تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہے

بکھرے ہوئے نقطے اکٹھے کر لئے جائیں تو تصویر بن جاتی ہے۔ کوئی ایک نقطہ، نظر سے اوجھل ہو جائے تو تصویر نامکمل ہو جاتی ہے۔ ڈی چوک پہنچ کر دھرنا دینے احتجاج کرنے والے اسے کامیاب بنانے کیلئے سردھڑ کی بازی لگاتے نظر آئے۔ دوسری طرف اس احتجاج اس دھرنے کو ناکام بنانے والے اپنی تمام تو ترانائیاں استعمال کر کے اسے ناکام بنانے میں مصروف رہے، اسی ہنگامے میں بعض نقطے ہی نہیں مکمل تصویر منظر سے غائب ہو سکتی تھی۔ خبر آئی ملائیشیا کے وزیراعظم پاکستان کے تین روزہ دورے پر تشریف لا رہے ہیں پھر اچانک خبر ملی کہ تبلیغ اسلام کا منفرد سٹائل رکھنے والے مبلغ جناب ڈاکٹر ذاکر نائیک بھی پاکستان کے دورے پر آرہے ہیں پھر وہ وزیراعظم ملائیشیا کے پاکستان پہنچنے سے پہلے پاکستان پہنچ گئے۔ یہ محض اتفاق تھا یا کچھ اور؟ ڈاکٹر ذاکر نائیک ملائیشیا قیام پذیر ہیں، انہیں وہاں کی شہریت دی جا چکی ہے، اس سے قبل وہ بھارت میں تھے جہاں وہ پیدا ہوئے ، تعلیم حاصل کی پھر انہوں نے ایک ادارہ بنایا اور اس کے بینر تلے تبلیغ اسلام کا عظیم کام شروع کیا پھر ایک وقت آیا کہ ان کا خطاب سننے کیلئے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے اور مسلمان بالخصوص ان کے اجتماعات میں شرکت کرتے، انہیں اعزاز حاصل ہے کہ ان کی تعلیمات سے متاثر ہو کر غیر مسلموں کی ایک بڑی تعداد نے اسلام قبول کیا، ان کی مقبولیت بھارتی حکومت کو ایک آنکھ نہ بھائی، ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا تو انہوں نے بھارت کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے مطابق انہیں پندرہ ممالک نے اپنے یہاں آنے اور شہریت دینے کی پیشکش کی لیکن انہوں نے ملائیشیا ہجرت کرنا بہتر جانا، اس کی بجائے وہ سعودی عرب جانے کا فیصلہ کر سکتے تھے جہاں کی حکومت نے انہیں ان کی تبلیغی خدمات کے عوض ایک اعلیٰ اعزاز سے نوازا، وہ دنیائے اسلام کی سب سے بڑی ریاست اور نیوکلیئر ملک پاکستان بھی آسکتے تھے لیکن ان کا انتخاب ملائیشیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی تحقیق کے مطابق ملائیشیا دنیا کے چند گنے چنے ملکوں میں سے ایک ہے جو کسی غیر ملکی طاقت کے ذریعے باہر سے کنٹرول نہیں ہوتا، ان کی بات کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ تمام اسلامی ملک کسی نہ کسی انداز میں کسی نہ کسی غیر ملکی طاقت کے زیر اثر ہیں اور باہر سے کنٹرول ہوتے ہیں۔ ستاون اسلامی ممالک پر نظر ڈالیں تو یہ بات باآسانی سمجھ میں آتی ہے کہ کون سا ملک کس کو کنٹرول کرتا ہے۔ ایسے میں اگر ملائیشیا کو کوئی غیر ملکی حکومت کنٹرول نہیں کرتی تو یہ اس ملک کے بسنے والوں اور وہاں کی حکومت کیلئے ایسا اعزاز ہے جس پر انہیں جتنا بھی سراہا جائے کم ہے۔ ملائیشیا کے عوام اور ان کے حکمران اپنا یہ تشخص بنانے میں کامیاب رہے ہیں حالانکہ وہ نیو کلیئر پاور نہیں ہیں، ان کے پاس دنیا کی بہترین فوج نہیں ہے، ان کے یہاں چار موسم ہیں، ان کے کھیت سونا نہیں اگلتے، ان کے پاس صحرا ہیں نہ سارا سال برف سے ڈھکی پہاڑوں کی چوٹیاں وہاں معدنیات کے خزانے بھی نہیں ہیں، یہ سب کچھ نا ہونے کے باوجود وہ کسی ملک کے مقروض نہیں، وہ روکھی سوکھی کھا کر نہیں بلکہ چپڑی ہوئی اور وہ بھی دو دو کھا کر چین کی نیند سوتے ہیں، انہوں نے یہ پیغام کیسے حاصل کیا، اگر اسے ایک فقرے میں کہنا ہو تو وہ یہ ہے کہ ملائیشیا غیرتمند اور دیانتدار لوگوں کا ملک ہے، ان کے حکمران بھی ان جیسے ہیں اور ان میں سے ہی ہیں، کسی کی امریکہ، برطانیہ، فرانس، نیوزی لینڈ، سپین یا پھر یو اے ای میں جائیدادیں یا کاروبار نہیں ہیں۔ کوئی کبھی کسی کرپشن کنٹرول کرنے والی عدالت کو مطلوب نہیں، وہاں مجرموں کو بچانے کیلئے آہنی یا قانونی ترامیم کر کے ڈرائی کلین نہیں کیا جاتا، نہ ہی داغدار دامن رکھنے والوں کو اقتدار سونپا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک حکومت پاکستان کی دعوت پر آئے ہیں، آج سے قریباً بیس روز قبل انہیں ہنگامی بنیادوں پر اس دورے کی دعوت دی گئی، پاکستان پہنچنے سے قبل ان کی مصروفیات کا شیڈول طے کر کے ان کے حوالے کر دیا گیا، انہیں بعض معاملات میں یقینا رہنمائی فراہم کی گئی جس کے مطابق انہوں نے اپنے سٹاف سے کہا کہ ان کا پروگرام ان کے ادارے کی ویب سائٹ پر ڈال دیا جائے۔
پاکستان لینڈ کرنے کے بعد ڈاکٹر ذاکر نائیک نے پہلی ملاقات مولانا فضل الرحمن سے کی اور ملاقات میں انہیں بتایا کہ پاکستان پہنچنے سے قبل انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ سب سے پہلے ان سے ہی ملیں گے۔ یہ بات مولانا فضل الرحمن کے لئے حیرت کا باعث تھی اور سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کیلئے بھی، شوق ملاقات کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب مختلف شہروں میں اجتماعات سے خطاب کریں گے، جن میں کراچی، راولپنڈی، لاہور شامل ہیں جبکہ صوبہ خیبر میں ان کا کوئی خطاب نہیں رکھا گیا، وہ مزار اقبال یا مزار قائداعظم پر نہیں جا رہے ، کہیں پھول نہیںچڑھا رہے۔ ڈاکٹر ذاکر نے ایک انٹرویو میں کہا کہ انہیں بتایا گیا پاکستان میں ان کی جان کو خطرہ ہے لیکن وہ خوفزدہ نہیں ہیں کیونکہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ انہوں نے اپنی خواہش اور دعا کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اللہ انہیں اس وقت اپنے پاس بلا لے جب وہ تبلیغ جیسے نیک کام کی انتہا پر ہوں۔ وہ آج نیک کام کی انتہا پر ہیں۔ راز کی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کو پاکستان بلانے کا فیصلہ اس وقت ہوا جب مولانا فضل الرحمن نے آئینی ترامیم میں حکومت کی حمایت سے صاف انکار کر دیا اور بتایا کہ انہیں وہ ڈرافٹ دکھایا ہی نہیں گیا جس میں پچاس سے زائد ترامیم کی تفصیل تھی۔ دوسری طرف تحریک انصاف کی طرف سے ملک گیر احتجاج کی کال دی جا چکی تھی۔ صاف ظاہر تھا کہ ملک میں سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہوں گی، اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ، انتظامیہ، صوبائی حکومتیں، وکلا برادری اور اپوزیشن جماعتوں کے کارکن و لیڈر مقابل ہونگے۔ سیاسی انتشار اپنے عروج پر ہو گا مگر پھر بھی امید تھی کہ لوگ سب کچھ چھوڑ کر ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خطابات سننے کیلئے دوڑے چلے آئیں گے۔ یہ خیال خام ثابت ہوا۔ ایک کوشش کی جا رہی ہے کہ ڈاکٹر نائیک کو مستقل پاکستان کا مہمان بنا لیا جائے، کم از کم کوئی اور نہ سہی مولانا فضل الرحمن کے مقابل کھڑا کر دیا جائے۔ ڈاکٹر ذاکر ’’ادیان کے تقابل‘‘ پر دسترس رکھتے ہیں جبکہ مولانا فضل الرحمن عالم دین ہونے کے ساتھ سیاسی مقام اور سیاسی جماعت کے سربراہ بھی ہیں۔ وہ اوپننگ بیٹسمین ہیں، مڈل آرڈر اور ٹیل اینڈ پر کھیل کر میچ جیتنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ دونوں کا کوئی مقابلہ نہیں، تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہے۔