فلسطین پر اسرائیل کو جنگ مسلط کیے ایک سال پورا ہو چکا ہے اور خطے کی صورتحال گزشتہ سال 7 اکتوبر سے کہیں زیادہ دھماکہ خیز ہے ۔ اس دوران اسرائیل نے لبنان ، شام، یمن اور ایران پر بھی حملے کیے ہیں۔ تازہ ترین یہ ہے کہ اسرائیل اور امریکہ ایران پر حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں جس کا باقاعدہ اعلان کیا جا چکا ہے۔ اسی اثنا میں پاکستان حکومت نے کل جماعتی کانفرنس بلا کر فلسطین کے حق میں قرار داد متفقہ طور پر منظور کر لی ہے اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی نے اس میں شرکت نہیں کی جس کی وجہ ملک کی داخلی سیاست ہے۔
ایران پر حملے کے کثیر جہتی اثرات برآمد ہوں گے اس سے پورا مشرق وسطیٰ شعلوںکی لپیٹ میں ہو گا۔ روس یوکرائن جنگ کی طرح عالمی معیشت بحران کا شکار ہو جائے گی۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ اس حملے کے خطرے کے پیش نظر تیل کی قیمتیں بڑھنا شرو ع ہو گئی ہیں اور 2.5 ڈالر فی بیرل کااضافہ ہوچکا ہے۔گزشتہ 6 ماہ سے قیمتیںمسلسل نیچے آ رہی تھیں جو سعودی عرب کے لیے سب سے زیادہ پریشانی کا باعث تھا قیمتوں میں یہ اضافہ ایرانی تیل کی رسد میں خلل اندازی کے خدشے کے تحت ہوا ہے اور آنے والے دنوں میں یہ نرخ مزید اوپر جائیں گے جس کے اثرات پاکستان میں بھی نظر آئیں گے۔
امریکہ کی پوری کوشش رہی ہے کہ پٹرول کی قیمتیں اوپر نہ جائیں کیونکہ امریکہ میں انتخابات ہو رہے ہیں اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے اور مہنگائی سے جوبائیڈن حکومت کی ساکھ متاثر ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود امریکہ اسرائیل کی خاطر یہ خطرہ مول لینے کو تیار ہے البتہ اس صورتحال سے سعودی عرب اور اوپیک ممالک کی لاٹری نکل آئے گی کیونکہ ایرانی تیل کی بندش سے انہیں اپنا تیل مہنگے داموں بیچنے کا موقع غنیمت ہاتھ آ جائے گا۔
اسرائیل ایرانی تیل کی تنصیبات پر حملہ کی اس لیے منصوبہ بندی کر رہا ہے تا کہ ایران کو معاشی طور پر اپاہج کیا جا سکے دوسری طرف ایران کا ایٹمی پروگرام اسرائیل کے نشانے پر ہے لیکن اسرائیل کے لیے یہ اتنا آسان نہیں ہو گا اور ایسی صورت میں ایران اسرائیل کے خلاف ایٹمی ہتھیار
استعمال کر سکتا ہے کیونکہ ایران کے خفیہ ایٹمی پروگرام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے نیو کلیئر صلاحیت حاصل کر لی ہوئی ہے۔
ایران کو اسرائیل سے زیادہ ایک اور خطرے کا سامنا ہے جو اسرائیل سے زیادہ خطرناک اور ناقابل انسداد نظر آ رہا ہے یہ ہے غداروں کی نشان دہی اور ان کاخاتمہ۔ اسماعیل ہانیہ سے لے کر حسن نصر اللہ کی شہادت تک اتنے بڑے بڑے ٹارگٹ اسرائیل نے اپنے جاسوسی نیٹ ورک کے ذریعے حاصل کیے ہیں ایرانی پاسداران انقلاب سے لے کر حماس اور حزب اللہ تک ان سب کے اندر اسرائیل کے لیے کام کرنے والے غدار موجود ہیں۔ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای اس وقت اس لیے روپوش ہیں کہ انہیں اپنی ہی ایلیٹ فورس یعنی پاسداران انقلاب کی صفوں میں اسرائیلی مخبروں کی موجودگی کے ثبوت مل چکے ہیں۔ یہ ایران کے لیے تباہ کن صورتحال ہے۔ ایران کے اسرائیل پر میزائل حملے پر بھی بہت سے ایرانی اس کے مخالف ہیں کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ اس کے نتیجے میں اسرائیل ان پر زمین تنگ کر دے گا اور ملکی معیشت تنکوں کی طرح بہہ جائے گی جس کا خمیازہ ایرانی عوام کو بھگتنا پڑے گا۔
