑک نیم دائرے کی صورت میں مُڑ رہی تھی ہو لیے۔ اسی دوران ہمارے پہلو میں ایک گاڑی آ کر رُکی۔ اس میں سے ایک صاحب اترے اور گاڑی سے ٹھنڈے پانی کی بوتلیں نکال کر ہمیں پکڑا دیں۔ کچھ مزید آگے بڑھے تو پیچھے سے پھر ایک اور گاڑی نے ہمارے پہلو میں آ کر بریک لگائی۔ اس سے بھی ایک صاحب باہر آئے اور انہوں نے گرما گرم تازہ بریانی کے بند پیکٹ ایک ایک کر کے ہمیں تھما دئیے۔ پیارے نبی ﷺ کے مقدس شہر کے باسیوں کی میزبانی اور مہمان داری کے بارے میں سنا ہوا تو تھا لیکن اس کے اتنی جلدی اور اس انداز میں آنکھوں کے سامنے آ جانے کی شاید توقع نہیں تھی۔ شکر گزاری کے انداز کے ساتھ ہم پانی کی ٹھنڈی بوتلیں اور بریانی کے پیکٹ سنبھالے بائیں سمت آگے چلتے گئے ۔ پہلے ایک خالی پلاٹ جس میں کچھ پرانی گاڑیاں اور عمارتی ملبہ وغیرہ پڑا ہوا تھا میں سے ہو کر گزرے ۔ پھر بائیں ہاتھ بلند و بالا اور کشادہ عمارت جس میں ایک ہوٹل اور نیچے دکانیں وغیرہ تھیں، اس کے پہلو سے گزر کر ایک سر سبز پلاٹ جس میں گھاس اُگی ہوئی تھی اور سیکڑوں کی تعداد میں کبوتر دانہ دُنکا چگ رہے تھے میں سے ہوتے ہوئے پھر بائیں ہاتھ ایک اور ہوٹل کی عمارت کے سامنے سے گزر کر ذرا دائیں ہو کر سڑک پار کی تو ہم مسجد نبوی ﷺ کے جنوبی یا کسی حد تک جنوب مشرقی سمت میں بنے بیرونی گیٹ نمبر365 کے سامنے پہنچ گئے۔ گیٹ میں داخل ہوئے تو مسجد نبوی ﷺ کے میناروں کے ساتھ گنبد خضراء اپنے نورانی جلوئوں سیمت ہمارے سامنے تھا۔ ہماری نگاہیں گنبدِ خضراء اور مسجد
نبوی ﷺ کے میناروں پر جڑی تھیں۔ چاروں خواتین اور واجد اور عمران کے ذوق و شوق اور والہانہ پن کی کیفیت دیدنی تھی کہ آقائے دو جہاں ﷺ کے حضور حاضری کی سعادت نصیب ہو رہی تھی۔ میری حالت کیا تھی، سچی بات ہے دل کچھ وسوسوں میں ڈوبا ہوا تھا کہ میں بندہ گناہ گار حضورِ اقدس ﷺ میں لطف و کرم اور عفو و در گزر کی درخواستیں اور التجائیں کیسے کر سکوں گا۔ جب کہ میرے وجود کا انگ انگ خطائوں ، کوتاہیوں، نا فرمانیوں اور حکم عدولیوں سے اَٹا ہوا ہے۔ میری حالت کچھ ایسی ہی تھی جس کا مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام میں حاضری اور خانہ کعبہ کے طواف کے دوران کچھ سامنا رہا کہ رو رو کر دعائیں اور التجائیں کرنے اور اپنے گناہوں اور لغزشوں کی معافی مانگنے کے بعد دل کو کچھ سکون حاصل ہوتا رہا۔ تاہم اس خیال سے دل میں امید کی کرن روشن ہو رہی تھی کہ حضور ﷺ رحمت اللعالمین ہیں، شفیع المذنبین ہیں، ساقی کوثر ہیں، سراپا عفو و در گزر ہیں، وہ اپنے ایک خطا کار اور گناہ گار اُمتی کو اپنے لطف و کرم اور نظرِ عنایت سے محروم نہیں رکھیں گے۔
