بلا عنوان

وطن عزیز میں آئینی ترامیم جوکہ میرے نقطہ نظر کے مطابق بالکل درست ہیں بلکہ بعض راہنماؤں کی سیاسی رنگ بازی کی وجہ سے ادھوری رہ گئیں جو سیاست دان نہیں صرف رنگ باز ہیں ڈرامہ گیر، مفاد پرست اور دھرتی کا بوجھ ہیں۔
میاں نوازشریف کا دور تھا۔ چوہدری شجاعت حسین وزیر داخلہ تھے۔ اعلان ہوا کہ فلاں تاریخ کے بعد ملاوٹ کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے گا۔ اس فلاں تاریخ سے پہلے اکبری منڈی لاہور اور اس کے بعد اجناس کی دیگر منڈیوں میں ہڑتال ہوگئی، مارکیٹیں بند ہو گئیں۔ یہ یاد رہے کہ ملاوٹ کے خلاف قانون پہلے ہی موجود تھا لہٰذا اعلان کی ضرورت ہرگز نہ تھی۔ سیدھا سادہ پہلے سے موجود قانون پر سختی سے عمل شروع کر دیا جاتا تو قانون کی عملداری سے ملاوٹ کو بالکل ختم نہیں تو بہت حد تک ختم کیا جا سکتا تھا۔ حالیہ ترامیم بلاشبہ وقت کی ضرورت ہیں اور عدلیہ سے آئین کو آزادی دلانے کے مترادف بھی اس کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ اور آئین کی سپرامیسی کے لئے نہایت ہی ضروری ہیں۔ بنیادی طور پر اس کا کریڈٹ بلاول بھٹو کو جاتا ہے۔ نجم سیٹھی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو گریٹ بھٹو صاحب سے بڑا سیاسی لیڈر سمجھتے ہیں اور اس کوشش نے ان کو اچھے بھلے تجزیہ کار سے میاں نوازشریف کا ترجمان اور حمایتی بنا دیا۔ عدلیہ کو اپنا کل محفوظ کرنے کے لئے بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ کیا ہماری عدلیہ چلتے لمحے میں اور ماضی قریب میں بری طرح اور بھرپور طریقہ سے سیاسی عدلیہ نہیں بن چکی۔ مجوزہ آئینی ترامیم کے بعد شاید عدلیہ کے غیر آئینی کردار سے چھٹکارہ حاصل ہو سکے اگر عدلیہ آئین اور قانون کی محافظ ہو جائے اگر ججز کوڈ آف کنڈکٹ کے اندر رہیں تو قانون نظر آئے گا ججز کے بیانات نہیں۔ بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ شاید ہی وطن عزیز سے زیادہ قوانین دنیا کی کسی ریاست میں ہوں مگر عملدرآمد کا عالم یہ ہے کہ صرف ٹریفک یا ملاوٹ تک کا مسئلہ تو حل نہیں کر سکے۔ چار مارشل لاء لگے، ہائبرڈ نظام آئے، نام نہاد عوامی حکومتیں آئیں، عملی طور پر عدلیہ حکمران بھی بنی رہی مگر ٹریفک تک درست نہ ہو سکی۔ آپ لاہور ہائیکورٹ کا چوک ہی لے لیں جہاں سے چیف جسٹس، چیف سیکرٹری، ہوم سیکرٹری، آئی جی پنجاب پولیس اور صوبہ بھر کے تمام اکابرین روزانہ گزرتے ہیں مگر مجال ہے کہ وہ چوک ٹریفک کے کسی اصول اور قانون کے مطابق چل رہا ہو۔ اس چوک کی بات تو اس لئے کی کہ وہ نمایاں ترین جگہ پر ہے مگر آپ کوئی سڑک کوئی بازار دیکھ لیں آپ کو ٹریفک ایک ہنگامے کی صورت نظر آئے گی۔ اس بات کا صرف اس لئے کہا کہ قوانین کے انبار ہیں اور ٹریفک تک کا نظام درست نہیں بلکہ بدترین ہوتا چلا گیا۔
