شنگھائی کانفرنس بہترین مہمان نوازی اور کالعدم تنظیم کا جرگہ

پاکستان میں یہ ہفتہ سفارتی اور معاشی حوالوں سے شاندار رہا، ایک طرف شنگھائی کانفرنس کے انعقاد کی گہما گہمی نے ثابت کیا کہ گزشتہ برسوں میں جب پاکستان کو احساس ہو رہا تھا کہ وہ دنیا میں سفارتی تعلقات کے حوالے سے تنہائی کا شکار ہو چلا ہے، جب ہم کشمیر کی بات کرتے ہیں تو دنیا ہماری بات نہیں سن رہی اور ہندوستان کا پلڑا بھاری ہے اسلئے وہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین پامالی کر رہا ہے اور دنیا نے اپنے کانوں میں روئی اور آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی ہے، اس تنہائی کے تاثر کی ذمہ دار ہماری اندرونی سیاسی لڑائیاں تھیں اور تاحال ہم اپنے آپ کو معزز قوم کہتے ہوئے مشکلات کا سامنا کرتے ہیں، میاں شہباز شریف، عسکری قیادت، اتحادی جماعتوںکی محنتوں سے اسکے باوجود کہ ہمارے اندر کچھ علاقوں میں دہشت گرد اپنا مسکن بنائے ہوئے ہیں ایک شاندار اور کامیاب استقبالیہ دیا، شنگھائی کانفرنس کے شرکاء نے پاکستان کی میزبانی کو خندہ پیشانی سے قبول کیا اور پاکستانی وزارت داخلہ نے تمام تر محنت کے ساتھ غیر ملکی مہمانوںکو خوش آمدید کہنے کی راہ ہموارکی۔ اڈیالہ جیل میں سزاؤں کے منتظر قیدی سے ملاقاتوں پر پابندی لگا کر افراتفری والے بیانات بند کیے گئے، اسلام آباد پر چڑھائی کی دھمکی دینے والے وزیر اعلیٰ سرحد بھی چڑھائی کا انجام دیکھ چکے اور دونوں مرتبہ انہوں نے خود ساختہ غائب ہونے کا تماشا کیا۔ پی ٹی آئی کی وکلا قیادت اور وہ رہنما جو چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی توڑ پھوڑ چھوڑ کر سیاسی جماعت ہونے کا کردار ادا کرے انکی محنت سے شنگھائی کانفرنس کے دوران کسی بھی قسم کے مظاہرے سے اجتناب کرنے کا عندیہ دیا گیا جو خوش آئند اقدام ہے، مسلم لیگ ہو یا پی پی پی وہ بھی سیاسی جماعتیں ہیں اور سیاسی جماعتوں کی موجودگی جمہوریت کا حسن ہے۔ پی ٹی آئی نے کچھ شرپسندوں بشمول اسکے کپتان اور اس کی شاباشی کے شوقینوں نے عوام میں سیاسی جماعت کا تعارف ایک شرپسند اور جھوٹے وعدوں، بیرونی دنیا میں پاکستان دشمنی پر مبنی شیطانی سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان کو ایک ناکام ریاست، سیاست سے بھر پور عسکری طاقت رکھنے والا ملک ظاہرکیا، اپنی بد زبانی میں کسی کی بیٹی اور خاندان کو نہیں بخشا، حالیہ شنگھائی کانفرنس کے دورن بھی بلیک میلنگ کے طور پر کہا گیا کہ کانفرنس کے دوران میں ہم مظاہرے کرینگے، خیر وہ مظاہرے کرتے تو وزارت داخلہ انہیں کیا کرنے دیتی اور کیا نہیں یہ ایک علیحدہ بحث ہے مگر پی ٹی آئی کی امن پسند قیادت کا یہ فیصلہ کہ ہم معزز غیر ملکی مہمانوںکی موجودگی میں کوئی ’’گند‘‘ نہیں ڈالینگے، مستحسن اور قابل ستائش ہے۔ اسکا مطلب ہے کہ اس جماعت میں سب ہی 9 مئی والے نہیں جو ہیں وہ اب اس اقدام پر شرمندہ ہو کر سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ اب حکومت کا بھی فرض ہے کہ 9 کے ذمہ داران کا فیصلہ کرے، واضح ثبوت ہونے کے باوجود بھی عدالتوں سے انکی رہائی سزائوں میں ایک سال ہونے کے بعد تاخیر ہر ذی شعور کی سوچ سے بالاتر ہے۔ اس تاخیر نے مزید 9 مئی والے پیدا کیے ہیں یا انہیں حوصلہ دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے امن پسند اور سیاست کرنے کے شوقین افراد کو اب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ انہیں خندہ پیشانی سے پارلیمانی سیاست کرنے دے۔ آئینی ترامیم جو بھی ہیں اس سے عوام کو کوئی غرض نہیں انہیں کسی بھی ترمیم سے روزگار یا روٹی نہیں ملے گی، یہ ترامیم تو سیاست دان خود مستقبل میں اپنے تحفظ کیلئے کر رہے ہیں۔ پاکستان میں منعقدہ بین الاقوامی اور علاقائی کانفرنسوں کی تاریخ ملک کی عالمی سٹریٹجک اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔ اسلامی یکجہتی کانفرنسوں سے لے کر سارک اور ایس سی او کے زیرِ سایہ علاقائی اجلاسوں تک، ان تقریبات نے پاکستان کو علاقائی استحکام، اقتصادی ترقی اور عالمی سفارتکاری میں ایک اہم کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ ان کانفرنسوں کا اثر پاکستان کی خارجہ پالیسی پر مسلسل پڑتا آ رہا ہے، خاص طور پر اپنے ہمسایہ ممالک اور اہم عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے۔ کانفرنس اور شاندار استقبالیوں کی خبروں میں عوام کی نظر ہی نہیں گئی کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف مشرف دشمنی میں بھارتی صحافی کو دئیے جانے والے انٹرویو میں کیا کہہ گئے۔ انہیں اپنی وزارت عظمیٰ میں اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ کیا جانے والا اعلان لاہور یاد آ گیا اور انہوں نے کارگل حوالے سے کہہ دیا کہ پاکستان نے اس معاہدے کو توڑا جسے نہ صرف ہندوستانی میڈیا نے خوب اچھالا، بلکہ ہمارے ’’محب وطن‘‘ میڈیا نے بھی صفحہ اول پر جگہ دی، یہ ٹھیک ہے کہ اسوقت کی فوجی حکمت عملی کی وجہ سے افواج پاکستان نے 5000 میٹر کی برف سے ڈھکی پہاڑیوں میں جنگ کی اور بھارتی افواج کو دھکیل دیا، پاکستان نے ہندوستان کو عالمی دبائو میں آ کر فتح کیا جانے والا علاقہ واپس کیا اور سرتاج عزیز مرحوم نے بھارت جا کر معذرت کی، مگر بھارتی صحافی سے انٹرویو میں اگر میاں صاحب کشمیری ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیتے کہ اسکے بعد بھارت کشمیر میں جو کچھ کر رہا ہے وہ بھی تو اسی اعلان لاہور کی خلاف ورزی ہے بلکہ سنگین خلاف ورزی ہے، میاں صاحب کے ان الفاظ سے کشمیری اور پاکستان کے عوام بھی خوش ہوتے۔ شنگھائی کانفرنس اور آئینی ترامیم کے شور و غل میں تمام تر وعدوں وید کے باوجود پاکستان دشمن پشین کالعدم تنظیم کا جرگہ ہوا جس میں مجیب الرحمان کی پاکستان اور پاکستانی فوج دشمن بیانات پر مبنی تقاریر ہوئیں اس جرگے کی اجازت اور اپنے آپ کو قابو رکھنے میں رکھنے کا ذمہ وزیراعلیٰ گنڈا پور نے لیا تھا کہ ان کو جا کر منا لوں گا۔ وہاں 10 یا 20 ہزار کے مجمع میں بیٹھے کسی سیاست دان اور حکومتی فرد نے پشین کی بکواس پر اسے ٹوکا تک نہیں۔ جواب تک نہیں دیا۔ کم از کم اٹھ کر باہر ہی آ جاتے۔ کسی بھی ملک کے توڑنے کی کوئی باشندہ بات کرتا ہے تو اسے غدار کہا جاتا ہے، ہمارے ہاں پابندی ہے، ایسا نہ بولو۔ شاید یہی بات ہے کہ پی ٹی آئی کے بانی بھی شیخ مجیب کو ہیرو قرار دیتے تھے۔ اب جو جرگہ میں کہا گیا وہ تو 1947ء کے بعد سے آج تک پاکستان کو تسلیم نہ کرنے والے شکست خوردہ عناصر کہتے آ رہے ہیں۔ ملکی سلامتی کے محافظ ادارے یعنی فوج کو ان کے من پسند علاقے سے نکالنے، ڈیورنڈ لائن ختم کرنے، آرپار جانے اور تجارت یعنی اسلحہ اور منشیات سمگلنگ کی کھلی چھوٹ دینے، علاقے میں اپنی مرضی کے قوانین اور عدالتیں بنانے، اپنا لشکر تیار کرنے کا اعلان کیا علیحدگی کی سازش نہیں؟۔ یہی کچھ مشرقی پاکستان میں رچایا گیا۔ نا انصافی اورظلم کی کہانیاں گھڑ کر بنگالیوں کو گمراہ کیا گیا اب طورخم سے چمن تک اپنی من مانی، فوج کو نکالنے کی باتیں کیا ریاست کے اندر ریاست کا باغیانہ اعلان نہیں۔ جرگے میں کسی کو ہمت نہیں تھی، پاکستان کی دھرتی پر اپنا پرچم لہرائے۔ پاکستان میں رہ کر کسی کو ملک، فوج، پرچم، آئین، قانون حتیٰ کہ عوام سے نفرت کا درس دینے کی اجازت نہ دی جائے۔ اب کہاں گئے وہ لوگ اور مذہبی و سیاسی جماعتیں جو دن رات استحکام پاکستان کانفرنس کرتے نہیں تھکتیں۔ وہ ان ذہنی گمراہوں کے خلاف منہ کیوں نہیں کھولتے۔