سستی اور سست روی

اگر عجلت اور تیز رفتاری اچھی بات نہیں تو سستی اور سست روی بھی کوئی ایسی قابلِ ستائش بات نہیں۔ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنا، کوئی کام شروع کرنے میں ہچکچاتے رہنا، تذبذب ہی میں تسکین پانا … اور پھر ڈپریشن میں ڈوبنے میں عافیت محسوس کرنا … کسی طور اچھی بات نہیں۔
یہ دنیا کارگاہِ عمل ہے۔ یہاں عمل کی قیمت ہے۔ دارِ آخرت میں نیت کا اعتبار کیا جاتا ہے اور دارِ دنیا میں عمل کو دیکھا جاتا ہے۔ ہمارا عمل صرف ہمارا ہی عمل ہی ہوتا تو اس میں سستی دکھانے میں کوئی امر مانع نہ ہوتا … لیکن کیا کریں، ہمارا عمل ہمارے ارد گرد بہت سی زندگیوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ میرا وقت صرف میرا وقت نہیں ہے۔ میرے وقت کے ساتھ بہت سے لوگوں کے نظام الاوقات منسلک ہیں۔ میں اگر کلینک وقت پر نہیں پہنچتا تو میرے مریضوں کا وقت ضائع ہوتا ہے، کوئی مریض اگر زیادہ تکلیف میں مبتلا ہے تو اسے میرے انتظار میں مزید تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مریضوں کے ساتھ ساتھ مریضوں کے لواحقین کا وقت بھی ضائع ہوتا ہے۔ میری سست روی میرے آس پاس کتنے ہی لوگوں کی تکلیف کا باعث بن جاتی ہے، یہ بات سمجھنا مشکل نہیں۔ موٹروے پر ایک سست رفتار گاڑی ٹریفک میں بے جا خلل کا باعث بنتی ہے۔ اگر میں موٹروے پر عازمِ سفر ہوں تو رفتار کے باب میں مجھے اس کے قواعد وضوابط کا پاس کرنا چاہیے۔ اگر میں فطرتاً سست رفتاری کو پسند کرتا ہوں تو بہتر ہوتا کہ میں کسی گاؤں کی پگڈنڈی کا انتخاب کرتا، دیہی زندگی میں ڈیرہ ڈالتا، تاکہ میرے آس پاس لوگ میری سست روی سے متاثر نہ ہوتے۔
کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ جب کسی بزرگ کے ہاں حاضری کا اردادہ کر لیا جائے تو اس ارادے کو فوراً پایہ تکمیل کو پہنچانا چاہیے، کہ وہاں انتظار شروع ہو جاتا ہے … اور بزرگوں کو انتظار کرانا کسی طور دائرہِ ادب میں نہیں آتا۔ ادب ہی چھوٹوں کا اپنے بڑوں کے ساتھ تعلق کی سند ہے۔ ادب رخصت ہوا تو تعلق رخصت ہو گیا۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے کہ میرا اور تمہارا تعلق یہ ہے کہ میں حکم دوں گا اور آپ مانو گے، اگر تم ماننے سے انکار کرتے ہو تو تعلق ختم ہو گیا۔ سچ پوچھیں تو ایک اُمتی کے اپنے رسولؐ سے تعلق کی بنیاد بھی اطاعت اور اتباع رسولؐ ہے، اگر اطاعت میں کمزوری واقع ہو گئی تو عشق و محبت کے سب دعوے بے کار میں شمار ہوں گے۔ حکم ِ الٰہی ہے کہ اللہ کی اطاعت کرو، اور رسولؐ کی اطاعت کرو اور اپنے درمیان اولی الامر کی اطاعت کرو۔ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت میں کسی مادّی بالادستی کا زور نہیں … کہ دین میں کوئی جبر نہیں … لااکراہ فی الدین … اللہ اور اس کے رسولؐ کا پیغام بنی نوعِ انسانی کے لیے ایک دعوتِ فوز و فلاح ہے، جو اسے قبول کرتا ہے، وہ اس میں پنہاں بے پایاں لطف و کرم کے سبب ہی اسے قبول کرتا ہے۔ اس ایجاب و قبول میں کوئی جبر نہیں۔ اگر اولی الامر ہونے کا مدعی کوئی جابر حکمران ہو، جو کسی مادی قوت کے استعمال سے مخلوق کو سرنگوں کرنا چاہتا ہے، تو ایسا حکمران اس اطاعت کے زمرے میں قطعاً نہیں آتا۔ ہمارا اولی الامر وہی ہے، جس کی اطاعت میں ہمیں وہی لطف و راحت میسر آئے جو ’’اطیعواللہ واطیعو الرسول‘‘ کے حکم کی بجاآوری میں ہے۔ ظالم و جابر حکمران خود کو ظلِ الٰہی کہلاتے ہیں، کبھی خود کو اولی الامر کہلواتے ہیں، کبھی دینی اطاعت کے ساتھ اپنی اطاعت کو مشروط کرتے ہیں … لیکن ان کے خلاف جہاد کا حکم ہے۔ حدیثِ پاک میں صراحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے کہ افضل ترین جہاد جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے۔ ظلم، جبر اور فسطائیت کے ہتھیار استعمال کرنے والے حکمران خواہ اپنے حق میں کتنے ہی فتاویٰ لے آئیں، حق اور سچ بات یہی ہے کہ ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا حکم ہے۔ حدیث رسولؐ کے مقابلے میں کسی فتوے کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی ہے۔ ظالم حکمرانوں کی بزورِ شمشیر رعایا کو اپنے تابع کرنے کی، اپنی بیعت لینے کی روش پرانی ہے۔ اہلِ کربلا نے ایسے ناسوروں کے خلاف اٹھ کر پوری امت کو بتلا دیا کہ اولی الامر درحقیت کون ہیں۔
