ڈپٹی کمشنر…(آخری قسط)

ڈپٹی کمشنر کا عہدہ اپنی نوعیت ،اہمیت، اختیارات اور وجہ تشکیل کے حوالے سے ایک غیر سیاسی اور انتظامی عہدہ ہے،مگر بدقسمتی کہہ لیں یا ضرورت کہ اس عہدے کا ابتداء سے ہی سیاسی استعمال شروع ہو گیا تھا،انگریز دور میں کہیں شورش ہوتی،حکومت مخالف سرگرمی ہوتی یا کوئی سیاسی لیڈر حکومت کیخلاف عوامی اجتماعات میں خطاب کرتا تو ڈپٹی کمشنر ہی اس صورتحال کے قلع قمع کیلئے بروئے کار آتے،انگریز کی رخصتی کے بعد بھی حکومتیں ریاست کے اس اہم عہدیدار کوحکومت کا ملازم بنا کر اپنی حکومت کے استحکام اور طوالت کیلئے استعمال کرتی رہیں اور یہ آج تک جاری ہے۔ سیاست کے طالب علم جانتے ہیں کہ جب تک ڈپٹی کمشر کے عہدے کا سیاسی یا غیر سیاسی استعمال ریاست کے ملازم کے طور پر کیا گیا یہ اہم عہدہ ملک وقوم کی خدمت میں کارہائے نمایاں انجام دیتا رہا مگر جیسے ہی اس عہدے کا حکومت کے مفاد میں استعمال شروع ہوا یہ متنازع ہوتا چلا گیا،ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ضلع کا یہ حاکم بلکہ ضلع میں ریاست کا نمائندہ وزیر اعلیٰ کا ذاتی ملازم اور حکومت کا نمائندہ بن کر حکمرانوں کی دہلیز سے جڑ کر بیٹھ گیا ،نتیجے میں ڈپٹی کمشنروں اور ضلعی انتظامیہ کے افسروں پر سیاسی چھاپ لگنے لگ گئی،یہ افسر پیپلز پارٹی کا،وہ افسر مسلم لیگ ن کا،بلکہ یہ تقسیم اس بھی آگے نکل گئی اور سنائی دینے لگا فلاں افسر نواز شریف کا اور فلاں شہباز شریف کا۔یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ملک میں افراتفری، انتشار، ریشہ دوانی اور طوائف الملوکی کی بنیادی وجہ ڈپٹی کمشنروں کے معاملات میں سیاسی مداخلت ہے،انگریز ایک گورے ڈپٹی کمشنر کے ذریعے میلوں میل پھیلے ضلع کے سرداروں، علماء ، امراء کو قابو میں رکھتا تھا، اس زمانے کے ڈی سی اور ایس پی کے گھروں کے رقبے اور طرز تعمیر دیکھ لیں،ان کے گھر دیکھ کر ہی ان کے اختیارات کا علم ہو جاتا ہے،مگر تب ڈپٹی کمشنر خود ایک حکومت ہوا کرتا تھا ،کسی حکومت کا ملازم نہیں۔
قیام پاکستان کے بعد بھی اسی نوع کے با اختیار، با بصیرت اور مدبر ڈپٹی کمشنر نظر آتے ہیں ،مرکزی حکومت، منتخب ہو یا فوجی ان کے ذریعے ہی ضلع چلاتی رہیں، یہ ڈپٹی کمشنرمکمل اختیارات کے حامل ہوتے تھے، ڈپٹی کمشنر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بھی ہوتا تھا،کسی واقعے، احتجاج، جلسے، جلوس کے بارے میں اس کا پریس نوٹ، ہینڈ آئوٹ حرفِ آخر ہوتا تھا، قدرت اللہ شہاب کی ڈپٹی کمشنر کی ڈائری تو ہمارے ادب اور تاریخ کا ایک اہم باب ہے، ڈپٹی کمشنر اپنے طور پر شہریوں کی مشاورتی کونسلیں بناتے تھے، ان سے رابطے میں رہتے تھے، ان دنوں ہر ضلع کا سالانہ میلہ اسپاں و مویشیاں، کھیلوں کے مقابلے اس ضلع کی توانائی ثقافت و ادب کا مظہر ہوتے تھے، آل پاکستان مشاعرے بھی ہوتے تھے۔،شہید ذوالفقار علی بھٹو ڈپٹی کمشنروں سے رات گئے حال احوال لیتے تھے، لاڑکانہ کے ڈپٹی کمشنر خالد کھرل تھے جو بعد میں پی پی پی کے وفاقی وزیر اطلاعات بھی بنے، غلام مصطفیٰ کھر بھی ڈپٹی کمشنروں کے ذریعے صوبہ چلاتے تھے،جنرل ضیاء الحق نے بھی یہ طریقہ اختیار کیا۔ ڈپٹی کمشنر اور ضلع کے انچارج بریگیڈیئر یا کرنل سے ہفتے میں ایک بار ضرور فون پر بات کرتے تھے،نواز شریف کی کامیابی کا راز ہی ڈپٹی کمشروں اور ضلعی افسروں کو اپنی مٹھی میں رکھنا تھا،شائد یہ کہنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ ہر حکومت کی کامیابی کے پس پردہ با اعتماد ڈپٹی کمشنرز کا ہی ہاتھ ہوتا تھا۔
