آنکھیں بند ہیں

سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مشہور قول ہے ’’معاشرے ظلم کے ساتھ تو قائم رہ سکتے ہیں، بے انصافی کے ساتھ نہیں‘‘۔ دوسری جنگ عظیم میں بر طانوی وزیراعظم ولیم چرچل نے اپنے کسی وزیر سے جنگی حالات پر گفتگو کرتے ہوئے پوچھا: ’’کیا ہماری عدالتیں انصاف کر رہی ہیں؟‘‘ انہیں جواب ملا: ’’جی ہاں! ہماری عدالتیں انصاف پر مبنی فیصلے ہی کرتی ہیں‘‘۔ اس موقع پر وقت کی انتہائی طاقتور سلطنت کے وزیراعظم نے بہت بڑا اور تاریخ ساز جملہ بولا، جو کرہ ارض کی تاریخ میں امر ہو گیا۔ ’’اگر ہماری عدالتیں انصاف پر مبنی فیصلے کر رہی ہیں تو ہمیں دنیا کی کوئی بھی طاقت شکست سے دو چار نہیں کر سکتی‘‘۔ مشکل حالات میں جج حضرات یا تو تاریخ کو دہراتے ہیں یا پھر تاریخ رقم کرتے ہیں۔ پاکستان میں طاقت کے چار گھر ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے بعد عدلیہ، بیوروکریسی اور پھر سیاستدان۔ طاقت کا دوسرا گھر، ہمارا نظام انصاف پچھلے چھہتر برس میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر سکا۔ یہ طبقہ اتنا طاقتور ہے کہ ان کی اولادوں کو بھی کوئی قانون نہیں روک سکتا۔ ایک سابق پولیس افسر دوست نے بتایا کہ سو موٹو کے لیے مشہور سب سے بڑے جج کا بیٹا لاہور میں اے ایس پی تعینات ہو گیا۔ جوائننگ کے بعد اسے سرکاری گاڑی پسند نہ آئی تو سی سی پی او اپنی گاڑی لے کر آ گیا کہ یہ رکھ لیں۔ اس کے سامنے ایس پی لیول کے افسر ایسے دو زانو ہو کر بیٹھتے تھے کہ جیسے وہ ان کا پیر ہو۔ ڈیم والی سرکار کے قصے آج بھی زبان زد عام ہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ طاقتور کے لیے الگ قانون و عدالت اور غریب کے لیے قانون کے ذریعے رسوائی اور خواری ہے۔ میرے ایک جاننے والے جج صاحب جو اب ریٹائرڈ ہو چکے ہیں۔ ایک دن فرمانے لگے کہ ہمیں جھوٹے اور سچے مقدمے کے بارے میں پہلے دن سے پتہ ہوتا ہے۔ لیکن ہم مجبور ہوتے ہیں کہ ہمیں قانون کے مطابق فائلوں کا پیٹ بھرنا ہوتا ہے۔ بلکہ کہنے لگے کہ اگر میرے سامنے قتل بھی ہو جائے تو میں مجرم کو سزا نہیں دے سکتا جب تک کہ قانون کی فائلوں کا پیٹ نہ بھرا جائے۔ یہ بات انصاف فراہم کرنے والوں کو بھی معلوم ہے مگر ان کی کیا مجبوریاں ہیں یہ وہی بتا سکتے ہیں۔ اسی لیے ہمارا نظام انصاف دنیا میں 137 نمبر پر آ چکا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 31 دسمبر 2023ء تک سپریم کورٹ میں 56,155، شریعت کورٹ میں 85، لاہور ہائیکورٹ میں 1,93,674 پشاور ہائیکورٹ میں 42,409 سندھ ہائیکورٹ میں 83,941 بلوچستان ہائیکورٹ میں 5,012 اسلام آباد ہائیکورٹ میں 17,298 مقدمات زیر التوا ہیں۔ اس طرح پاکستان کی تمام ہائی کورٹس میں کل زیر التوا مقدمات 3,42,334 کی قسمت کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ جب ہم صوبوں کی ضلعی عدالتوں کی بات کرتے ہیں تو پنجاب میں 13,86,615 سندھ میں 1,31,923 خیبر پختونخوا میں 2,73,762 بلوچستان میں 17,818 اور اسلام آباد میں 51,694 مقدمات زیر التوا ہیں۔ اس طرح پاکستان کی تمام ضلعی عدالتوں میں کل اٹھارہ لاکھ سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں۔ ہماری عدالتیں ان مقدمات کو نمٹانے کے حوالے سے انتہائی سست روی کا شکار ہیں۔ سائل عدالتوں میں دھکے کھاتے رہتے ہیں لیکن ان کی شنوائی نہیں ہوتی۔ ان کا پُرسان حال کوئی نہیں ہوتا۔ عدالتیں فریقین کے مرنے کے بعد مقدمات کے فیصلے سنا رہی ہوتی ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ مقدمات کی پیروی کرنا ہی چھوڑ دیتے ہیں یا وہ اپنے آپ پر کیے گئے ظلم کا بدلہ خود ہی لے لیتے ہیں، جس سے دشمنیوں کا ایک لا متناہی سلسلہ چل نکلتا ہے، جو معاشرتی امن و سکون کے لیے زہر قاتل ہے۔ ہمارے ہاں لوگ عدالتوں میں جانے سے گھبراتے ہیں۔ کیونکہ طویل مقدمہ بازی کی صورت میں عرصہ دراز تک در بدر کی ٹھوکریں کھانا ان کا مقدر ٹھہرتا ہے، جس کے نتیجہ میں عوام کا عدالتوں پر سے اعتماد ختم ہو چکا ہے۔ سپریم کورٹ میں بھی پچاس ہزار سے زائد کیسز شنوائی اور
فیصلوں کے منتظر ہیں۔ پتا نہیں ججوں کا دل ہی نہیں کرتا کہ کوئی فیصلہ کریں۔ البتہ ہمارے اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کی زیادہ تر توجہ اہم اور سیاسی مقدمات پر ضرور مرکوز رہتی ہے۔ ہم نے ماضی قریب میں دیکھا کہ سیاسی مقدمات کتنی تیزی سے عدالتوں میں فکس کیے گئے اور سیاستدانوں کو فوری ریلیف فراہم کیا گیا۔ حتیٰ کہ چھٹی والے دن بھی عدالتیں لگا کر سیاستدانوں کو فوری انصاف مہیا کیا گیا۔ ہمارا ایک بڑا مسئلہ قومی اور انفرادی سطح پر دیئے گئے غلط فیصلوں کا اطلاق ہے۔ ملک کے سب سے پاپولر وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے کر ایک توملکی عدالتی تاریخ کو داغدار کیا گیا۔ دوسرا اس کے نتیجے میں ملک میں جمہوریت کا قتل اور آمریت کو زندگی دی گئی۔ آج اگر عدالت نے چوالیس سال بعد قبول کر لیا ہے کہ یہ فیصلہ غلط تھا تو کیا یہ کافی ہے۔ کیا ایسے فیصلے دینے والوں کی قبروں پر کوڑے مارے جانے چاہیئں؟ تاکہ دوسروں کو عبرت ملے۔ جیسے سنگین غداری کیس بینچ کے سربراہ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے فیصلہ تحریر کیا تھا کہ پرویز مشرف کی پھانسی کی سزا پر ہر صورت عمل درآمد کرایا جائے۔ پرویز مشرف مردہ حالت میں ملیں تو لاش ڈی چوک پر لائی جائے اور یہ تین دن تک ڈی چوک پر لٹکائی جائے۔ پاکستان میں جھوٹے مقدمات پر بھی سخت سزائیں ہونی چاہئیں۔ ہمارے دیہی علاقوں میں مخالفین اور کمزوروں کو دبانے کے لیے جھوٹے مقدمات بنائے جاتے ہیں۔ انہیں ہمارے کمزور عدالتی نظام کے ذریعے خوار کیا جاتا ہے اور ناجائز سزائیں دلوائی جاتی ہیں۔ فوری طور پر جھوٹے مقدمات، گواہان کے خلاف سخت سزائیں تجویز کی جانی چاہئیں۔ جھوٹے مقدمات بنانے میں ملوث والے ہر شخص کو سزا دے کر مقام عبرت بنا دیا جائے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے عدالتی نظام سے لاکھوں مقدمات کا بوجھ ہٹ جائے گا۔ اس وقت پاکستان کی جیلوں میں بہت سے چھوٹے اور جھوٹے مقدمات میں انصاف کے منتظر ملزمان کو فوری ریلیف ملنا چاہیے۔ ان میں سے اکثریت اپنے جرم سے زیادہ سزا کاٹ چکی ہے لیکن وکیل اور پیروی کی استطاعت نہ رکھنے کے باعث جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ انصاف میں تاخیر کا مطلب انصاف نہ دینا ہے۔ آج ہماری ابتری کی وجہ یہی ہے کہ عدالتیں عام آدمی کو انصاف دینے میں ناکام ہیں۔ میری درخواست ہے کہ ایک سو موٹو عدالتی نظام کو ٹھیک کرنے کے لیے بھی لے لیں۔