’’کرپٹو کرنسی‘‘

سائنسی ترقی اور ٹیکنالوجی کے انقلاب کی وجہ سے ملک اور معاشروں کی معیشت کے ذرائع جدت اختیار کررہے ہیں۔ انٹرنیٹ نے تو کاروباری دنیا کے اندر ایک انقلاب برپا کر دیا ہے جسے ای کامرس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ رہی سہی کسر مصنوعی ذہانت نے نکال دی ہے۔ ٹیکنالوجی نے مالیاتی خدمات فراہم کرنے کے طریقوں کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ نئی مصنوعات اور نئی خدمات کی تخلیق کے ساتھ ساتھ روایتی کرنسی کے اند ربھی انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ کرپٹو کرنسی 21ویں صدی کی سب سے اہم تکنیکی ترقی میں سے ایک ہے۔ اسلامی دنیا کے معاشی ماہرین اور مذہبی سکالر اس پر اپنی آراء دے رہے ہیں اور یہ بحث وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھ رہی ہے۔ پوری انسانی تاریخ شاہد ہے کہ مختلف ادوار میں مختلف کرنسیاں رائج رہی ہیں۔ ماضی میں بہت ساری اشیاء کرنسی کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہیں جن میں مختلف طرح کی سیپیاں، چاول، نمک، مسالے، قیمتی پتھر، اوزار، گھریلو جانور یہاں تک کہ انسان بطور غلام اور کنیز بھی بطور کرنسی استعمال ہوتے رہے ہیں۔ حضرت عیسیٰ ؑکی پیدائش کے زمانے تک چین میں چاقو کرنسی کی حیثیت رکھتا تھا۔ افریقہ میں ہاتھی کے دانت کرنسی کا درجہ رکھتے تھے۔ پہلی جنگ عظیم تک نمک، بندوق، کارتوس امریکہ اور افریقہ کے بعض حصوں میں بطور کرنسی استعمال کئے جاتے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد آسٹریا میں فلیٹ کا ماہانہ کرایہ سگریٹ کے دو پیکٹ تھا۔ جزائر فجی میں 19ویں صدی تک سفید وہیل مچھلی کے دانت بطور کرنسی استعمال ہوتے تھے۔ ایک دانت کے بدلے میں ایک کشتی خریدی جا سکتی تھی۔ یہ خون بہا یا مہر ادا کے لئے بھی استعمال ہوتے تھے۔ انگولا کی خانہ جنگی کے دوران بیئر کی بوتلیں بطور کرنسی استعمال ہوئیں۔ ایران میں زعفران کی شکل میں ادائیگی کی جاتی تھی، ماضی میں تمباکو، خشک مچھلی، چائے، چینی اور چمڑے کے ٹکڑے بطور کرنسی استعمال ہو چکے ہیں۔ رومی سلطنت میں اجناس بطور کرنسی استعمال ہوتی تھیں۔زیادہ دور کی بات نہیں ہے پاکستان کے دیہات میں اجناس کے بدلے اشیائے خورونوش کا رضا کارانہ تبادلہ عام تھا۔ چین پہلا ملک ہے جس نے معاشی نظام میں کاغذی کرنسی کا آغاز کیا۔ انہوں نے کرنسی کا سکہ مربع یا گول شکل میں متعارف کروایا۔ چین کے شاہی خاندانوں تانگ خاندان، کائیووان خاندان، سونگ خاندان نے اپنے اپنے سکے متعارف کروائے۔ 600قبل مسیح میں چین نے کرنسی کے ارتقاء میں ایک اور قدم بڑھایا دھاتی سکے مہنگے اور بھاری ہونے کی وجہ سے ان کی تیاری اور ترسیل مشکل تھی۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لئے قدیم چین نے کاغذ کا استعمال شروع کیا۔واضح رہے کہ کاغذ چین ہی میں ایجاد ہوا تھا۔ ہر دور میں جدید ٹیکنیکس بھی آئیں اور اْن کے استعمال کے حوالے سے شرعی ابحاث کا دروازہ بھی کھلا۔ حلال حرام پر بحث کا آغاز بھی ہوا۔ اسی طرح آج کے دور کی جدید کرنسی کرپٹو کرنسی کے بارے میں بھی علماء کی آراء اور فتاوی سامنے آئے ہیں۔ اس پر منہاج یونیورسٹی لاہور کے بورڈ آف گورنرز کے ڈپٹی چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے اپنی نئی کتاب ’’کرپٹو کرنسی‘‘ تحریر کی ہے۔ غالباً یہ کتاب کرپٹو کرنسی کے اوپر پہلی تحقیقی کتاب ہے۔ اس کتاب میں کرپٹو کرنسی کا علمی و شرعی محاکمہ کیا گیا ہے۔کرپٹو کرنسی ایک عمومی اصطلاح ہے جس میں بٹ کوائن سمیت تمام دیگر ڈیجیٹل کرنسیاں شامل ہیں یعنی ان کرنسیوں کو سٹیٹس کی گارنٹی حاصل نہیں ہے اور یہ ہوائی کرنسیاں ہیں۔ اسلامی دنیا کے مفتیان نے کرپٹوکرنسی کے استعمال پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے اور فتاوی جات جاری کئے ہیں۔ 2017ء میں مصر کے دارالافتاء کے مفتی اعظم شاکی ابراہیم علام نے اعلان کیا کہ کرپٹو کرنسی کی تمام شکلیں بشمول خرید و فروخت، تجارت اور لیز مذہبی طور پر ممنوع ہیں۔ مفتی اعظم نے کہا کہ کرپٹو کرنسی کا معیشت پر منفی اثر پڑتا ہے۔ یہ لین دین کو متاثر کرتی ہے اور تاجروں کے لئے قانونی تحفظ کے فقدان کا باعث ہے۔ مزید برآں ان کا خیال ہے کہ کرپٹو کرنسی کا استعمال افراد کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ 2018ء میں ہندوستان کے مکتبہ دیو بند کے فتویٰ کے مطابق کرپٹو کرنسی قیاس آرائی پر مبنی ہے اس لئے اس کا استعمال حرام ہے۔ اسی طرح مفتی محمد تقی عثمانیؒ نے بھی اسے سٹہ بازی قرار دیا ہے۔ انہوں نے 2021ء میں ایک بیان میں کہا کہ یہ قیاس آرائی پر مبنی ہے اور اس کے پیچھے کسی اثاثے کی پشت پناہی نہیں اور نہ ہی اسے کسی حکومت یا اتھارٹی کے ذریعے ریگولیٹ کیا جاتا ہے۔ عرب امارات کے مذہبی امور اور اوقاف کی جنرل اتھارٹی نے بھی ایک فتویٰ جاری کیا ہے کہ اسے صرف اسی صورت جائز اور قانونی سمجھا جا سکتا ہے جب ریاست اس کی ذمہ داری لے۔ سعودی عرب کی مالیاتی اتھارٹی نے عوام الناس کو اس قسم کی ورچوئل کرنسیوں کی تجارت میں شریک ہونے سے خبردار کیا ہے۔ قطر کی یونین آف مسلم سکالرز نے قرار دیا کرپٹو کرنسی کی کریڈٹ ویلیو نہیں ہے اور نہ ہی اس پر اثاثہ کے طور پر کوئی دعویٰ کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے بھی ریاستی سطح پر اس کی سرپرستی کی ضرورت پر زور دیا۔ اسلامی معیشت کے ماہر ملائیشیا کے مذہبی سکالر محمد داؤد بکر نے بااثر انڈونیشین علماء کے گروپ کے ذریعے کرپٹو کرنسی کو حرام قرار دینے یا مسلمانوں کے لئے ممنوع قرار دینے والے فتاویٰ جات سے اختلاف کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کرپٹو کرنسی اجناس کی ایک نئی شکل ہے جسے سرمایہ کاری کے مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلامی دنیا میں کرپٹو کرنسی کے حوالے سے تفہیم کا فقدان ہے۔ بہرحال یہ ایک جدید دور کی زمینی حقیقت ہے آج نہیں تو کل مسلم حکومتوں کو اس کے بارے میں اپنی دو ٹوک رائے دینا ہو گی آغاز میں جب کسی چیز کی اہمیت کا ادراک نہیں ہوتا تو اس کا رد کیا جاتا ہے۔ حکومت پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ اس نئی کرنسی کے بارے میں اپنے عوام کو شعور دے اور مستقبل کے ان معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے لائحہ عمل طے کرے۔ پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی کرپٹو کرنسی پر نئی کتاب بنیادی معلومات اور کرنسی کی تاریخ پر ایک انتہائی معلومات افزاء کتاب ہے۔ سیاستدانوں، کالم نویسوں، اینکرز حضرات بالخصوص معاشی ماہرین اور بنکار حضرات کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