ڈپٹی کمشنر اپنے ضلع کا مسیحا، نباض، مورخ، ماہر اور درد مند ہوتا تھا، فرقہ وارانہ مسائل کو بھی وہ علماء سے میٹنگوں کے ذریعے حل کرتا تھا، کہیں کرفیو لگانا ہوتا تو یہ اس کا فیصلہ ہوتا تھا، آفات ناگہانی سیلاب ، زلزلہ، بڑی آگ یا وبا ء کے دنوں میں بھی ڈی سی کی معاملہ فہمی ہی چلتی تھی، ایک افسر کو ملک کے مختلف اضلاع میں متعین کیا جاتا تھا تاکہ اس کے مشاہدے اور تجربے میں اضافہ ہو،اوروہ ایک صوبے تک محدود نہ رہے، مشرقی پاکستان میں بھی اس کی تعیناتی کی جاتی تھی، بازار میں قیمتوں پر کنٹرول، صحت مند گوشت، خالص دودھ اور ملاوٹ سے پاک اشیائے خوردنی کی فراہمی ،متعینہ نرخوں پر دستیابی بھی ڈپٹی کمشنر ہی کی ذمہ داری تھی،ہر ڈی سی آفس میں ملک دشمن عناصر، فسادی، سیاسی اور مذہبی قانون شکنوں کی فہرستیں آویزاں ہوتی ہیں،لیکن سیاسی جمہوری حکومتوں نے ڈپٹی کمشنر کے منصب پر تابڑ توڑ حملے کرکے، سیاسی تقرریاں، تبادلے کرکے اس اہم نوعیت کے بنیادی منصب کو بے اثر کردیا ہے، آج ڈپٹی کمشنر کی تعیناتی اور تبادلہ حکمرانوں کے اشارہ ابرو سے ہوتا ہے،کسی نے حکمران خاندان یا کسی اہم حکومتی رہنما کی بات نہ مانی تو فوری تبادلہ،حکمرانوں،سیاستدانوں کے جائز ناجائز،قانونی غیر قانونی کام سے انکار پر تبادلہ،کسی کو سرکاری گھر،رقبہ الاٹ نہ کرنے پر تبادلہ،پسندیدہ ضلع میں تعیناتی بھی اثر و رسوخ سے ہوتی ہے،ہر سیاستدان کی کوشش ہوتی کہ اس کے ضلع میں اس کا پسندیدہ افسر ڈپٹی کمشنر لگے اور وہ اس کے کندھوں پر پائوں رکھ کر ضلع میں من مانی کرے۔
ماضی میںڈپٹی کمشنر کی مدت تعیناتی تین سال کیلئے ہوتی تھی اور وہ افسر بڑے اطمینان سے اپنے فرائض انجام دیتا تھا،شہر کے حالات،جرائم ،جرائم پیشہ افراد،علاقے کے وسائل روزگار، صنعت، زراعت،سرکاری اراضی،اہم شخصیات تک سے آشنائی پیدا کرتا،وقت آنے پر اسے خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ کا انتظار نہیں کرنا پڑتا تھا بلکہ ماہر نباض کی طرح کسی بھی واقعہ،حادثہ،سانحہ کے بعد وہ اسی جگہ،شخصیت پر ہاتھ ڈالتاجہاں ڈالنا ہوتا تھا،ڈپٹی کمشنر اپنے ضلع کا حکمران ہی نہیں نگران اور والی وارث بھی ہوتا تھا،اس کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر، ایس ڈی ایم، اے سی ایک وفادار ٹیم کی طرح متحرک رہتے تھے،باہمی مشاورت سے احتجاج اور فسادات کو ہونے سے روک دیتے تھے،ڈینگی اور کووڈ 19 کے بعد پھر ہمیں اس عہدے کی اہمیت کا احساس ہوا، مجوزہ قواعد و ضوابط پر عملدرآمد ،لاک ڈائون ڈپٹی کمشنر کے ذریعے ہی ممکن ہو سکا، ایک اندازے کے مطابق ملک میں اس وقت 135 اضلاع ہیں، ان 135 ڈپٹی کمشنروں کو اگر اپنے اختیارات قانون کے مطابق استعمال کرنے دیے جائیں ، وفاقی صوبائی حکومتیں، ریاستی ادارے اور منتخب نمائندے ان کے معاملات میں مداخلت نہ کریں اور غیر ضروری دبائو نہ ڈالیں تو یہ ملک میں امن و امان قائم رکھ سکتے ہیں، ایک سسٹم کو وجود میں لاسکتے ہیں، فنون لطیفہ کی سرپرستی کرسکتے ہیں، فرقہ وارانہ رجحانات پر قابو پاسکتے ہیں، ملک دشمنوں کی سازشیں ناکام بناسکتے ہیں، بس وزیر اعلیٰ، ڈپٹی کمشنر بنانے کی فیکٹری بند کردیں ،حکمران،حکمران پارٹی کے لوگ،حکومتی جماعت کے منتخب نمائندے ڈپٹی کمشنرز کو اآئین کے مطابق فرائض انجام دینے دیں،انہیں ذاتی نہیں ریاستی ملازم کا درجہ دیں،انتظامی امور میں مداخلت بند کر دیں تو ڈپٹی کمشنر کا دفتر پہلے کی طرح آباد ہو جائے گا جہاں جا کر ہر شعبہ سے وابستہ شخص یہ سمجھے گا کہ کہ یہاں اسی کا انتظار تھا ،ورنہ ملک کے دوسرے اداروں میں جیسے گنگا الٹی بہہ رہی ہے ڈی سی آفس میں بھی ایسے ہی بہتی رہے گی اور اس دفتر سے بھی عوام کا اعتماد اٹھ جائے گا۔