اگلے وقتوں میں محاورہ تھا کہ کسی ایس ایچ او کا علاقے میں کنٹرول دیکھنا ہو تو اس کے علاقے کے چوک (یعنی ٹریفک کے حوالے) سے درست چل رہے ہوں گے مگر ان حاکموں کے لئے تو ٹریفک کے اشارے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ ان کی سواریاں تیز رفتاری سے پروٹوکول کے حصار سے لوگوں کے منہ چڑاتے ہوئے گزر جایا کرتی ہیں۔ ان کو کیا ضرورت ہے کہ یہ توجہ دیں اور ویسے بھی حاکم اور محکوم کے فرق کو مزید نمایاں کیا جا رہا ہے۔ سڑکوں پر گھروں کے سامنے تجاوزات کس کو نظر نہیں آتیں مگر تجاوزات کا رواج اختیارات کے حوالے سے اداروں میں جڑ پکڑ چکا ہو تو ایک ریڑھی بان کو بھی کوئی کیسے روک پائے گا۔ میں نے کئی بار ریڑھی والوں سے بلدیہ کینٹ اور پولیس ملازمین کو مفت بری میں بلکہ بھتہ خوری میں پھل سبزی لے جاتے دیکھا، کیا کسی ترقی یافتہ ملک میں یہ تصور بھی کیا جا سکتا ہے۔ بیوروکریسی برائی کی جڑ ہے۔ پوری دنیا میں سی ایس ایس جیسا نظام نہیں ہے سوائے ان ممالک میں جہاں گورے کا نو آبادیاتی نظام تھا۔ غلامی کا طوق گورے حاکم کے بعد کالے اور من کے کالے حاکموں نے قوم کے گلے میں ڈال دیا۔ کیا بیوروکریسی کے سرکاری محلات، محکوموں پر ہیبت طاری کرنے کے لئے بڑے دفاتر و گاڑیاں عام انسانوں کی نظر کے لئے قابل قبول ہو سکیں گی۔ جن ممالک میں معاشی مساوات ہے، قانون کا راج ہے وہاں یہ گاڑیاں پھر ٹیکسیاں چلتی ہیں جہاں کی بیوروکریسی اور حکمران طبقے خود ٹیکسیوں کی طرح چلیں وہاں پھر عوام خوار ہی ہوتے ہیں۔ سبزی، پھل فروش اور خوانچہ فروش سے لے کر اوپر تک سب کا کردار اس قدر گھناؤنا ہو چکا جھوٹ، فریب اور مکاری گھر کر چکی کہ کوئی امکان باقی نہیں کہ معاشرت انسانوں کی معاشرت میں شامل ہو سکے۔ رشوت بلا کسی جھجھک کے سیدھا سیدھا جائز کاروبار ہے۔ معاشرت اس کو اس طرح قبول کر چکی ہے کہ رشوت لینے والے کو خبر نہیں ہوتی اور دینے والا تراکیب بناتا رہتا ہے۔ رشوت دینے کے لئے تعلقات استوار رکھتا ہے لہٰذا حالیہ مجوزہ ترامیم کی طرف آ جائیں۔ پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر انتخابات ہارنے والے ایم این اے موجودہ پی ٹی آئی کے راہنما بیرسٹر گوہر کہتے ہیں کہ حکومت کے 7ارکان ہمارے ساتھ ہیں یعنی اگر کوئی حکومتی رکن پختونخوا سے ان کے ساتھ تو ضمیر کی آواز اور اگر پی ٹی آئی کا کوئی ضمیر کی آواز پر ترامیم کے حق میں ووٹ دے تو وہ بے ضمیر۔ اسد قیصر جو عمران نیازی کی ناجائز اور نااہل حکومت کے خلاف آئین کے مطابق عدم اعتماد پر یہ کہہ کر ووٹ کرانے سے انکار کر دے کہ عمران کے ساتھ میرے دیرینہ تعلقات ہیں جبکہ اس سے پہلے 40کے قریب بل آدھے گھنٹے میں گنتی کے بغیر پاس کرا دیئے وہ کس منہ سے جمہوریت کی باتیں کرتے ہیں۔ عمران نیازی کی حکومت آئین کے مطابق قائم ہوئی نہ ایک دن چلی قیامت کی علامت ہے کہ یہ قانون کی عملداری کی بات کریں۔ نعیم پنجوتھہ کہتا ہے مسودہ کہاں تیار ہوتا ہے حکومت کو نہیں پتہ مگر اس کو پتہ ہے کہ کرنل لیاقت جو عمران دور میں اسمبلی تعداد پوری کراتا تھا وہ بل کہاں تیار ہوتے تھے۔ آج تو ساری دنیا کو معلوم ہے کہ عدالتی اصلاحات سے پہلے بلاول بھٹو کی محنت کارگر ہے جس کا اعتراف نوازشریف نے بھی کیا اور نجم سیٹھی کریڈٹ دینے میں بخیل ثابت ہو رہے ہیں۔ اللہ کرے یہ آئینی ترامیم منظور ہو جائیں اور عوام کو ادارہ جاتی حاکمیت سے نجات ملے۔