لیکن جس طرح پے در پے اسرائیل چن چن کر اعلیٰ قیادت کو مار رہا تھا ایران کے اندر بے چینی بڑھ رہی تھی کہ انہیں جواب دیا جائے ایران نے اپنی ساکھ بچانے کے لیے یہ حملہ کیا تھا۔ اس جنگ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یمنی حوثی باغیوں حماس اور حزب اللہ جیسی تنظیمیں عرب ممالک کی بادشاہتوں کے لیے خطرہ بنی ہوئی تھیں اور ان کے خاتمے سے سعودی عرب امارات اور دیگر ممالک اندر سے خوش ہوں گے۔ ایران کے لیے مشکل یہ ہے کہ اسے امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ساتھ عرب ممالک کو بھی Tackleکرنا پڑتا ہے جبکہ ایران کی ان ساختہ پرداختہ تنظیموں کی اندرونی صفوں میں اسرائیل کے خریدے گئے غداروں کی فراوانی ایرانی حکومت کے لیے بقا کا مسئلہ بن چکی ہے۔
ایران کو حسن نصر اللہ کے خلاف ممکنہ سازش کا پتہ چل گیا تھا سپریم لیڈر علی خامنائی نے جنرل عباس نیل فرسان کو ایلچی بنا کر بھیجا کہ حسن نصر اللہ کو پیغام دو کہ وہ لبنان چھوڑ کر ایران آجائے وہاں اس کی جان کو خطرہ ہے مگر یہ بہت لیٹ ہو گیا جس دن حسن نصر اللہ کے زیر زمین بنکر پر حملہ ہوا اس وقت ایرانی ایلچی جنرل عباس حسن نصر اللہ سے ملاقات کر رہے تھے وہ خود بھی اس حملے میں شہید ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ علی خامنائی پر اسی طرز کے حملے کا قوی امکان ہے جس کی وجہ سے وہ روپوش ہیں۔
ایران پر حملے کی صورت میں پاکستان براہ راست متاثر ہو گا کیونکہ جغرافیائی طور پر پاکستان اور ایران کا مشترکہ بارڈر ہے بلوچستان کو ایران سے بجلی ملتی ہے اور ایرانی سمگل شدہ تیل پورے بلوچستان میں استعمال ہوتا ہے۔ جنگ کی صورت میں کراس بارڈر کارروائیوں سے پاکستان لا تعلق نہیں رہ سکتا۔ اسرائیل کے ایران پر جنگ مسلط کرنے کے بعد یہ بھی ممکن ہے کہ شکست کی صورت میں ایرانی سپریم کونسل کا کردار ختم ہو جائے اور ایران میں مذہبی شدت پسندی اور آیت اللہ کی اتھارٹی کا خاتمہ ہو جائے اور وہاں بھی لبرل حکومت اور جمہوریت شروع ہو جائے اور ایران 1979ء کے انقلاب سے پہلے جیسے سیاسی نظریات کی طرف رجوع کرے لیکن ابھی تک یہ بعیداز قیاس ہے۔ البتہ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اسرائیل نے ایران کے سارے پراکسی عناصر پر غلبہ حاصل کر لیا ہے اور عرب ممالک کو اس سے اطمینان حاصل ہوا ہے ایران اس وقت چومکھی لڑائی میں مصروف ہے ماضی میں روس مڈل ایسٹ میں اپنی موجودگی بڑھانے کی منصوبہ بندی کرتا آیا ہے مگر اب وہ یوکرائن میں اتنا زیادہ پھنس چکا ہے کہ اس کے لیے مڈل ایسٹ پر توجہ مبذول کرنا ممکن نہیں لیکن اگر وہ ایران کو امداد دے تو پھر نتائج مختلف ہوں گے اور معاملہ طول پکڑ جائے گا۔
عرب ممالک اس جنگ کو اسلام اور کفر کی جنگ نہیں سمجھتے یہ تاثر صرف پاکستان میں پایا جاتا ہے۔ عرب ممالک تو اندر سے خوش ہیں کہ ایران اب اپنا انقلاب ان کے ممالک میں ایکسپورٹ نہیں کر سکے گا۔ جہاں تک پاکستان کی آل پارٹیز کانفرنس کی قرار داد کا تعلق ہے تو اسرائیل اقوام متحدہ کے 193 ممبر ممالک پر مشتمل دنیا کی قرار دادوں کو نہیں مانتا وہ پاکستان کو کیا اہمیت دے گا۔ یہ قرار داد ایسے ہی ہے جیسے ایک SHO اپنے علاقے میں اشتہار لگوا دے کہ یہاں چوری کرنا منع ہے۔