دل میں خیالات کی یہ رو چل رہی تھی اور ہم آگے بڑھ رہے تھے۔ ہمارے سامنے اور بائیں ہاتھ پلاسٹک کے ریلنگ نما خوبصورت جنگلوں یا رکاوٹوں کے ذریعے کئی احاطوں اور حصوں میں تقسیم کیا گیا مسجد نبوی ﷺ کا جنوبی سمت کا وسیع صحن دور تک پھیلا ہوا تھا۔ اس کے مختلف حصوں میں سایہ کے لیے مسجد نبوی ﷺ کی مخصوص پہچان کی حامل اونچی اور چوڑی خوبصورت چھتریاں کُھلی ہوئی تھیں تو ان چھتریوں کے ستونوں کے ساتھ جُڑے بڑے بڑے بھاری جسامت کے گول بجلی کے پنکھے دو طرفہ (سامنے اور پیچھے) ٹھنڈی ہوابکھیر رہے تھے جس سے گرمی کی شدت میں کمی محسوس ہوتی تھی۔ ہمارے دائیں ہاتھ ایک اونچی دیوار جس کی بیرونی طرف ایک ڈھلانی راستہ ذرا اونچی جگہ پر بنے گیٹ تک جاتا ہے دکھائی دے رہا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ مدینہ منورہ کے تاریخی قبرستان جنت البقیع کی مغربی دیوار ہے۔
ہم گیٹ نمبر 365 جس سے مسجد نبوی ﷺ کے صحن میں داخل ہوئے تھے۔ اس کی سیدھ میں آگے بڑھتے گئے۔ ہمارا رُخ ایک طرح سے جنوب سے شمال کی طرف تھا۔ مردوں کے لیے نماز کے پہلے احاطے سے گزر کر آگے نکلے تو بائیں ہاتھ مسجد نبوی ﷺ کی وسیع و عریض اور دور تک پھیلی ہوئی مرکزی عمارت کے مشرقی دروازوں کے سامنے سے گزرتے ہوئے ہم 23نمبر دروازے کے سامنے پہنچ گئے ۔ کچھ فاصلے پر کونے میں خواتین کی نماز ادا کرنے کا اس سمت کا پہلا بیرونی احاطہ شروع ہو جاتا ہے۔ ہم نے خواتین کو اس احاطے میں پہنچ کر نمازیں ادا کرنے یا اس سے ملحقہ دروازوں سے مسجد نبوی ﷺ کی مرکزی عمارت کے اندار داخل ہو کر خواتین کے لیے مخصوص احاطے میں نماز ادا کرنے کی تاکید کی اور ساتھ ہی ان کو یہ بھی بتایا کہ اپنے ہوٹل واپس جانے کے لیے ہمارا ان سے رابطے یا ان کا ہم سے رابطے کا مقام مسجد نبوی ﷺ کا بیرونی گیٹ نمبر 365ہے ، جہاں سے آج ہم مسجد نبوی ﷺ کے بیرونی صحن میں داخل ہوئے تھے۔
ہم (میں ، عمران اور واجد) نے مسجد نبوی ﷺکے اندرونی گیٹ نمبر23 جس کے سامنے ہم کھڑے تھے کے باہر جوتوں کے رکھنے کے لیے بنائے گئے سٹینڈ میں اپنے جوتے رکھے اور مسجد نبوی ﷺ کی مرکزی عمارت کے اندر داخل ہوگئے ۔ ہمارے سامنے مسجد نبوی ﷺ کی نور کے ہالے میں لپٹی ہوئی خوبصورت، شاندار، روشن اور چمکدار اندرونی عمارت کے انتہائی پر شکوہ، مرصع، آراستہ و پیراستہ ستون اور خوبصورت محرابیں قطار در قطا ر دور تک پھیلی نظر آ رہی تھیں۔ بلا خوف ِ تر دید یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسجد الحرام مکہ مکرمہ کے ستون اور محرابیں ہوں یا مسجد نبوی ﷺ مدینہ منورہ کے ستون اور محرابیں ہوں ، ان کا کوئی ثانی نہیں۔ اتنے خوبصورت ، اتنے پر وقار، اتنے مضبوط اور اتنے کثیر الجہت استعمال کے حامل ستون اور ان پر بنی پر کشش محرابیں اپنی مثال آپ ہیں۔ لگتا ہے کہ بنوانے اور بنانے والوں نے ان کی تعمیر اور آرائش و زیبائش میں کمال ہی نہیں کیا بلکہ دل کھو ل کر رکھ دئیے ہیں ۔ یقینا میرے پیارے نبی ﷺ کی مسجد کی ایسی شان ہونی چاہیے۔ بلا شبہ اس کا تقدس ، اس کی فضیلت، اس کی حرمت ، اس میں عبادت کا ثواب، اس میں روضہ اقدس ﷺ پر حاضری اور درود و سلام کی لذت اور عقیدت و احترم اور محبت اور عاجزی کا اظہار یہ سب پہلو ایسے ہیں کہ جن کو الفاظ میں تولا نہیں جا سکتا لیکن ان کے ساتھ میرے پیارے نبی ﷺ کی مسجد کی ظاہری شان و شوکت ، عظمت و وسعت اور خوبصورتی اور حسن بھی ایسا ہے کہ جس کا دنیا کی کوئی عمارت مقابلہ نہیں کر سکتی۔ (جاری ہے)