آئینی ترمیم اور تحریک انصاف کی پھرتیاں

آئین میں ترمیم کرنا حکمران جماعت کا آئینی حق ہے اور آئین میں ایسا کرنے کا طریق کار بھی بتایا گیا ہے۔ پارلیمان عوام کے آدرشوں کی نمائندہ ہوتی ہے جبکہ حکومت اکثریت رائے کی نمائندگی کرتی ہے۔ پارلیمان ایک بالادست ادارہ ہے جس نے آئین تخلیق کیا ہے۔ پارلیمان، آئین کی خالق ہے اور آئین اس کی مخلوق۔ اس لئے پارلیمان آئین میں ترمیم کر سکتی ہے۔ آئین میں درج ترمیم کرنے کا طریق کار بھی تبدیل کر سکتی ہے۔ موجودہ حکومت اپنے اس حق کو استعمال کرنے جا رہی ہے لیکن کیونکہ اس کے پاس آئین میں درج مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں ہے اس لئے وہ دائیں بائیں دیکھ رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں اور شاید مثبت انداز میں پایہ تکمیل کو بھی پہنچ گئے ہیں۔ کچھ آزاد اراکین کی بھی حمایت لینے کی کاوشیں کی گئی ہیں، ایسی کاوشوں پر تحریک انصاف سراپا احتجاج ہے کیونکہ یہ آزاد اراکین، انصافی ووٹوں سے جیتے ہیں۔ حکومت شہبازشریف کی سربراہی اور پیپلزپارٹی کی حمایت سے چل رہی ہے اور دونوں جماعتوں میں جغادری قسم کے سیاست دان شامل ہیں اس لئے توقع کی جا رہی ہے کہ آئینی ترمیم کے لیے ہوم ورک ضرور کیا گیا ہوگا اور ترمیم ہو جائے گی، حکومت جو چاہتی ہے حاصل کر پائے گی۔
آئینی ترمیم کے ذریعے حکومت حاصل کیا کرنا چاہتی ہے؟ یہ سوال بہت اہم ہے اس حوالے سے سب سے زیادہ شور و غل تحریک انصاف کی قیادت بلکہ قائدین مچا رہے ہیں اور ان کا فوکس چیف جسٹس کا عہدہ ہے۔ 25تاریخ کو موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی طے شدہ مدت ملازمت اور عمر پوری کرکے ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔ موجودہ طریق کار کے مطابق سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ یہ عہدہ سنبھال لیں گے۔ یہ تبدیلی معمول کے مطابق ہونا تھی لیکن کچھ ججوں کے پروایکٹو ازم اور ضرورت سے زیادہ بلند آہنگ میں گفتگوؤں نے حکمران طبقے کو پریشان کر دیا۔ یہ بات تو طے ہی نہیں بلکہ ثابت شدہ ہے کہ کچھ جج اپنے منصب کے اعلیٰ اخلاقی اور قانونی تقاضوں کے برعکس ایک فریق کی حمایت اور دوسرے کی مخالفت کے مرتکب پائے گئے ہیں، ان کے فیصلوں، غیر قانونی اور غیر آئینی طرزفکر و عمل کے باعث نظام کی جڑیں ہلتی ہوئی نظر آئی تھیں۔ ان کے غیر آئینی فیصلے ثبوت کے طور پر موجود ہیں پھر ان کی بے لاگ اور غیر ضروری گفتگو نے ان کے تعصب کو نمایاں کر دیا ہے۔ منصور علی شاہ اچھے جج ہیں لیکن ان کی جانب داری نہ صرف ان کے کچھ فیصلوں سے عیاں ہو چکی ہے بلکہ ان کے کچھ فیصلوں سے ان کی غیر جانبداری بھی شکوک و شبہات کا شکار ہو چکی ہے۔ کسی ایک فریق کو ریلیف دینا تو چلو کہا جا سکتا ہے کہ قانون میں اس کی گنجائش تھی جسے استعمال کرتے ہوئے ایک فریق کو ریلیف دیا گیا لیکن دوسرے فریق کو رگڑا لگانے سے تو تعصب ظاہر ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ میں تو ججوں کی ایسی تقسیم اظہر من الشمس ہو چکی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نہ صرف تحریک انصاف کے لئے نرم گرم گوشہ رکھتے ہیں اور انہیں ریلیف دیتے رہے ہیں بلکہ مسلم لیگ و ہمنواؤں کے لئے تعصب اور شدید گرم گوشہ رکھنے والے پائے گئے ہیں۔ ان کا ایسا رویہ نہ صرف ان کی گفتگوؤں میں ظاہر ہوتا رہا ہے بلکہ کئی ایک فیصلے ثبوت کے طور پر بھی موجود ہیں۔ سونے پر سہاگہ عمران خان اور ان کی ذریت کی طرف سے جسٹس منصور علی شاہ کی ممکنہ چیف جسٹسی کے بارے میں والہانہ بیانات نے کر دیا ہے۔ منصور علی شاہ اپنی تمام تر خوبیوں خامیوں سمیت ایک متنازع جج بن چکے ہیں۔ تحریک انصاف کو اندازہ ہو چکا ہے کہ حکومت انہیں چیف بننے سے روکنے کی آئینی کاوش کر رہی ہے، ایسا کرنا حکومت کا حق بھی ہے۔ آئینی حق ہے منصور علی شاہ کی طرف داری کرکے تحریک انصاف نے ان کے چیف بننے کی راہ کھوٹی کر دی ہے۔ ویسے تحریک انصاف کا تاریخی ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ یہ کسی کی حمایت بھی ایسے بھونڈے انداز میں کرتی ہے کہ وہ بیچارہ اپنا جائز حق حاصل کرنے سے بھی محروم رہ جاتا ہے اور یہ کسی کی مخالفت بھی ایسے ہی بھونڈے انداز میں کرتی ہے کہ وہ حق نہ ہونے کے باوجود وہ کچھ حاصل کر لیتا ہے جو شاید عام حالات میں اسے نہ مل پاتا۔ موجودہ آرمی چیف اس کی ایک اہم مثال ہیں۔ تحریک انصاف نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ عاصم منیر آرمی چیف نہ بن پائیں لیکن ان کی مخالفت کے باوجود بلکہ ان کی مخالفت کے باعث وہ غیر معمولی حالات میں چیف بن گئے۔ قاضی فائز عیسیٰ کو تو دوڑ سے باہر کرنے کے لئے ان کے خلاف ریفرنس فائل کیا گیا لیکن اللہ کی قدرت اور قاضی فائز عیسیٰ کی استقامت نے تحریک انصاف کی کاوشوں پر پانی پھیر دیا۔ وہ چیف جسٹس بنے اور اپنے شاندار انداز میں فرائض منصبی انجام دے رہے ہیں۔ اب تحریک انصاف جسٹس منصور علی شاہ کو چیف بنتا دیکھنا چاہتی ہے لیکن ایسے لگ رہا ہے کہ وہ نہیں بن پائیں گے۔ تحریک انصاف کی حمایت
ان کے گلے پڑ چکی ہے ویسے ان کے کچھ فیصلے اور گفتگوؤں نے بھی ان کی راہ کھوٹی کی ہے مجوزہ ترمیم کے ذریعے کھیل کے نئے ضوابط طے کئے جائیں گے جن کے مطابق حکومت اپنا استحقاق استعمال کرتے ہوئے کسی اور شخص کو اس منصب پر فائز کر دے گی اور تحریک انصاف ہاتھ ملتی رہ جائے گی۔ ویسے تحریک انصاف صرف ہاتھ ہی ملتی نہیں جا رہی ہے حکومت نے انہیں کچھ اور بھی ملنے پر مجبور کر دیا ہے۔ حکومت انتشاریوں کی پشت لال کر رہی ہے اور وہ اسے ملنے پر بھی مجبور ہیں۔ ویسے حکومت انتشاریوں کے ساتھ وہ کچھ نہیں کر رہی ہے جو اسے کرنا چاہئے۔ حکومت نے ان کے ساتھ ہتھ ہولا رکھا ہوا ہے اس لئے وہ صرف ہاتھ اور پشت ملنے پر مجبور کر دیئے گئے ہیں۔ حالانکہ اپنے کرتوتوں کے باعث وہ کچھ ایسے سلوک کے مستحق ہیں کہ جس کے باعث وہ ہاتھ اور پشت کی بجائے کچھ اور بھی ملنے اور مسلنے پر مجبور ہو جائیں، وہ وقت دور نہیں ہے۔