یہ ایک بڑی کامیابی ہے

1974 میں ہم ابھی بچے تھے لیکن بعد میں ٹی وی اور پھر یو ٹیوب پر جو دیکھا اور اس دور کی شخصیات سے جو کچھ سنا تو اس سے یہی پتا چلا کہ پورے ملک میں ایک خوشی کا سماں اور انتہائی جوش و خروش تھا اور یہ بات بھی حقیقت ہے کہ 1974میں لاہور میں منعقد ہوئی اسلامی سربراہ کانفرنس پہلی اور اب تک کی آخری موثر اسلامی سربراہی کانفرنس تھی۔ اس کے بعد جتنی بھی کانفرنسیں ہوئیں انہیں ہم نشستند گفتند برخاستند کہہ سکتے ہیں لیکن اس کانفرنس کا ذکر کرنا اس لیے ضروری ہے کہ آج کی نوجوان نسل بلکہ سن رسیدہ افراد کو بھی یہ بتایا جا سکے کہ حزب اختلاف کا کام یقینا حکومت پر تنقید کرنا ہوتا ہے لیکن جہاں ریاست کا مفاد آ جائے وہاں پر ملک و قوم کی خاطر ایک ہونا پڑتا ہے۔ 1974میں بھی ملک میں تقسیم تھی اور مولانا مفتی محمود، پیر صاحب پگاڑا، مولانا شاہ احمد نورانی، ولی خان اور مولانا مودودی ایسی بلند پایہ شخصیات ڈٹ کر بھٹو صاحب کی مخالفت کرتی تھیں لیکن جب یہ کانفرنس ہوئی تو انہوں نے کسی احتجاج کا پروگرام بنا کر اس کانفرنس کو سبو تاژ کرنے کی سازش نہیں کی بلکہ اس کے بر عکس انہوں نے بھٹو صاحب کے ہاتھ مضبوط کیے اور یہ طرز سیاست اور رویہ صرف اس کانفرنس کے موقع پر ہی نظر نہیں آیا بلکہ سقوط ڈھاکہ کے بعد جب بھٹو صاحب اندرا گاندھی سے مذاکرات کرنے ہندوستان جا رہے تھے تو اس وقت لاکھ اختلافات کے باوجود بھی پوری حزب اختلاف بھٹو صاحب کو ایئر پورٹ پر رخصت کرنے کے لیے موجود تھی تا کہ دشمن کو یہ بتایا جا سکے کہ ہم آپس میں سیاسی اختلافات کے باوجود بھی دشمن کے سامنے ایک قوم ہیں اور یہ اسی اتحاد کا نتیجہ تھا کہ بھٹو صاحب مفتوح قوم کے نمائندہ ہونے کے باوجود بھی فاتح قوم کی وزیر اعظم سے کامیاب مذاکرات کے بعد 90 ہزار قیدی اور مغربی پاکستان کا پانچ ہزار مربع کلو میٹر کا علاقہ چھڑانے میں کامیاب ہو گئے تھے لیکن جیسا کہ عرض کیا کہ یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب سیاست دان اقتدار کی ہوس میں اندھے ہو کر ملک و قوم کے مفاد کو پس پشت ڈال کر اپنے ذاتی مفاد کے اسیر نہیں ہوئے تھے۔
اب تو حال یہ ہے کہ ملک و قوم کا مفاد گیا بھاڑ میں ہمیں تو صرف انتشار پیدا کرنا ہے اور وہ چاہے ملک و قوم کے مفاد کی قیمت پر ہی کیوں نہ ہو۔ ملک میں برسوں کیا عشروں بعد ایک بہت بڑی بین الاقوامی سر گرمی ہو رہی تھی لیکن عین اس دن جب یہ کانفرنس شروع ہونا تھی اس دن اسلام آباد ڈی چوک پر احتجاج رکھ دیا گیا اور وہ الیکٹرانک میڈیاکہ جسے اس کانفرنس کے ثمرات جو پاکستان کو حاصل ہونا تھے اس پر گفتگو کرتا وہ اپنے ٹاک شوز میں اس احتجاج پر بات کرتا نظر آیا اور بالآخر حکومت نے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ایک قدم پیچھے ہٹتے ہوئے بانی پی ٹی آئی کی جیل میں ڈاکٹروں سے ملاقات اور میڈیکل چیک اپ کی حامی بھر کر تحریک انصاف کو فیس سیونگ دے دی اور اس طرح یہ قصہ تمام ہوا۔ اس ساری صورت حال میں ہم یہ تو نہیں کہتے کہ کس کو فائدہ پہنچا ہے لیکن اتنا ضرور کہہ سکتے ہیں کہ نقصان تحریک انصاف کو ہوا ہے۔ یہ ہماری کوئی ذاتی رائے نہیں ہے بلکہ ہم خیال صحافیوں سمیت پورے میڈیا نے جس طرح اس کی مخالفت کی اور جس شدید اور سنگین الفاظ میں مخالفت کی اس کی نظیر مجھے کم از کم ماضی میں نہیں ملتی اور یہ صرف میڈیا کی بات نہیں بلکہ خود تحریک انصاف کے اندر اس حوالے سے زبردست تقسیم پائی جا رہی تھی اور وہ تمام لوگ کہ جنہیں احتجاج کی صورت میدان عمل میں آنا تھا وہ اس کی مخالفت کر رہے تھے اور جنہوں نے شہباز گل کی طرح ملک سے باہر بیٹھ کر تماشا دیکھنا تھا یا حماد اظہر اور مراد سعید کی طرح روپوشی میں رہ کر صرف باتیں کرنا تھیں وہ بضد تھے لیکن شکر ہے کہ تمام
معاملات بخیر و خوبی نمٹ گئے اور پاکستان اور خدائے بزرگ برتر نے موجودہ سیاسی اور عسکری قیادت کو سرخرو کیا۔ اس جماعت کے اس طرح کے طرز عمل کی یہ اکلوتی مثال نہیں ہے بلکہ آپ کو یاد ہو گا کہ جب دہشت گردی کی وجہ سے کوئی ٹیم پاکستان آ کر کرکٹ کھیلنا پسند نہیں کرتی تھی تو جن غیر ملکی کرکٹرز نے پاکستان آ کر کھیلنے کی ہمت کی تھی بانی پی ٹی آئی نے انہیں بھی ریلو کٹا کہا تھا حالانکہ وہ ایک طرح سے پاکستان کے محسن تھے کہ جنہوں نے پاکستان آ کر دوسروں کو بھی یہاں کھیلنے کی ترغیب دی۔ اس کے علاوہ 2014 میں چینی صدر کے دورے کو بھی اسی جماعت نے منسوخ کرایا اور ابھی اس کانفرنس سے پہلے ملائیشین وزیر اعظم کے دورہ کے فوراً بعد بھی اسلام آباد پر چڑھائی کی کوشش کی تھی۔
اس بات سے قطع نظر کہ کس کا کیا کردار رہا اور تاریخ اس کردار کو کس طرح یاد کرے گی لیکن اس طرح کی بین الاقوامی سرگرمی کی وجہ سے ایک تو دنیا میں ملک و قوم کے عزت اور وقار میں اضافہ ہوتا ہے اور دوسرا اس طرح کے مواقع پر ہمیشہ سائیڈ لائن پر جو ملاقاتیں ہوتی ہیں وہ دو طرفہ تعلقات کے ساتھ ساتھ معاشی اور خارجہ امور کے حوالے سے بڑی اہم ہوتی ہیں جن کے بڑے اہم نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ جب پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشیدگی کا ماحول ہوتا ہے تو اسی طرح کے مواقع پر پاکستان اور ہندوستان کے وزرائے اعظم کی ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں جن سے برف پگھلتی ہے اور وہ لوگ جو دنیا میں پاکستان کی سفارتی تنہائی کا رونا رو رہے تھے یہ کانفرنس اور اس کا کامیاب انعقاد ان سب کے لیے شٹ اپ کال ہے۔ آئی ایم ایف سے قرض کا حصول، ایشیائی ترقیاتی بنک سے قرض کا اجرا، سٹاک ایکسچینج میں بلندی کے ریکارڈ قائم ہونا، سعودی عرب کے بڑے سرمایہ کاری وفد کی آمد، ملائیشین وزیر اعظم کا دورہ اور چین کے وزیر اعظم کا کانفرنس سے پہلے آنا اور گوادر ایئر پورٹ کا ورچوئل افتتاح کرنا یہ سب موجودہ حکومت، سیاسی اور عسکری قیادت کی بڑی کامیابیاں ہیں اور ان کامیابیوں کے تسلسل کے لیے اس حکومت کا تسلسل بھی ضروری ہے۔