ہماری جمہوریت پسند حکومت جو دشوار گزار راستوں سے گزر کر آئی ہے نے انتہائی دوڑ دھوپ کے بعد آئینی ترامیم کر لی ہیں لہٰذا انہیں گزشتہ ادوار بالخصوص پچھلے دو تین برس کی تکالیف و مشکلات کو بھول جانا چاہیے مگر ہمارے دوست جاوید خیالوی اس سے اتفاق نہیں کرتے۔وہ کہتے ہیں آپ کی خوش گمانی خود کو تسلی و دلاسہ دینے کے سوا کچھ نہیں کیونکہ ان ترامیم میں دْور دْور تک عوامی مفاد کی کوئی شق موجود نہیں۔ یہ تو اقتدار والوں نے اپنے لئے سب کیا ہے تاکہ وہ راحت پائیں اور ملک کی سب سے بڑی جماعت کے ’’شر‘‘ سے محفوظ رہیں۔قانون کو اپنے مطابق استعمال میں لائیں اس سے بہتر طور سے مستفید ہو ں۔ لیکن ایسا نہیں ہو گا کہ آئین و قانون جہاں ان کے مفادات کو دیکھیں گے وہاں عوام کے حقوق کو بھی نگاہ میں رکھیں گے کیونکہ اب خلیل خاں کے فاختہ اڑانے کے دن نہیں رہے۔ اگرچہ آپ میرے اس موقف سے اتفاق نہیں کریں گے مگر یہ حقیقت ہے کیونکہ ہماری اجتماعی زندگی نے بڑے نشیب و فراز دیکھے ہیں صدمے برداشت کیے ہیں لہٰذا جس طرح اب موسم پہلے والے نہیں رہے اس طرح ہمارے جیون کا موسم بھی یہ نہیں رہے گا‘ بدلے گا بلکہ بدل رہا ہے۔ پوری دنیا میں تبدیلی کے جھکڑ چل رہے ہیں خیالات کی چلمن کو تازہ ہوا کے جھونکے چھو رہے ہیں لہٰذا اب جو بھی بدلنا ہے آئینی ترامیم سے نہیں عوامی جد وجہد سے بدلنا ہے اور اس کا آغاز ہوا چاہتا ہے ‘‘۔
جاوید خیالوی ہمیشہ کوئی نہ کوئی نئی بات کرتے ہیں ان کا یہ کہنا کہ اب جو بھی بدلنا ہے عوامی جد وجہد سے بدلنا ہے اس سے اتفاق کیا جا سکتا ہے مگر اس کے لئے طویل سفر طے کرنا ہو گا فی الحال ہمیں انحصار کی سیاست پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا یعنی کہ ہماری سیاست ابھی تک آزاد نہیں ہو سکی اسے مجبوریوں اور مصلحتوں کی آکاس بیل نے گھیر رکھا ہے مطلب یہ کہ واشنگٹن اس میں مسلسل ’’دلچسپی‘‘ لے رہا ہے ۔ماضی بعید میں یہاں کی حکومتیں اس کی آشیرباد سے ہی بنتی رہی ہیں اور اس کا جب مزاج بدلا یا اس کا ان سے جی بھر گیا تو پھر سیاسی منظر نامہ بھی تبدیل ہو گیا لہذا عین ممکن ہے کہ موجودہ سیاسی صورت حال بھی بدل جائے ؟ جس کا قوی امکان بھی ہے اس کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ آئندہ امریکا کے عام انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ اس کے صدر بن سکتے ہیں اور ان کی پالیسی مختلف ہو گی لہذا یہاں بھی سیاسی موسم بدل سکتا ہے اور خیالوی نے بھی اسی تناظر میں ہی کہا ہے مگر ملفوف انداز میں۔
بہرحال ہم اس طرز تبدیلی کو صحیح نہیں کہہ سکتے کیونکہ مغرب پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا گزرے ہوئے وقت میں اس کا رویہ اور پالیسیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اس کی آشیر باد ہی سے ہمارے شہ دماغ ہم سے بچھڑ گئے لہذا سوال یہ ہے کہ ہم آپس میں بیٹھ کر کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے مل جل کر نہیں چل سکتے اور یہ طے نہیں کر سکتے کہ ہمیں صرف اور صرف ملک وقوم کے لئے ہی سوچنا ہے انہیں ترقی یافتہ بنانا ہے ماضی میں مغرب کی آشیر باد سے کیا حاصل ہوا ؟ معیشت برباد ہو گئی بنیادی صنعتیں قائم نہیں ہو سکیں لہذا قرضوں کے سہارے زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے اور وہ قرضے آج ہماری سانسیں بے ترتیب کر رہے ہیں ان کی ادائی کے لئے نئے نئے ٹیکس لگائے جا رہے ہیں جس سے عام آدمی کے ہوش اڑ رہے ہیں۔ بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔آئینی ترامیم ہو چکی ہیں اس کے باوجود حلقہ بزم آس و امید مطمئن نہیں اسے دوججز کے استعفے نہ دینے پر حیرت ہے اور اداسی بھی کہ اس نے سوچا کچھ تھا ہو کچھ اور گیا۔ ان کے نزدیک شاید ان دونوں جج صاحبان کی موجودگی میں راہیں ہموار نہیں ہو سکیں گی کہ وہ اپنے اختیارات لازمی استعمال کریں گے ؟۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے پی ٹی آئی سے مزاکرات کرے اب جبکہ ان کے لیڈر بلکہ مرشد کو زنداں میں ڈال رکھا ہے تو وہ اس سے ٹوٹ کر محبت کا اظہار کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ زنداں میں ڈالنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا اس سے لوگوں میں ایک تڑپ پیدا ہوئی ہے محبت کا ایک چشمہ پھوٹ پڑا ہے یہ درست ہے کہ خان نے اپنے دور اقتدار میں نواز شریف کو زچ کرنے کی کوشش کی مگر وہ عوام کی ہمدردی کے جذبات نہیں سمیٹ سکے تھے جبکہ عمران خان کو سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے پر لوگوں نے انہیں اپنے دل میں بسا لیا۔
بہرحال ہم پہلے بھی اپنے ایک کالم میں عرض کر چکے ہیں کہ آئینی ترامیم سے چند بڑوں کو تو فائدہ ہو سکتا ہے عوام کو نہیں۔ سوال پھر یہ ہے کہ کیا اس اقدام سے حکمران جماعتوں کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے ایسا نہیں ہوا مگر انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا کہ وہ تو پہلے بھی مقبول عام نہیں تھیں مگر حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئیں یہ کیسے ہوا ؟ یہ بتانے کی ضرورت نہیں اور اسی لئے ہی اسے آئینی ترامیم کرنا پڑی ہیں مگر اس سے کیا ہو گا کیونکہ اس عمل سے عام مسائل حل ہوتے نظر نہیں آرہے۔ جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آتا کتنی ہی ترامیم کر لی جائیں اور اربوں ڈالر کی بارش بھی ہو جائے معاشی بحالی نہیں ہو سکتی لہذا گزارش ہے کہ عوام پاکستان کی خواہشوں امنگوں اور آرزوؤں کا احترام کیا جائے انہیں اقتدار میں لائے بغیر بحرانوں سے نجات حاصل کرنا ممکن نہیں لہٰذا جو عقل کْل یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ لوگوں کو اپنے مخصوص طرز عمل سے اپنا گرویدہ بنا لیں گے اور ” سٹیٹس کو‘‘ کو طویل عرصہ تک قائم دائم رکھ سکیں گے وہ کسی خوش فہمی میں مبتلا ہیں لہذا وہ ملک کی سب سے بڑی جماعت کو ملکی سیاست میں مکمل طور سے اپنا کردار ادا کرنے کے حوالے اپنے فیصلوں کو نئے سرے سے دیکھیں کیونکہ مغرب ‘ خان کو آشیر باد دے سکتا ہے جسے ہم مناسب نہیں سمجھتے مگر ایسا ہوتا ہے تو یہ جو آج ہے کل بدل جائے گا؟۔