ایس سی او، آئینی ترامیم، بنگلہ دیش ماڈل ہنگامے

اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس کے بخیر و خوبی اختتام اور دنیا بھر میں پاکستان کا سافٹ امیج اجاگر ہونے کے فوری بعد 26 ویں آئینی ترمیم درد سر بن گئی۔ قدم قدم پر ڈیڈ لاک، حکومت کا دعویٰ ترمیم کی منظوری کے لیے نمبر پورے ہیں۔ گنتی کرنے والوں نے دعوے کی تردید کر دی، انگلیوں پر گن کے بتایا کہ مولانا فضل الرحمان کی مدد کے باوجود قومی اسمبلی میں منظوری کے لیے درکار 224 ارکان کی تعداد پوری نہ ہو سکے گی۔ نمبر پورے ہوتے تو مولانا اتحادی حکومت کو تگنی کا ناچ نہ نچاتے۔ مولانا زیرک نہیں شاطر سیاستدان ثابت ہوئے انہیں روز اول سے اپنے 8 ارکان اسمبلی اور 5 سینیٹرز کی اہمیت کا اندازہ تھا۔ اسی لیے انہوں نے پی ٹی آئی سے رابطوں کا سلسلہ آخر وقت تک قائم رکھا۔ وکٹ کے چاروں طرف کھیلے اور ترمیم میں مجوزہ وفاقی آئینی عدالت کی جگہ آئینی بینچ بنانے پر بلاول بھٹو کو منانے میں کامیاب ہو گئے۔ بلاول برخوردار مروت لحاظ سے مان گئے۔ حالانکہ آئینی عدالت بلاول بھٹو کے بقول قائد اعظم کا خواب، بے نظیر شہید کا عہد اور پی پی سمیت پوری اتحادی حکومت کی مجبوری تھی۔ مولانا نے 5 گھنٹے میں بلاول کو رام کر لیا۔ مجبوری معذوری بن گئی۔ بلاول نے 70، 72 بلکہ 74 سالہ ’’بابوں‘‘ سے مدد چاہی۔ مولانا ہنستے مسکراتے پُر اعتماد چہرے کے ساتھ لاہور میں جاتی امراء پہنچ گئے۔ نواز شریف کے پُر تکلف عشائیہ میں شرکت کی (نمک حلالی شرط نہیں تھی) صدر زرداری، نواز شریف، شہباز شریف جیسے جہاندیدہ تجربہ کار ’’بابے‘‘ مولانا کے مد مقابل تھے۔ پانچ گھنٹے مذاکرات ہوئے مگر وائے ناکامی ’’بابے‘‘ بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئے۔ وفاقی آئینی عدالت کی جگہ آئینی بینچ پر اتفاق رائے جمہوری کا کرشمہ 8 ارکان والے مولانا مین آف دی میچ قرار پائے۔ ’’غنیمت جان لو مل بیٹھنے کو، قیامت کی گھڑی سر پر کھڑی ہے‘‘ 25 اکتوبر سے پہلے ترامیم منظور نہ ہوئیں تو حکومت کو اپنے انجام کا ادراک، خواجہ آصف نے خدشے کا اظہار کیا کہ سہولت کار 12 جولائی کے فیصلے کو بنیاد بنا کر 8 فروری کے الیکشن کو کالعدم قرار دے دیں گے۔ سپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان نے سازش کا بھانڈا پھوڑ دیا کہ ہمارے پاس ثبوت موجود ہیں کہ پی ٹی آئی کے لیڈروں سے کہا گیا کہ وہ اکتوبر کے فوری بعد نئے الیکشن کی تیاری کریں۔ وفاقی آئینی عدالت کیوں ضروری تھی؟ معاف کیجئے شاہراہ دستور پر سفید سنگ مرمر کی عمارت میں موجود مخصوص مائنڈ سیٹ کے سہولت کار کھل کھیلے بلکہ انصاف کے طلب گاروں کو ڈنک مارنے سے بھی باز نہ آئے۔ بد قسمتی، عدل کے معزز و محترم ایوانوں میں مجرموں کو گڈ ٹو سی یو کہے جانے کا رجحان فروغ پا جائے تو اوپر بیٹھے لوگ کیا کریں۔ مولانا کی جماعت میں شامل ایک نو وارد وکیل نے دلیل دی کہ 28+148 مقدمات کے لیے آئینی عدالت کی کیا ضرورت ہے۔ محترم یہ حقیقت فراموش کر بیٹھے کہ گزشتہ دو سال میں ایک ہی پارٹی اور اس کے سربراہ سے متعلق 2 ہزار سے زائد درخواستیں دائر کی گئیں۔ فوری نمبر لگے اور دس منٹ میں سہولت کار، آئندہ تین سال میں مزید 3 ہزار درخواستیں دائر ہوں گی۔ آئینی عدالت بن جاتی تو نمبر لگنے میں تاخیر کے سبب درخواستوں میں کمی ہوتی جبکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس 60 ہزار سے زائد فوجداری مقدمات میں توجہ دے سکتے تھے۔ مولانا نے یہ کوشش ناکام بنا دی، پی ٹی آئی کے سوا تمام سیاسی پارٹیوں کے مسودے سامنے آ گئے۔ خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے کئی اجلاسوں کے بعد 26 ویں آئینی ترمیم میں شامل 24 ترامیم کو آخری شکل دے دی۔ آئینی بینچ کے چیف جسٹس کا تقرر 3 سال کے لیے ہو گا۔ اس کے فیصلوں کو کسی فورم پر چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ بینچ کے 5 ارکان ہوں گے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر تین سینئر ججوں میں سے کیا جائے گا۔ جج اپنی کارکردگی کے سلسلے میں پارلیمنٹ کو جوابدہ ہوں گے۔ 63A میں کارروائی کا اختیار پارٹی سربراہ کو دے دیا گیا۔ تاہم منحرف ارکان ووٹ دے سکیں گے اور ان کے ووٹ شمار بھی ہوں گے۔ آرٹیکل 184 میں ترمیم کے ذریعہ چیف جسٹس کا سوموٹو اختیار واپس لے لیا گیا۔ اسی لیے آئین کی تشریح کا اختیار بھی پارلیمنٹ کو ہو گا۔ تمام ترامیم منظوری کے لیے پی ٹی آئی نے مسودہ نہیں دیا عین موقع پر جب وفاقی کابینہ سے منظوری لی جانی تھی پی ٹی آئی رہنمائوں نے خان سے ملاقات کی شرط عائد کر دی۔ کب ملاقات ہو گی خان گالیاں دیں گے یا مسودے کے بارے میں ہدایات، ہدایات کی صورت میں مسودے کا ڈرافٹ تیار ہو گا۔ مشاورت ہو گی مسودہ فائنل ہو گا۔ اس وقت تک 25 اکتوبر گزر جائے گا۔ اس مرحلہ پر 8 ججوں نے اپنے فیصلے پر عملدرآمد کے سلسلے میں دوسری یاد دہانی کرا دی کہ مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دی جائیں۔ الیکشن کمیشن نے پارلیمنٹ اور سپیکر کے خطوط پر عملدرآمد کرتے ہوئے فیصلہ دیا تو حکومت کے پاس 234 کی اکثریت ہو جائے گی۔ پارلیمنٹ ہائوس میں دن بھر چکر لگانے والے واقفان حال کا کہنا ہے کہ حکومت ہر صورت 21 اکتوبر تک ترامیم منظور کرا لے گی۔ اوپر والوں کی بھی یہی مرضی ہے۔ اختیارات اور طاقت یکجا ہے ایسے میں امکان ہے کہ مولانا جھکتے ہوئے پلڑے کا ساتھ دیں گے۔ سب کچھ نہ ہو سکا تو حکومت کو اپنے مستقبل قریب کے بارے میں جلد ہی سوچنا ہو گا۔
رنگ میں بھنگ ڈالنا پی ٹی آئی کا وتیرہ، شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس کے موقع پر ن لیگ سے بھاگے شیخ وقاص اکرم نے خان سے ملاقات کی شرط لگا کر کھیت میں کھڑے ہو کر ڈی چوک میں دھرنے کی کال دے دی۔ کانفرنس کے دوران باقی رہنمائوں کو بڑی مشکل سے دھرنے کی کال واپس لینے پر آمادہ کیا گیا۔ اس دوران سوشل میڈیا پر خان کو زہر دینے (خدانخواستہ) انتقال کرنے، وصیت لکھنے کی جھوٹی اور بے بنیاد خبریں چلائی گئیں۔ حکومت کو کانفرنس کے دوران ہی پمز کے ڈاکٹروں کو جیل میں معائنہ کے لیے بھیجنا پڑا۔ جنہوں نے رپورٹ دی کہ خان ہشاش بشاش ایک گھنٹہ ورزش کر کے فارغ ہوئے تھے۔ جھوٹ بولنے والوں پر لعنت اسی دوران لاہور کے ایک نجی کالج میں کسی نامعلوم لڑکی پر نامعلوم گارڈ کی نامعلوم زیادتی کو بنیاد بنا کر کالجوں اور یونیورسٹیوں کے معصوم ذہن طلبہ کو سڑکوں پر لایا گیا۔ ان کے پیچھے مبینہ طور پر پی ٹی آئی کے واریئرز تھے جنہوں نے جی بھر کر توڑ پھوڑ کی عمارتوں کو آگ لگائی۔ آگ پھیلتی رہی لڑکی مل سکی نہ زیادتی کرنے والا مجرم، فساد پھیل گیا۔ پھیلانے والوں میں امریکہ میں بیٹھے شہباز گل اور پاکستان میں موجودہ مخصوص مائنڈ سیٹ کے نام نہاد صحافی اینکر پرسنز اور ڈالروں کی خاطرفیک نیوز پر دھواں دھار تبصرے کرنے والے ویلاگر شامل تھے۔ آگ لاہور سے گوجرانوالہ، فیصل آباد، گجرات اور راولپنڈی تک پہنچ گئی۔ لاہور میں 24 اور پنڈی میں 380 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ بنگلہ دیش ماڈل فسادات کو پھیلانے والا وکیل بھی پکڑا گیا۔ مگر سہولت کاروں نے اسے بری کر دیا۔ گرفتار طلبہ میں سے بھی بیشتر کی ضمانت ہو گئی۔ وفاقی آئینی عدالت کی ضرورت محسوس کی جاتی رہے گی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز انتہائی خلوص اور انہماک سے ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد کر رہی تھیں۔ قوم یوتھ نے فساد برپا کر دیا۔ وزیر اعلیٰ نے پریس کانفرنس میں واضح طور پر چیلنج کیا کہ جس سے زیادتی ہوئی اسے لائو کوئی جواب نہ ملا۔ زرتاج گل کی بہن شبنم گل اور مبینہ لڑکی بھی موجود تھی لڑکی نے لا علمی ظاہر کی، شبنم گل نے مجبوری، تحقیقاتی کمیٹی نے پوری کہانی کو سازش قرار دیا۔ پی ٹی آئی یا خان کو ان ہتھکنڈوں سے کیا حاصل ہو گا، جمہوریت رہی تو سختی بڑھے گی مارشل لاء لگا تو سختی میں اضافہ ہو گا۔