12 ویں صدی قبل مسیح میں یونان کے بادشاہ کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی تو شہزادے کا نام اقلیس Achilles رکھا گیا۔ ایک نجومی نے کہا کہ اقلیس ایک جنگ میں دشمن کے تیر سے مارا جائے گا جس پر اس کی ماں بہت رنجیدہ ہوئی۔ زمانے کے سکہ بند ماہرین نے شہزادے کی ماں کو کہا کہ اگر وہ بچے کو فلاح وقت فلاح دریا کے پانی میں ڈبکی لگوا دے تو اس پر تیر کا اثر نہیں ہو گا یہ ایک بلٹ پروف نسخہ تھا اس کی ماں اسے دریا پر لے گئی بچے کو ایک پاؤں کی ایڑی سے پکڑ کر پانی میں ڈبکی لگوائی اور واپس لے آئی اس عمل میں بچے کی ایک ایڑھی پانی میں بھیگنے سے بچ گئی کیونکہ وہ ماں کے ہاتھ میں تھی شہزادہ جب بڑا ہوا تو واقعی اس کے جسم پر تیر تلوار بے اثر رہتے تھے اس لیے وہ ہر جنگ میں شریک ہوتا تھا اور زندہ واپس آجاتا تھا۔
تاریخ میں Trojan War یونان کی بڑی مشہور جنگ ہے اس وقت اقلیس یونان کا بادشاہ تھا وہ جنگ میں شریک تھا اس کے دشمن Paris of troy (پیرس کمانڈر کا نام ہے) نے ایک ایسا تیر مارا جو بادشاہ اقلیس کی اس ایڑی میں لگا جو پیدائش کے وقت پانی میں ڈبکی لگوانے کے دوران خشک رہ گئی تھی۔ اسی تیر سے بادشاہ کی موت واقعہ ہو گئی یوں دونوں نجومیوں کی پیش گوئیاں اپنی اپنی جگہ پر سچ ثابت ہو چکی تھیں جس کی وجہ سے یونانی اور انگریزی ادب میں Acrilles قطعی غیر محفوظ ہے۔
آئین پاکستان میں ہونے والی حالیہ ترمیم کے ذریعے حکومت نے اپنے آپ کو بلٹ پروف بنانے کے لیے جس یونانی دریا میں ڈبکی لگائی تھی وہ انہیں مطلوبہ تحفظ دینے سے قاصر نظر آتی ہے۔ جس کی وجہ سے پہلے سے زیادہ تیز رفتاری سے ایک اور ترمیم لانے کا عندیہ دیا جا چکا ہے۔ مہم جوئی میں مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ جب آپ اپنی چال چل لیتے ہیں تو اس کے نتائج آپ کو بعد میں سامنے آتے ہیں۔
ہماری فوج میںیہ روایت ہے کہ جب کسی جونیئر جرنیل کو آرمی چیف لگایا جاتا ہے تو اس کے سینیئر جتنے جرنیل ہوتے ہیں وہ نوکری سے استعفیٰ دے کر گھر چلے جاتے ہیں۔ حکومت نے جب دو تہائی اکثریت سے چیف جسٹس کے تقرر اکا اختیار اپنے ہاتھ میں لیا تو ان کا خیال تھا کہ آرمی کی طرح عدلیہ میں بھی سینئر ترین دونوں جج صاحبان جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر اپنے سے جونیئر جج جسٹس یحییٰ آفریدی کے چیف جسٹس بننے پر گھر چلے جائیں گے اور حکومت کے راستے کے سارے کانٹے از خود کسی نوک سوزن کے بغیر نکل جائیں گے لیکن یہ معاملہ حکومت کے لیے اقلیس کی ایڑی ثابت ہوا۔ دونوں جج صاحبان نے روایت قائم کر دی کہ وہ جسٹس یحییٰ آفریدی کو اپنے اوپر اس لیے قبول کرتے ہیں کہ یہ ایک آئینی تقاضا ہے یہ ایک جمہوری اور آئینی سوچ تھی جس سے ایک اچھی روایت قائم ہوئی۔
لیکن بات یہاں تک ہی رہتی تو بھی گوارا کی جا سکتی تھی یہاں تو معاملہ مکمل طور پر حکومت خیالی تانے کے بالکل برعکس ہو گیا نئے چیف جسٹس کا اعلان ہوتے ہی دو تین کام ایسے ہو گئے کہ حکومت یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ 26ویں ترمیم کے باوجود ان کی امیدوں پر پانی پھر گیا ہے۔ عمران خان کی دونوں بہنوں کو رہا کر دیا گیا اسی دوران بشریٰ کی ضمانت بھی ہو گئی اور تیری اور سب سے اہم پیشرفت جو ہوئی وہ حکومت کے لیے ایک طرح کا پیغام تھا کہ نئے چیف جسٹس میرٹ اور انصاف کے بالادستی کے لیے کسی احسان مندی پر یقین نہیں رکھتے بلکہ انصاف بمطابق قانون پر عمل پیدا رہیں گے وہ یہ تھا کہ انہوں نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں سینئر ترین ججوں منصور علی شاہ اور منیب اختر کے نام بحال کر دیئے جسٹس منیب اختر کا نام جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نکال دیا تھا۔
اب حکومت کے گھر میں خطرے کی گھنٹیاں تھمنے کا نام نہیں لے رہیں کیونکہ انہیں اب صاف نظر آ رہا ہے کہ نوزائیدہ آئینی بنچ کی تشکیل میں اگر چیف جسٹس نے ان دونوں جج صاحبان کو شامل کر لیا تو الیکشن 2024ء سے متعلق مقدمات جب ان کے سامنے آئیں گے تو وہ مقدمے حکومتی منتخب ممبران کے خلاف اتنا بھاری بھر کم وزن رکھتے ہیں کہ انہیں ڈیفنڈ کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہو گی۔ گویا حکومت کے لیے وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔
اب پتہ چلا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کس قدر عجلت میں منظور کرائی گئی تھی کہ کہیں ایسعا نہ ہو کہ جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس نہ بن جائیں۔ حکومتی بوکھلاہٹ کا یہ عالم ہے کہ رانا ثناء اللہ سرعام کہہ رہے ہیں کہ مذکورہ دونوں جج صاحبان کو ان کمیٹیوں میں نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہ Biased ہو چکے ہیں۔ مگر جب تحریک انصاف کہتی تھے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ہمارا مقدمہ نہیں سننا چاہیے کیونکہ وہ ہمارے خلاف grudge رکھتے ہیں تو قاضی صاحب پھر بھی عدالت میں ان کے خلاف ڈٹ کر حکم سناتے تھے۔ اس ساری تصویر کشی پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔
لاہور میں وزیراعظم شہباز شریف اور بلاول بھٹو کی ملاقات کی خبر جب جنگل کی آگ بنی تو سب سے پہلے مولانا فضل الرحمان کا بیان آیا کہ ہم 27 ویں ترمیم میں ان کا ساتھ نہیں دیں گے اب ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی سینئر قیادت ماسوائے شریف خاندان اور زرداری خاندان سب اپنے تئیں شرمندہ شرمندہ ہیں کیونکہ اصل بات کا کسی کو کچھ پتہ نہیں اور نہ انہیں بتایا جاتا ہے انہیں اس وقت بتایا جائے گا جب 27 ترمیم پر ووٹ ڈالنے اور لابنگ کرنے کی ضرورت پیش آئے گی۔