لاشیں بچھانے کی سازش، اسلام آباد فوج کے حوالے

بلیک میلنگ اور ریاست دشمنی کی بلی تھیلے سے باہر آ گئی۔ لاشیں بچھانے کی سازشیں ناکام ہو گئیں۔ خان نے آخری جنگ خان کے سنگ کا نعرہ لگا کر کارکنوں کا لہو گرمانے کی کوشش کی، خان شاید زندگی کی آخری جنگ لڑ رہے ہیں۔ ناکام جلسوں سے پُر تشدد احتجاج پر اتر آئے۔ 2014ء کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ 4 اکتوبر کو ڈی چوک اور 5 اکتوبر کو لاہور میں دھرنا دینے کا اعلان بھی دیوانے کی بڑ ثابت ہوا۔ اسلام آباد اور لاہور کے سارے راستے کنٹینروں سے بند کر دئیے گئے۔ شہری پریشان پی ٹی آئی کو برا بھلا کہتے رہے۔ شہر اقتدار 4 اکتوبر کو جھوٹی سچی خبروں کی زد میں رہا۔ اسلام آباد ایکسپریس وے کے دو تین مقامات فیض آباد، سوان اور شمس آباد پر پی ٹی آئی کے کارکنوں نے ڈی چوک کی جانب بڑھنے کی کوشش کی مگر پولیس نے آنسو گیس کے جدید ترین شیل مار کر ناکام بنا دی۔ 25 کلو میٹر کا پورا شہر دھواں دھواں شہری گیس کی بو سے یا پی ٹی آئی کی حماقتوں پر آنسو بہاتے رہے۔ ایکسپریس وے پر کتنے کارکن تھے؟ عینی شاہدین کے مطابق ڈیڑھ سو کارکنوں کو بھگانے کے لیے دس ہزار پولیس اہلکار ان کے پیچھے رینجرز کے دستے، کوئی مقابلہ ہی نہیں تھا مگر دونوں جانب سے مقابلہ دن بھر جاری رہا۔ پولیس نے خواہ مخواہ قیمتی شیل ضائع کیے۔ اسلام آباد والے باہر نہیں نکلے زیادہ تر نالہ لئی اور ارد گرد کی آبادیوں کے لوگ تھے۔ کارکنوں سے زیادہ تعداد اخبار نویسوں، رپورٹرز کیمرہ مینوں، ویلاگرز اور یو ٹیوبر کی تھی جو تصویریں آن ایئر وائرل کر کے رات بھر ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ اسلام آباد آگ دھوئیں اور خون میں نہا گیا ہے۔ خان اقتدار کی آخری جنگ بھی ہار گئے۔ ڈی چوک میں 126 دن کے دوبارہ دھرنے کی خواہش سینے میں دم توڑ گئی۔ شنید ہے کہ خان کا بلڈ پریشر اتنا ہائی ہو گیا کہ انہیں طبی امداد دینا پڑی۔ ڈپریشن کی بنیادی وجہ علی امین گنڈا پور تھے جو اسلام آباد پر حملہ کے نام پر پکنک مناتے ہوئے رات دو بجے تک پتھر گڑھ کے ویران اور تاریک علاقہ میں پڑائو ڈالے ’’پیغامات‘‘ بھیجتے رہے کہ میں صبح حلوہ پوری کا ناشتہ کر کے واپس چلا جائوں گا۔ آئے کیوں تھے۔ کپتان نے جیل میں طلب کر کے ڈیڑھ لاکھ کا مسلح لشکر لے کر ڈی چوک پہنچنے کا حکم دیا تھا۔ جس میں نہ پہنچنے پر وزارت اعلیٰ سے بر طرفی کی دھمکی بھی شامل تھی۔ گنڈا پور نے اپنی گاڑی گلاب کے پھولوں سے سجائی۔ سرکاری مشینری، فائر بریگیڈ کی گاڑیاں، 1122 کی ایمبولینس اور بلڈوزر ساتھ لیے، خیبر پختونخوا کی تربیت یافتہ پولیس جدید اسلحہ سے مسلح جلو میں تھی۔ افغان طالبان پگڑیوں کے بجائے پی ٹی آئی کی ٹوپیاں پہنے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ چار یا پانچ ہزار کارکنوں کے ہاتھ میں کیلوں والے ڈنڈے، بنٹوں والی غلیلیں اور دیگر اسلحہ موجود تھا۔ گنڈا پور کو جگہ جگہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ پوری رات اندھیری رات کے مسافروں کی طرح بھٹکتے رہے۔ مگر ڈی چوک نہ پہنچ سکے۔ ڈی چوک پر رات بھر ٹولیوں اور پولیس میں آنکھ مچولی جاری رہی۔ اسی دوران حکومت نے آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت اسلام آباد فوج کے کنٹرول میں دے دیا۔ یوتھیا بریگیڈ نے سوشل میڈیا پر واویلا شروع کر دیا کہ مارشل لا لگ گیا حکومت ختم کپتان جیت گیا۔ 5 اکتوبر کا سورج طلوع ہوا تو ڈی چوک پر سناٹا طاری تھا۔ پولیس والے ’’یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا‘‘ کے مصداق فٹ پاتھوں پر بیٹھے سستا رہے تھے تمام عمارتوں پر فوجی دستے تعینات، کریک ڈائون مکمل پی ٹی آئی کے 412 کارکن گرفتار کر لیے گئے۔ کپتان کی دونوں بہنیں علیمہ خان اور عظمیٰ خان بھی حراست میں لے لی گئیں۔ وکلا قیادت سین سے غائب رہی۔ ڈیتھ ٹریپ ہمیشہ کی طرح ناکام، دوسرے صوبوں سے کوئی آیا نہ گیا۔ ٹی وی سکرینوں پر خان کے لیے جانیں قربان کرنے کے دعوے کرنے والے دور بینوں سے حالات کا جائزہ لیتے رہے۔ ڈو آر ڈائی کے بجائے ڈو اینڈ ڈائی کا نعرہ کہیں فضا میں گم ہو گیا۔ جیل سے پیغام ملا تھا ’’بڑھتے بھی چلو کٹتے بھی چلو، بازو بھی بہت ہیں سر بھی بہت‘‘ بازو کٹے نہ سر دینے کی نوبت آئی۔
ڈی چوک پر طویل دھرنے کا منصوبہ کیوں بنایا گیا۔ حقائق تسلیم کیے جانے چاہیے۔ ملک ڈیفالٹ کے خطرات سے نکل کر معاشی استحکام کی راہ پر چل نکلا، پڑوسی ممالک آئی ایم ایف کے معاہدے کے بعد معاشی تعاون کی پیشکشیں لیے پاکستان آ رہے ہیں۔ ملائیشیا کے وزیر اعظم آ کر چلے گئے 14 اکتوبر کو چینی وزیر اعظم شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے آئیں گے۔ سربراہ اجلاس 15 اور 16 اکتوبر کو ہو گا۔ اس میں بھارتی وزیر خارجہ بھی شریک ہوں گے۔ سعودی عرب کا اعلیٰ سطح کا وفد بھی پاکستان کا دورہ کرے گا۔ اس تمام سیٹ اپ کو ڈسٹرب کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ اس سے قطع نظر 63 اے کے فیصلے کے بعد حکومت وفاقی آئینی عدالت سمیت ترامیم منظور کرانے کا شور مچا رہی تھی۔ یہ ترامیم 7 اکتوبر کو پارلیمنٹ سے منظور ہونا تھیں۔ مولانا فضل الرحمان حکومتی کوششوں کے باوجود حمایت پر آمادہ نہ ہو سکے۔ تاہم حکومتی ذرائع کے مطابق آزاد ارکان (پی ٹی آئی کے تتر بتر لوگ) کو توڑ دیا گیا۔ آئینی عدالت کا قیام از بس ضروری ہے۔ یہ عدالت آئینی پٹیشن اور مقدمات کے فیصلے کرے گی۔ ممتاز صحافی جاوید چودھری کے مطابق آئینی عدالت کے قیام کی ترمیم اب سربراہ اجلاس کے بعد 16 یا 17 اکتوبر کو منظوری کے لیے پیش کی جائے گی۔ حکومت چاہتی ہے کہ قانون سازی کا پورا مرحلہ 25 اکتوبر سے قبل مکمل ہو جائے تاکہ سہولت کاروں کا خطرہ ٹل سکے۔ خان کو حالات کا اندازہ ہے اسی لیے انہوں نے دھرنوں کی کال دی ہے، انہیں احساس ہے کہ ترامیم کی منظوری کے بعد ان کے ہاتھوں میں کچھ نہیں رہے گا، حتیٰ کہ ان کے اپنے جج بھی کچھ نہ کر سکیں گے۔ ڈیتھ ٹریپ ناکام، کیا کریں مقدر کی لکیریں ساتھ نہیں دے رہیں۔