سازش، پاکستان اور گنڈاپور

گزشتہ کچھ دن اس لحاظ سے بھی اہم ہیں کہ اس میں بہت سے حقائق طشت ازبام ہوئے جہاں یہ معلوم ہوا کہ قومی اور بین الاقوامی ایشوز پر کون کہاں کھڑا ہے تو یہ حقیقت بھی منظر عام پر آئی کہ کون کیا چاہتا ہے۔ خطے کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں کون کس ایجنڈے پر کام کر رہا ہے اور کس کا مطمع نظر کیا ہے یہ بھی روز روشن کی طرح عیاں ایک جانب مسلم امہ کے خلاف ہونے والی سازشوں اور پس پردہ دشمنوں کے چہرے مزید واضح ہوئے تو دوسری جانب یہ بھی سامنے آیا کہ پاکستان کے دشمن پاکستان میں کون سا نیا کھیل کھیلنا رچانا چاہ رہے ہیں۔ یہ وقت اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ ملک کی بہت سی سیاسی جماعتوں کے اصل چہرے بھی مزید واضح ہوئے۔
جہاں تک تعلق ہے مسلم دنیا کا تو اس کے اس وقت دو سلگتے ہوئے ایشوز جس میں فلسطین اور کشمیر سر فہرست ہیں حکومت کی جانب سے یہ ایک قابل تحسین اقدام تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے اقوام متحدہ میں فلسطین کے حوالے سے موثر آواز اٹھانے کے بعد وہ جیسے ہی وطن واپس پہنچے تو حکومت کی جانب سے پوری پاکستانی قوم کا اس سلگتے ہوئے مسئلے پر بھرپور موقف اجاگر کرنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک ٹیبل پر مدعو کیا گیا تاکہ دنیا کو یہ بتایا جا سکے کہ پاکستانی قوم اس اہم مسئلے پر متحد ہے۔ تاہم پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے اس میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ان کی ہمدردیاں فلسطین کے ان ہزاروں بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور جوانوں سے نہیں ہیں جو ناجائز ریاست اسرائیل بیہمانہ سفاکانہ بمباری اور فوجی آپریشنز کی نذر ہو چکے ہیں۔ یعنی پاکستان تحریک انصاف کی قیادت غزہ، لبنان، شام میں ظلم و ستم کا نشانہ بننے والے لاکھوں مجبور افراد کو درخور اعتنا نہیں سمجھتی جو اسرائیل کی وحشت و بربریت کے باعث اپنے ہی گھروں سے بے گھر ہو چکے ہیں۔ اس اقدام سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت کی محبتیں اور ہمدردیاں تل ابیب سے ہیں۔ اسرائیلی اخبارات ان دنوں ایسے ہی بانی پی ٹی آئی عمران خان کی حمایت میں داد و تحسین کے نعرے نہیں بلند کر رہے ہیں ایسے میں پی ٹی آئی کی قیادت کی جانب سے چند روز قبل شنگھائی تعاون تنظیم کی میٹنگ میں شرکت کے لیے آنے والے اہم بھارتی نمائندے سے خطاب کی جانے والی درخواست ملک دشمنی کی کہانی خوب منکشف کرتی ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستان کے طول و عرض میں ہونے والے اہم واقعات کے تانے بانے ملائے جائیں تو اس مخمصے کو سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی کہ پاکستان کی دشمن قوتیں پاکستان میں موجود اپنے سہولت کاروں کی مدد سے کون سا نیا کھیل رچانا چاہتی ہیں۔ خطے میں چلنے والی گریٹ گیم کیا ہے۔ اس کے کھلاڑی اور سہولت کار کون ہیں۔ ایک سازش تو وہ ہے جو تل ابیب مشرق وسطیٰ میں رچائے ہوئے ہے جس کے تحت وہ شام، لیبیا، عراق اور یمن کے بعد پاکستان میں سول وار کا آغاز چاہتا ہے تو دوسری امریکہ اور بھارت ہیں جو پاکستان میں کسی بھی صورت میں چائنیز کوریڈور کو فعال ہوتا نہیں دیکھنا چاہ رہے۔ اس ضمن میں شنگھائی تعاون تنظیم کی پاکستان میں منعقد ہونے والی میٹنگ کو ناکام بنانا را موساد اور سی آئی اے کے مشترکہ ایجنڈے پر سر فہرست ہے۔ گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران کراچی، شمالی وزیرستان اور بلوچستان میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے پے در پے واقعات جن میں خاص طور پر چینیوں کو نشانہ بنایا گیا اس امر کی بھرپور غماضی کرتے ہیں جو پاکستان کے دشمن اس پاگل پن میں کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ ایسے میں پی ٹی آئی کی جانب سے خیبر پختون خوا سے اسلام آباد پر چڑھائی کرنے کے اعلانات کے ساتھ جو کچھ بھی کیا گیا، اس سے ظاہر ہوا کہ پاکستان کے ساتھ کون کھڑا ہے اور پاکستان کے کون مخالف ہے۔
احتجاج کرنے والوں میں افغانیوں کا گرفتار ہونا اور ڈی چوک میں ایسے وقت میں دھرنا دینے کا اصرار کرنا جب اہم غیر ملکی شخصیات اس کے گرد و نواح میں موجود ہوں اس مکروہ کہانی کو طشت ازبام کرتی ہیں جو پاکستان میں موجود پاکستان مخالف قوتوں کے سہولت کار ان قوتوں کے اشارے پر پاکستان میں رچانا چاہتے ہیں۔ ایسے میں وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا علی امین گنڈا پور پی ٹی آئی کے لیے ایسے پورس کے ہاتھی ثابت ہوئے ہیں جنہوں نے انقلاب کے لیے خاصا اودھم مچائے ہوئے پی ٹی آئی کے کارکنوں، سپورٹرز اور قائدین کو باقاعدہ چکرا کر رکھ دیا ہے۔ انہیں یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ گنڈاپور درحقیقت ہیں کس کے ساتھ؟ گنڈاپور نے انہیں سیاسی اور نظریاتی محاذوں پر وہ ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے جو پی ٹی آئی کے مخالفین بھی اسے اب تک نہ پہنچا سکے۔ پی ٹی آئی کی قیادت نے اپنی جانب سے پٹھان کارڈ تو خوب کھیلا تھا اور اسکے قائدین حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو مسلسل یہ دھمکا بھی رہے تھے کہ خیبر پختون خوا سے شروع کی جانے والی چڑھائی انہیں ادھیڑ کر رکھ دے گی۔ تاہم گنڈاپور نے بڑی مہارت سے ان کا یہ ڈر بھی ختم کر دیا ہے۔ ڈیڑھ کروڑ سے زائد کی آبادی لاہور میں لوگوں کا احتجاج کے لیے نہ نکلنا بھی پی ٹی آئی کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوا ہے۔ گنڈاپور نے ماضی کی اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اس بار بھی پی ٹی آئی کے کارکنوں کو بیچ منجھدار چھوڑ کر بھاگنے میں اپنی عافیت سمجھی۔ احتجاج کے دوران سینہ ٹھوک کر یہ کہنے والے گنڈا پور کہ ’’پہلی گولی میرے سینے پہ مارو‘‘ گرفتاری کے مبینہ ڈرامے کے بعد خیبر پختون خوا پہنچنے پر بڑے فخر سے یہ بتاتے نظر آئے کہ انہوں نے پولیس کو چکمہ دیا ہے اور وہ گرفتاری سے بچنے کے لیے خیبر پختون ہاؤس میں چھپے رہے۔ ویسے ان سے تو بانی پی ٹی آئی کی بہنیں ہی زیادہ جرأت مند نظر آئیں جنہوں نے سب سے پہلے گرفتاری دی۔