سستی اور سست روی جس طرح انفرادی طور پر ہمیں متاثر کرتی ہے، اسی طرح اجتماعی سطح پر بھی ہمارے اجتماعی ضمیر کے لیے ایک سمِّ قاتل ہے۔ ظلم اور ناانصافی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے میں سست روی قوموں کی اخلاقیات تباہ کر دیتی ہے۔ ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے میں اگر سستی سے کام لیا جائے تو ظلم سہنے کی عادت ہو جاتی ہے۔ ظالم ظلم کرنے کو اپنا حق سمجھنے لگتا ہے۔ جب ظالم ظلم کرنا اپنا حق سمجھنے لگے تو اس سے یہ حق چھین لینا چاہیے۔ ظلم پر آنکھیں بند کر لینے سے قوم کا ضمیر مردہ ہو جاتا ہے۔ انسان کا جوہر صداقت ہے، اور صداقت مصلحت اندیش نہیں ہوتی۔ حق کو حق اور ناحق کو ناحق کہنا انسانی شعور پر واجب ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے ’’اپنی نااہلی کو تقدیر نہ کہہ دینا‘‘۔ اقبالؒ نے بھی تقدیر کا شکوہ کرنے کی روش کو ناپسند کیا ہے:
عبث ہے شکوہِ تقدیرِ یزداں
تو خود تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ہے
اور اِس پر مستزاد یہ کہ:
ہاتھ ہے اللہ کا بندہِ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کار کشا کار ساز
سب قلندرانِ وقت ، اولیائے زمانہ اپنا فکر قرآن ہی سے اخذ کرتے ہیں۔ اولیاء و اصفیائے امت کی دانشِ نورانی اسی نور سے عطر بیز ہے جس نور کی بابت قرآن میں درج ہے: قد جاء کم من اللہ نور و کتاب مبین … شعورِ انسانی کی کم فہمی اور کوتاہ دامانی جن لطائف کو چھپا دیتی ہے، دانشِ نورانی اور دانشِ برہانی اسے عیاں کر دیتی ہے۔ بقول اقبالؒ دانشِ برہانی میں حیرت کی فراوانی ہے۔ حیرت کی فراوانی معرفتِ ربانی کہلاتی ہے۔ قرآن میں یہی درج ہے: اِنَّ اللّٰہَ لَا یْغَیِّرْ مَا بِقَومٍ حَتّٰی یْغَیِّرْوا مَا بِاَنفْسِہِِم … کسی اہلِ ہنر نے اسی آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے شعر کہا ہے:
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
ایک حدیثِ پاک ایسی ہے، جس سے ہم بحیثیت قوم غافل ہیں: مفہوم حدیث یوں ہے کہ وہ شخص ہلاک ہو گیا جس کے دو دن برابر ہو گئے۔ معلوم ہوا کہ اپنے آج کو گزشتہ کل سے بہتر کرنے کی جستجو نہ کرنے والا جمود کا شکار ہے … اور جمود کا شکار، ہمہ وقت رواں قافلہِ زندگانی سے بچھڑ جاتے ہیں۔ ہمیں اپنی ظاہری اور باطنی دونوں حالتوں میں ہمہ حال تحرک درکار ہے، کیونکہ زمانہ قیامت کی چال چل گیا ہے۔ ایک مسنون دعا میں سستی اور کاہلی سے نجات طلب کی گئی ہے۔ آج کا کام کل پر ڈالنے والا کسی کام کا نہیں رہتا۔ جمود کا شکار بہت جلد ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔ عمل اور پیہم عمل ہی مایوسی سے نجات دیتے ہیں۔
جمود کو تحرک دینا، اور غیر متوازن تحرک کو سکون آشنا کرنا دانشِ نورانی کا ہنر ہے۔ حسنِ انتظار یقینا حسنِ عمل کے بعد کا مرحلہ ہے۔ تقدیر پر بھروسہ اپنے حصے پر عمل مکمل کرنے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ عمل صرف اس لیے مطلوب نہیں کہ بے عملی مجھے ذاتی طور پر نقصان دے گی، بلکہ عمل اور مسلسل عمل اس لیے درکار ہے کہ معاشرے کی معاشی اور معاشرتی ترقی میری بے عملی سے متاثر ہو گی۔ خود غرض اپنے لیے عمل کرتا ہے اور بے غرض دوسروں کے لیے۔ ہماری کمائی میں ہمارا حصہ بہت کم ہوتا ہے، ہمارے گرد و پیش ہم سے منسلک لوگوں کا حصہ فراواں ہوتا ہے۔ فراوانی، کشادگی اور کشادہ دلی درکار ہو تو دوسروں کے لیے کام کرنا چاہیے۔ کام کرنے والا اسی لیے اللہ کو محبوب ہوتا ہے … الکاسب حبیب اللہ …! اپنی ذاتی غرض کے لیے متحرک ہونا لالچ کے زمرے میں آتا ہے، فلاحِ عامہ کے لیے کمربستہ ہونا اخلاص اور خدمت کا شعبہ ہے۔ ایک صاحبِ ایمان حقیقی معنوں میں باعمل انسان ہوتا ہے۔ اخلاص فی اللہ اور خدمت فی الاخلاص ہی اللہ اور اللہ کے حبیبؐ کے قریب کرتے ہیں۔